پانی کا بحران اور ایٹمی جنگ

634

پاکستان زرعی، معدنی اور دیگر شاندار قدرتی خزانوں کی ساتھ ساتھ بہترین آبی وسائل سے بھی مالا مال ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے پاکستان میں آخری بڑا تربیلا ڈیم 1974 میں مکمل ہوا، اس کے 45 سال بعد 2019 میں بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے انڈیا میں پانی کا بحران پاکستان سے زیادہ شدت اختیار کر گیا ہے جس کی وجہ سے چین اور انڈیا، انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایٹمی جنگ کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے جبکہ پانی کی وجہ سے انڈیا اور بنگلا دیش کے تعلقات بھی بہتر نہیں ہیں۔
ارسا کے مطابق پاکستان میں بارشوں سے ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے صرف 13۔7 ملین ایکڑ فٹ پانی بچایا جا سکتا ہے پاکستان ان ممالک کی فہرست میں بھی شامل ہے جس کے پاس پانی کے بڑے بڑے ذخائر ہیں جو اب خاتمے کی طرف جارہے ہیں اگر صورتحال یہی رہی تو ممکن ہے کہ 2025ء تک ملک میں پانی کا شدید بحران ہوگا۔ پاکستان دنیا کے ان 36 ممالک میں شامل ہیں جہاں پانی کا سنگین بحران ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 3 کروڑ افراد صاف پانی تک رسائی سے بھی محروم ہیں اوریہاں فی شخص سالانہ پانی کی دستیابی (1 ہزار کیوبک) میٹر سے بھی کم ہے، اگر یہ فی شخص سالانہ 500 کیوبک میڑ تک پہنچ جاتا ہے تو عین ممکن ہے کہ 2025 تک پانی کی قطعی کمی واقع ہوجائے۔
آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے 2017 میں یہاں آبادی 18 کروڑ تھی جو اب 22 کروڑ تک پہنچ چکی ہے، اس لحاظ سے 2025 تک پاکستان کی پانی کی طلب 274 ملین ایکڑ فٹ، جبکہ پانی کی فراہمی 191 ملین ایکڑ فٹ تک ہوسکتی ہے۔ پْرانے فرسودہ کاشتکاری کے رائج طریقہ کار کی وجہ سے فصلوں کی کاشت میں 95 فی صد ملک کا پانی استعمال ہوجاتا ہے جو نہایت سنگین ہے، آبپاشی کے ناقص نظام کی وجہ سے 60 فی صد پانی ضائع ہورہا ہے۔ ملک کا 92 فی صد حصہ نیم بنجر ہے لہٰذا پاکستان میں پانی کی فراہمی کے لیے بارش پر انحصار ہے۔ آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے مٹی میں موجود پانی بھی تیزی سے بخارات بن کر سوکھ رہا ہے، جس سے فصلوں کے لیے پانی کی طلب میں بھی اور اضافہ ہورہا ہے واش واچ اورگنائزیشن کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق آزادی کے وقت پاکستان میں فی صد پانی کی قدار 5 ہزار چھے سو کیوبک میٹرز تھی جبکہ اب وہ کم ہو کر فی صد ایک ہزار 17 کیوبک میٹرز رہ گئی ہے جو ایک پریشان حد تک کم سطح ہے لگ بھگ ایک کروڑ 60 لاکھ لوگوں کے پاس گندا پانی پینے کے سوا اور کوئی چارا ہی نہیں ہے۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (پی سی آرڈبلیو) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک میں بیماریوں کی وجہ سے ہونے والی اموات میں 40 فی صد اموات پیٹ کی بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں جس کی بنیادی وجہ آلودہ پانی کا استعمال ہے۔
پاکستان ریسرچ ان واٹر ریسورسس (پی سی آر ڈبلیو آر) کے مطابق، 2005 میں پاکستان میں آبی قحط کی حد عبور کی جاچکی ہے، دنیا کے سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں ہم چوتھے نمبر پر ہیں جہاں پانی کے استعمال کی شرح (فی یونٹ جی ڈی پی میں استعمال ہونے والے پانی کی مقدار) دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ آئی ایم ایف، یو این ڈی پی اور دیگر اداروں کی مختلف رپورٹس میں بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اور 2040 تک پاکستان خطے کا سب سے کم پانی والا ملک بن سکتا ہے، پورے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے صرف 2بڑے ذرائع ہیں جہاں محض 30 دن کا پانی جمع کیا جاسکتا ہے۔ جو ناکافی ہے۔
