منجمد درجہ حرارت اور منجمد اثاثے

630

اس وقت افغانستان کے لحاظ سے بین الاقوامی برادری کا موقف عجیب ہے۔ جب وہ افغانستان کو چھوڑ کر گئے تو انخلا کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا، انتہائی افراتفری اور جلد بازی میں افغانستان سے نکلے، افغانوں کے ساتھ جو ان کے وعدے تھے وہ تو ایک طرف وہ تو خود اپنے سب لوگوں کو بھی افغانستان سے بحفاظت لے جانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ بعد میں پاکستان سے تعاون کی درخواست کی گئی، یوں کابل سے پندرہ ہزار افراد کو نکال کر راتوں رات پاکستان پہنچایا گیا۔ امریکی فوج نے اپنے پیچھے جو افغانستان چھوڑا تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہاں ترقی ہوتی اور وہ کچھ تو خوشحالی کا نمونہ ہوتا مگر وہاں اب پہلے سے زیادہ بھوک، افلاس اور بیماری تھی۔ تعلیم، پینے کا صاف پانی، اسپتال اور سب سے بڑھ کر امن و سلامتی محض خواب بنادیا گیا تھا۔ امریکا نے 7 ٹریلین ڈالر اس جنگ میں ضائع کیے، یہ ڈالر اگر افغانستان کی ترقی میں استعمال ہوتے تو وہاں کے مناظر بالکل مختلف ہوتے اور امریکا یوں ہاتھ ملتا ہوا افغانستان سے نکل بھاگنے پر مجبور نہ ہوتا۔ طالبان نے پچھلے سال اگست 2021ء میں کابل کا کنٹرول سنبھالا تھا، اب تقریباً 5 ماہ ہونے کو ہیں لیکن بین الاقوامی برادری نے طالبان کی حکومت کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا ہے۔ مغربی ممالک نے افغانستان کے بینکوں کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا ترقیاتی فنڈ بھی روک دیا ہے۔ مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ وہ خواتین کی تعلیم اور دیگر حوالوں سے طالبان کو پرکھ رہے ہیں، جس کے لیے انہیں شکوک و شبہات ہیں، انتہائی شرم کی بات ہے کہ وہ انسانی جانوں کے مقابلے میں بے پر کے شکوک و شبہات کو اہم قرار دے رہے ہیں۔ افغانوں کی رقم اُن کے حوالے نہیں کررہے کہ وہ اپنے عوام کے لیے غذا، دوائیں اور سخت سرد موسم میں ایندھن کا انتظام کریں۔
اس وقت افغانستان میں انتہائی شدید سرد موسم ہے۔ 30 لاکھ کے قریب افغان عوام شدید متاثر ہیں۔ جنگ کے باعث خشک سالی، غربت اور اپنے ہی وطن میں مہاجر اور پناہ گزین کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ آج افغانستان میں انسانی بحران سر اُٹھا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کتنے ہی دھیمے سروں میں یہ بات کہے لیکن کہہ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری امریکا اور عالمی بینک سے افغانستان کے فنڈز کو کھولنے کی التجا کررہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ افغانستان کو اقتصادی اور سماجی تباہی سے بچانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے کیوں کہ اس وقت لاکھوں افغان موت کے دہانے پر ہیں۔ منجمد درجہ حرارت اور منجمد اثاثے افغانستان کے عوام کے لیے ایک انتہائی مہلک امتزاج ہے۔ امریکا اور مغرب انسانی جانوں کی کتنی قدر کرتے ہیں ان کا یہ عمل ظاہر کررہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کہہ رہے ہیں کہ افغانستان کے غیر ملکی ذخائر میں سے 7 ارب ڈالر امریکا نے منجمد کر رکھے ہیں۔ یہ رقم امریکا میں موجود ہے، یعنی امریکا نے اس پر قبضہ کر رکھا ہے۔ بین الاقوامی برادری افغانستان کو نہ تسلیم کررہی ہے اور نہ ہی اس کے اثاثوں کی بحالی کے لیے کوئی قدم اُٹھانے پر آمادہ نظر آرہی ہے۔ وہ خواتین کے حقوق کے لیے دبائو ڈال رہے ہیں جو اصل میں اُن کی زندگی کے خاتمے کے لیے نظر آرہا ہے۔ زندگی ہوگی تو تعلیم بھی حاصل کرسکیں گی۔ افغانستان کے ذبیح اللہ مجاہد کہتے ہیں کہ لڑکیوں اور خواتین کے لیے تعلیم اصل میں حکومت کے لیے نہایت اہم ہے اور اس کی صلاحیت کا سوال ہے ہم تعلیم کے خلاف نہیں ہیں۔ لیکن لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے پوری طرح الگ الگ اسکول بنائیں گے، محض کلاس روم الگ ہونا کافی نہیں ہے، عمارت بھی علٰیحدہ ہونی چاہیے۔ خیال ہے کہ ایک آدھ ماہ میں یہ مسائل حل ہوجائیں گے۔ محض خواتین کی تعلیم کے بارے میں شکوک و شبہات کو بنیاد بنا کر اربوں ڈالر کے فنڈ کی واپسی روک لی گئی ہے۔ یوں انسانی جان کی اہمیت اور حفاظت کے لیے اُن کے سارے دعوے مٹی میں ملتے نظر آرہے ہیں۔
دوسری طرف طالبان نے کابل پر قبضہ کے بعد کسی کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہ کرنے کا اعلان کیا، تمام افغان حکام اور سیکورٹی فورسز جو براہِ راست طالبان پر بمباری کرنے اور ہر طرح کا تشدد کرنے میں ملوث تھے انہیں عام معافی دینے کا اعلان کرکے فتح مکہ کی یاد دلادی تھی۔ آج افغانستان کے وزیراعظم مطالبہ کررہے ہیں کہ ان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے۔ اُن کا سب سے پہلے مطالبہ مسلم ممالک سے کہ وہ آگے بڑھ کر ان کو تسلیم کریں۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ ہم اپنی سیاسی کامیابی کے لیے نہیں عوام کے لیے چاہتے ہیں۔ اس سے افغانستان کی معیشت بحال ہوگی، عوام کے معاشی مسائل حل ہوں گے۔ افغانستان کی اقتصادی بحالی عالمی برادری کی ذمے داری ہے۔ انہیں طالبان کی حکومت کو تسلیم بھی کرنا چاہیے، انہیں قانونی حیثیت بھی دینی چاہیے، ان کی رقم ان کے منجمد اثاثے اُن کے حوالے کرنا چاہیے۔ آج نہیں تو کچھ عرصے بعد انہیں لازمی ایسا ہی کرنا پڑے گا۔ جب تک مورخ ان کے نام کچھ اور سیاہ باب لکھ چکا ہوگا۔