پیپلز پارٹی کی مذاکراتی تاریخ

554

جب سے پیپلز پارٹی قائم ہوئی ہے اسی وقت سے اس نے ایک دو نہیں دسیوں بھی نہیں بلکہ سیکڑوں مذاکرات کیے ہوں گے ان میں اندرون ملک بھی دیگر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات اور بین الاقوامی سطح پر غیر ملکی سربراہوں سے۔ ان میں اندرونی سطح پر 1970کے انتخابات کے بعد شیخ مجیب سے مذاکرات جو کامیاب نہ ہو سکے، دوسرے شملہ میں اندرا گاندھی سے مذاکرات جس کے نتیجے میں 93ہزار سول اور فوجی قیدیوں کو بھارت کی قید سے چھڑا کر لانا تھا اس مذاکرات میں بھٹو صاحب کامیاب ہوئے۔ ملک کے اندر تو پی پی پی نے ایم کیو ایم سے اور دیگر سیاسی گروہوں سے دسیوں بار مذاکرات کیے جن میں کبھی کامیاب ہوئے اور کبھی ناکام لیکن ہم یہاں دو مذاکرات کا تفصیل سے ذکر کریں گے جس سے پیپلز پارٹی کا مذاکرات کے حوالے سے مائنڈ سیٹ کا اندازہ ہو جائے گا، ایک تو 1972میں دستور سازی کے موقع پر حزب اختلاف سے مذاکرات اور دوسرے 1977میں پاکستان قومی اتحاد سے دوسرے انتخاب کے انعقاد کے حوالے سے مذاکرات کیونکہ پہلے والے انتخاب میں اتنی زبردست دھاندلی ہوئی تھی کہ اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی این اے کو ایک بھرپور تحریک چلانی پڑگئی تھی۔
ان دونوں مذاکرات کی تفصیل میں جانے سے پہلے ایک واقعہ سناتے ہیں بظاہر تو اس سے اس واقع کا کوئی تعلق تو نظر نہیں آتا لیکن جب آپ سوچیں گے تو فریکوئنسی مل ہی جائے گی۔ ایک صاحب اپنے دفتر سے گھر جارہے تھے جب وہ اپنے فلیٹ کے احاطے میں داخل ہوئے تو سیڑھیاں چڑھنے سے پہلے ایک خان صاحب نظر آئے جو قالین بیچ رہے تھے، خان صاحب کے پاس ایک ہی قالین تھا ان صاحب کی شامت آئی کہ انہوں نے خان صاحب سے پوچھ لیا کے یہ قالین کتنے کا ہے خان صاحب نے کہا بس یہ آپ ہی کا بچاہے سارے بک گئے یہ آٹھ ہزار کا ہے بس تم چھے ہزار دے دو ان صاحب نے کہا نہیں ہمیں لینا نہیں ہے بس ایسے ہی دام پوچھ لیا تھا خان صاحب بھی ان کے ساتھ سیڑھیاں چڑھتے گئے اور پیسے کم کرتے گئے انہوں نے چار ہزار کردیے پھر تین ہزار اچھا تم بتائو تم کیا دے گا خان صاحب نے پوچھا انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس قالین کے سات سو روپے دیں گے خان صاحب نے کہا تم مذاق کرتا ہے آٹھ ہزار کے قالین کا سات سو دے رہا ہے پھر جب وہ صاحب اپنے فلیٹ کے دروازے سے گھر جانے لگے تو خان صاحب نے اچھا دیکھو نہ تمہارا بات نہ ہمارا بس ایک ہزار دے دو ان صاب نے انکارار کردیا ہمیں تو لینا ہی نہیں تھا بالآخر وہ آٹھ ہزار کا قالین سات سو میں دے کر چلا گیا۔
16دسمبر 1971 کو جب ڈھاکا فال ہوا بھٹو صاحب ملک سے باہر تھے جنرل یحییٰ نے بھٹو صاحب کو بلایا اور 20دسمبر 1971کو انہیں اقتدار منتقل کردیا بھٹو صاحب نے ڈپٹی چیف مارشل لا کی کیپ اپنے سر پر رکھ لی یہ بھی ایک عجیب تماشا تھا کہ ایک سویلین لیڈر فوجی کیپ پہن کر حکمرانی کررہا ہے چونکہ سانحہ مشرقی پاکستان کی وجہ سے پورے ملک میں ایک سوگوار فضاء تھی اس لیے بھٹو صاحب کا قدم کچھ دن تو قوم نے برداشت کیا، جب حزب اختلاف کی طرف سے تنقید میں شدت آئی تو بھٹو صاحب نے حزب اختلاف کے رہنمائوں سے مذاکرات کیے اور مارشل لا کی کیپ اتارنے کے عیوض ایک عبوری دستور منظور کرایا جس کو حزب اختلاف کے رہنمائوں نے بادل نا خواستہ اس لیے تسلیم کرلیا کہ اس سے ایک تو بھٹو صاحب کے سر سے فوجی کیپ اتررہی تھی اور دوسرے یہ صرف ایک سال کے لیے تھا کہ یہ بات طے ہو گئی تھی کہ 14اگست 1973 سے مستقل دستور نافذ العمل ہو جائے گا۔ جب یہ تاریخ قریب آنے لگی تو حزب اختلاف کا مطالبہ شدت اختیار کرنے لگا کہ دستور سازی کے سلسلے میں مذاکرات کیے جائیں بھٹو صاحب کی خواہش تھی کہ اسی عبوری دستور مستقل دستور بنادیا جائے حزب اختلاف اس پر آمادہ نہ تھی۔ پھر یہ ہوا کہ مستقل دستور سازی کے لیے بھٹو صاحب نے حزب اختلاف کے رہنمائوں کو ایک خط لکھ کر مذاکرات کی دعوت دی وہ خط کیا تھا وہ در حقیقت حزب اختلاف کے خلاف ایک چارج شیٹ تھی اور اتنا اشتعال انگیز وہ خط تھا کہ بھٹو صاحب کا خیال تھا کہ اس خط کو پڑھ کر حزب اختلاف کے لیڈر مذاکرات کا بائیکاٹ کر دیں گے پھر ہم اپنی مرضی کا دستور اسمبلی سے پاس کرالیں گے بھٹو صاحب نے اس خط کو اخبارات میں شائع بھی کردیا تھا۔ لیکن ادھر بھی مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفوار احمد، نواب زادہ نصراللہ خان، مولانا شاہ احمد نورانی جیسے جہاندیدہ لوگ تھے وہ بھٹو صاحب کی چال کو سمجھ گئے اور یہ فیصلہ ہوا کہ اسی ٹون اور لہجے میں اس خط کا جواب دیا جائے اور پھر مذاکرات کی دعوت کو قبول کرلیا جائے چنانچہ ایسا ہی ہوا بھٹو صاحب کو سخت قسم کا جواب لکھا گیا جو ان کے خط سے بھی زیادہ اشتعال انگیز تھا آخر میں مذاکرات کی دعوت کو قبول بھی کرلیا گیا حزب ختلاف کا یہ خط بھی اخبارات میں شائع ہوا۔
اب مذاکرات شروع ہوتے ہیں بہت سارے نکات پر اتفاق ہوتے ہیں اور کچھ پر ختلاف بھی کچھ چیزیں بھٹو صاحب ان کی مانتے ہیں اور کچھ بھٹو صاحب کی بات مان لی جاتی ہے۔ اسی دوران بھٹو صاحب ایک بیان دیتے ہیں کہ ہم نے جو دستور دیا ہے وہ اسلامی ہے، وفاقی ہے، جمہوری ہے اور پالیمانی ہے۔ دوسرے دن مولانا مودودی صاحب کا بیان شائع ہوا کہ جو دستور دیا گیا ہے وہ نہ اسلامی ہے، نہ وفاقی ہے، نہ جمہوری اور نہ پارلیمانی ہے۔ مذاکرات کامیابی کی طرف جارہے تھے آخر میں پانچ نکات ایسے تھے جو بھٹو صاحب ماننے کے لیے تیار نہ تھے اور حزب اختلاف اس سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھی۔ پی پی پی کی ایک پالیسی یہ بھی رہی ہے کہ سامنے والی پارٹی کو اعصابی دبائو میں لیا جائے، بالآخر بھٹو صاحب نے وہ پانچوں نکات تسلیم کرلیے اور اس طرح ایک متفقہ دستور قوم کو مل گیا۔ بھٹو صاحب نے مولانا مودودی کے بیان کا طنزیہ جواب دیا کہ جو دستور آدھے گھنٹے پہلے نہ اسلامی تھا، نہ وفاقی تھا، نہ پارلیمانی تھا اور نہ جمہوری تھا آدھے گھنٹے بعد وہ اسلامی بھی ہو گیا، جمہوری بھی ہوگیا، وفاقی بھی ہوگیا اور پارلیمانی بھی ہوگیا، پروفیسر غفور صاحب نے اس کا جواب دیا کہ پانچ منٹ پہلے ایک آدمی کافر ہوتا ہے جب کلمہ پڑھ لیتا ہے تو مسلمان ہو جاتا ہے تم نے تو ہمارے پانچ نکات منظور کرلیے تھے۔
دوسرے مذاکرات 1977 میں ہوئے بھٹو صاحب کے خلاف ایک زبردست تحریک چل چکی تھی دوسرے انتخابات کی بات تو پی پی پی کی طرف سے مان لی گئی تھی مذاکرات اس حوالے سے ہو رہے تھے اس انتخاب کو پر امن اور دیانت دارانہ کیسے بنایا جائے سعودی عرب کے سفیر ریاض الخطیب کی کوششوں سے بڑے اعصاب شکن ماحول میں یہ مذاکرات شروع ہوئے لیکن کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ملک میں مارشل لا آگیا۔ اب جو پی پی پی نے جماعت اسلامی کو مذاکرات کی دعوت دی ہے اس میں یہ خیال رکھا جائے کہ پی پی پی اس حوالے سے تجربہ کار پارٹی ہے اس نے مذاکرات کے نام پر ایم کیو ایم کو بھی ناکوں چنے چبوائے ہیں اس لیے ہاتھ ملانے کے بعد اپنی انگلیوں کو بھی گن لیا جائے اور یہ کہ دھرنے اور مظاہروں کا دبائو برقرار رکھا جائے تب ہی آپ اس پارٹی سے کچھ حاصل کرپائیں گے۔