پاکستان میں ایک اہم مسئلہ ڈیموں کی قلت بھی ہے۔ 2017 میں ارسا نے سینیٹ میں بتایا تھا کہ پانی کے ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 21 ارب روپے مالیت کا پانی ضائع ہوجاتا ہے اور جتنا پانی سمندر میں جاتا ہے اسے بچانے کے لیے منگلا ڈیم کے حجم جتنے 3 مزید ڈیموں کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان کو پانی کے شدید بحران سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ڈیم بنانے کے ساتھ ساتھ پانی کے ضیاع کو روکنے کے اقدامات بھی کیے جائیں۔ پاکستان بننے کے بعد سے آج تک ملک میں صرف دو ’میگا‘ ڈیمز کی تعمیر ہوئی ہے جن میں سے ایک 138 میٹر اونچا منگلا ڈیم ہے جو 1967 میں مکمل ہوا جبکہ دوسرا 143 میٹر اونچا تربیلا ڈیم ہے جو 1974 میں مکمل ہوا۔ پانی کی قلت کو دیکھتے ہوئے 2019 میں دیامر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر کا آغاز کردیا گیا ہے جو ملک کی بقا اور معاشی نمو کے لیے بہت ضروری ہے، ان کی تعمیر کے لیے فنڈز کا انتظام واپڈا ہی کرے گا۔ واپڈا کی جانب سے دی گئی تفصیلات کے مطابق پشاور شہر سے 48 کلومیٹر کا فاصلے پر دریائے سوات پر کنکریٹ کی مدد سے تعمیر کیے جانے والے ڈیم کی اونچائی 213 میٹر ہوگی اور منصوبے کے تحت اس سے آٹھ سو میگا واٹ بجلی حاصل کی جا سکے گی۔ حکام کے مطابق اس ڈیم کی تکمیل پانچ سے سات سال میں متوقع ہے۔ ڈیم کی تعمیر سے بننے والی مصنوعی جھیل میں 13 لاکھ ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہو سکتا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ سات دروازوں پر مشتمل ڈیم کی تعمیر سے نہ صرف سالانہ 2800 گیگا واٹ سے زیادہ بجلی بنائی جائی گی بلکہ اس کی مدد سے چارسدہ اور نوشہرہ ضلع کو سیلاب سے متاثر ہونے سے بھی بچایا جا سکے گا۔ ڈیم کی تعمیر سے 16000 ایکڑ کی زمین زراعت کے قابل ہو جائے گی اور ساتھ ہی پشاور شہر کے باسیوں کو 460 کیوسک پینے کا پانی مہیا ہو جائے گا۔
مختلف ممالک میں بڑے بڑے دریاؤں پر پانی ذخیرہ کرنے والے لاتعداد ڈیموں اور نہروں کی تعمیر کی وجہ سے اِن دریاؤں کے زیریں حصے پر واقع ملک پانی سے محروم ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان ملکوں میں جنگوں کے خطرات بڑھ رے ہیں۔ انڈیا اور چین کے درمیان حال ہی میں کئی سرحدی جھڑپیں ہوئی ہیں، جو ان دریاؤں کے اوپر والے علاقوں پر دعویٰ کرتے ہیں۔ پچھلے سال مئی میں وادی گلوان میں ایک پرتشدد تصادم، جہاں سے دریائے سندھ کی ایک معاون ندی بہتی ہے، میں لڑائی کی وجہ سے 20 ہندوستانی فوجی ہلاک ہو گئے۔ ایک ماہ سے بھی کم عرصے بعد یہ خبریں آئیں کہ چین وہاں ’اسٹرکچر‘ بنا رہا ہے جو شاید دریا کو بند کر سکتا ہے اور اس طرح اس کا بہاؤ انڈیا کے لیے محدود ہو سکتا ہے۔ انڈیا میں بعض لوگوں کو ڈر ہے چین براہما پترا پر تعمیر ڈیم کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتا ہے انڈیا اور چین کے درمیان سرحد پر تناؤ اور جھڑپوں کے بعد اب چین اور انڈیا ایک اور جنگ کی جانب بڑھتے نظر آتے ہیں۔ اب کی بار کشیدگی کی وجہ ایک ایسا سپر ڈیم زیر تعمیر ہے جس کی دنیا میں کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ انڈیا میں کچھ لوگوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر چین نے انڈیا کی سرحد کے قریب اتنا بڑا ڈیم تعمیر کر لیا تو چین اسے ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کر سکتا ہے۔ چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ تبت سے نکلنے والے یرلانگ ژانگبو دریا پر ایک ڈیم تعمیر کرنے کا اردہ رکھتا ہے۔ بھارت اور بنگلا دیش کے مابین بھی دریائی پانی کا جھگڑا گرم رہتا ہے۔ خود بھارت کے اندر مختلف دریائوں کے پانی کی تقسیم کے تنازعات بھی چلتے رہتے ہیں۔ اس لحاظ سے پاکستان اور بھارت یا پاکستان کے چاروں صوبوں کے درمیان دریائی پانی کی آویزش پر کسی کو اچنبھا نہیں ہونا چاہیے۔ سندھ طاس کے معاہدے کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے بھارت نے پاکستان کو صحرا میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔
اس سارے منظر نامہ میں انڈیا اور پاکستان میں ایٹمی جنگ متوقع ہے جس کی وجہ پانی کی قلت ہو گی، ان خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ حکومت کی کوششوں سے 2019 میں دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر کا آغاز کر دیا گیا ہے جو ابھی سست روی کا شکار ہے لیکن ان منصوبوں کی موجودگی میں بھاشا ڈیم کے اوپر اشوک ڈیم کی تعمیر بھی ناگزیر ہے، ان منصوبوں کی تعمیر میں زیادہ وقت چاہیے اس دوران فرسودہ آبپاشی کے نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، چھوٹے ڈیمز کے منصوبے جیسے مورنج ڈیم اور چنیوٹ ڈیم وغیرہ کی تعمیر مکمل کی جائے۔ ایک قوم کی حیثیت سے پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے بہت زیادہ پلاننگ کی ضرورت ہے تاکہ پانی قلت پر قابو پایا جاسکے۔