اسلامی ممالک سمیت بین الاقوامی برادری طالبان حکومت کو تسلیم کریں، وزیراعظم ملا محمد حسن

558

کابل: امارت اسلامیہ افغانستان کے وزیراعظم ملا محمدحسن اخوندزادہ نے اسلامی ممالک سمیت بین الاقوامی برادری سے ان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم عالمی برادری کی انسانی امداد کا خیرمقدم کرتے ہیں، افغانستان کو موجودہ بحران پر قابو پانے کے بعد بھی ترقیاتی امداد کی ضرورت ہوگی لیکن ہمیں ترقیاتی امداد کے بارے میں مختلف انداز میں سوچنے کی ضرورت ہے ملا محمد حسن اخوند کابل میں پہلی اقتصادی کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کانفرنس  میں بیس ممالک کے نمائندوں نے باقاعدہ شرکت کی، 40 ممالک کے نمائندوں نے کانفرنس میں آن لائن شرکت کی، طالبان کی اس پہلی اقتصادی کانفرنس میں افغانستان کی معاشی صورتحال، نجی شعبہ اور بینکنگ سیکٹر کے مسائل پر بات چیت ہوئی ،کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم ملاحسن اخوندزادہ نے کہا کہ تمام شرائط مکمل کر دی گئی ہیں اور اب بین الاقوامی برادری ملک میں طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنا چاہیے۔ آخوند نے مزید کہا، میں خاص طور پر اسلامی ممالک سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ آگے بڑھیں اور ہمیں تسلیم کریں۔” انہیں امید ہے کہ اس کے بعد ملک تیزی سے ترقی کر سکے گا۔

وزیراعظم آخوند نے مطالبہ کیا کہ امداد کی فراہمی پر عائد پابندی میں نرمی کی جائے کیونکہ پابندی کے نتیجے میں ملک میں  معاشی بحران  زور پکڑ رہا ہے۔آخوند کے بقول، قلیل  المدتی امداد حل نہیں ہے، ہمیں بنیادی طور پر مسائل کو حل کرنے کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔”محمد حسن آخوند نے کہا کہ امارات اسلامیہ کرپشن کے خاتمے اور سیکیورٹی کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے اور ملک میں سیکیورٹی قائم کردی گئی ہے۔

وزیر اعظم امارات اسلامیہ نے عالمی اداروں سے ملک میں سرمایہ کاری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری افغانستان میں بنیادی امداد فراہم کرے، عارضی امداد افغانستان کے مسائل کا حل نہیں ہے۔وزیراعظم ملا محمد حسن اخند نے کہا کہ ہم عالمی برادری کی انسانی امداد کا خیرمقدم کرتے ہیںتاہم موجود ہ بحران پر قابو پانے کے بعد بھی ترقیاتی امداد کی ضرورت ہوگی لیکن ہمیں ترقیاتی امداد کے بارے میں مختلف انداز میں سوچنے کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم نے کہا  جو لوگ ہم پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہیں وہ خود پابندیاں لگا کر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ اگر انہیں واقعی انسانی معاشرے کا درد ہے تو آئیں افہام و تفہیم کے ذریعے انسانی مسائل پر قابو پانے کی طرف حقیقی قدم اٹھائیں،حکومت تسلیم کروانے کے لیے طالبان نے دنیا کی تمام شرائط پوری کی ہیں، اب بالخصوص اسلامی ممالک کو طالبان حکومت تسلیم کرنے میں پہل کرنی چاہیے۔

اس کانفرنس میں اقوام متحدہ کے اہلکار بھی موجود تھے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی افغانستان کے لیے خصوصی مندوب ڈیبرا لیون نے اس دوران کہا کہ افغانستان میں معاشی بحران ایک سنگین مسئلہ ہے جسے تمام ممالک کی طرف سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، “اقوام متحدہ افغانستان کی معیشت کو بحال کرنے اور بنیادی طور پر معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔”اس موقع پر افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا کہ طالبان حکومت عالمی برادری کے ساتھ اقتصادی تعلقات کی خواہاں ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ افغانستان کے مرکزی بینک کے اثاثوں کو بحال کرے اور افغانستان کو پیسے کی منتقلی میں امدادی تنظیموں اور افغانوں کے لئے تمام رکاوٹیں ختم کرے، یہ کانفرنس افغان قومی نشریاتی ادارے پر نشر کی گئی۔واضح رہے کہ گزشتہ برس اگست کے وسط میں طالبان نے افغانستان میں اقتدار سنبھال لیا تھا جس کے بعد عالمی اداروں نے امدادی رقم اور عالمی بینکوں میں رکھے افغان حکومت کے اثاثے منجمد کردیئے گئے تھے جو اربوں ڈالرز میں ہیں،عالمی ادارہ برائے خوراک کے مطابق چالیس ملین آبادی میں سے 23 ملین شہری شدید بھوک کا شکار ہیں۔

ان میں نو ملین قحط کے بہت بہت قریب ہیں۔طالبان نے پچھلے سال اگست سے کابل کا کنٹرول  سنبھالا ہوا ہے تاہم بین الاقوامی برادری نے طالبان کی حکومت کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا ہے۔ امریکا کی سربراہی میں مغربی ممالک نے افغانستان کے بینکوں کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کرنے کے ساتھ ساتھ ترقیاتی فنڈ بھی روک رکھے ہیں۔بین الاقوامی برادری نے افغانستان میں بحرانی صورتحال  سے فوری طور پر نمٹنے اور بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے  انسانی امداد  گوکہ تیزکردی ہے۔ لیکن ملک کو سخت سرد موسم، نقد رقم کی کمی، اور بگڑتی ہوئی معیشت کا سامنا ہے۔ اس وجہ سے لاکھوں افراد انتہائی غربت میں زندگی بسرکرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