کشمیر و افغان جہاد کا پشتیبان

250

روس جب افغانستان سے نکلا تو اس کے جسم پر زخموں کے جتنے بھی نشان تھے یہ سب مجاہدین کے لگائے ہوئے تھے افغان جہاد میں جہاں افغان مجاہدین کاکردار یاد رکھا جائے وہیں ایک کردار قاضی حسین احمد کا بھی ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا، روس نکلا تو قاضی حسین احمد دریائے آمور کے پار گئے اور کندھے پر کلاشنکوف لٹکائی ہوئی تھی، قاضی حسین احمد کا کردار آج بھی ملت اسلامیہ کے دشمنوں کو بھولا نہیں ہے، آج ان جیسا انسان اور پاکیزہ سیاست کا کردار پاکستان کی سیاست میں ڈھونڈھنے کو نہیں ملتا
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
معرکہ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
قبلہ قاضی صاحب اس شعر کی ایک مکمل تصویر تھے، امیرمینائی نے کہا تھا کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے، قاضی حسین احمد نے اپنے اجلے کردار سے یہ بات ثابت کی کہ مسلمان کا کردار کبھی محدود نہیں رہا مکہ کی وادیوں سے اٹھنے والا پیغام عرب دنیا کے لیے ہی نہیں تھا یہ سارے جہاں کے لیے تھا اور ہے، جہاں جہاں مسلمان پس رہے تھے وہاں وہاں قاضی حسین احمد پہنچے، لاہور میں بھیلا بٹ نے ظلم ڈھایا تو داد رسی کے لیے قاضی حسین احمد ہی سب سے پہلے پہنچے، اور پھر پاسبان کی بنیاد رکھی، ’’ظالمو قاضی آرہا ہے‘‘ یہ اپنے وقت کا مقبول نعرہ بن گیا تھا جسے آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں اور اپنی محفلوں میں دہراتے رہتے ہیں، قاضی حسین احمد ؒ اسلامی جمیعت طلبہ میں شامل ہوئے، پھر وہاں سے فراغت ہوئی جماعت اسلامی کی صف میں آگئے، اور جماعت اسلامی کے پیغام کو گھر گھر پہنچایا، گلی گلی اور ہر بازار چوک چوراہے میں جماعت اسلامی سیاسی چوپالوں میں ہونے والی سیاسی گفتگو کا موضوع بن گئی، ملک میں جونیجو حکومت قائم ہوئی تو ملک بھر کے علماء نے متحدہ شریعت محاذ تشکیل دیا، مولانا سمیع الحق، قاصی عبدالطیف اور دیگر علماء اس کا حصہ بنے قاضی صاحب اس اتحاد کے سیکرٹری جنرل تھے کراچی میں لسانی تعصبات کے شعلے بلند ہوئے تو آپ نے پشاور سے ’’کاروانِ دعوت ومحبت‘‘لے کر پورے ملک کا دورہ کیا اور کراچی پہنچے اور پورے ملک کو محبت ووحدت کاپیغام دیا متعدد بار پسِ دیوار زنداں بھی رہے، آخری بار مشرف نے انہیں گرفتار کیا تھا،کاروان دعوت و محبت لے کر چلے تو پشاور سے کوئٹہ تک ملک کے ہر شہر، دیہات اور قصبے تک جماعت اسلامی کی آواز پہنچی، اتحاد ملت پاکستان اور اتحاد امت مسلمہ کے لیے جو کام وہ کرگئے، یہ ہمیشہ یاد بھی رہے گا اور مشعل راہ بھی بنا رہے گا، انہوںنے اتحاد امت کے لیے اور مظلوم مسلمانوں پر ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔ درد ِ مشترک اور قدرِ مشترک ہی امت کے لیے ناگزیر عمل ہے۔قاضی صاحب مرحوم نے انتھک جدوجہد سے قومی سیاست پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، کوئی ان کے پائے کا لیڈر آج ملک کو میسر نہیں ہے آج بھی ملت اسلامیہ کو ان جیسے رہنماء اورعلامہ اقبال اور مولانا مودودی کی فکر کے حقیقی شیدائی کی ضرورت ہے، مقبوضہ کشمیر کے مسلمان تو انہیں کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے کہ پانچ فروری کو یوم یک جہتی کشمیر منانے کا فیصلہ انہی کا تھا آج یہ دن ہمارا قومی دن بن چکا ہے،۔ پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر 1989 ء کو پہلی مرتبہ ریاستی سطح پر پاکستان میں منایا گیا یہ قاضی حسین احمد کی کشمیری عوام کی لازوال جدوجہد، انہیں حق خود ارادیت دلانے کی ایسی کوشش تھی جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا اور آج مقبوضہ کشمیر میں ناجائز بھارتی تسلط، قبضہ اور عوام پر ظلم و بر بریت کے خلاف پوری دنیا میںمظلوم کشمیری عوام سمیت انسانی حقوق کی تنظیمیں کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کے لیے آواز بلند کرتی ہیں، اتحاد امت کے لیے انہوں نے ملی یک جہتی کونسل کی بنیاد رکھی یہ تنظیم آج ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کے لیے اپنا بھرپور کردار نبھا رہی ہے، یہ کہنا سچ اور مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کی مانند سچ ہوگا کہ قاضی حسین احمدؒ کشمیر، فلسطین، روہنگیا، بوسنیا سمیت عالم جہاں میں مسلمانوں پر ظلم و بربریت پر مظلوموں کی آواز بن کر میدان عمل میں اترتے اور نہ صرف مسلم حکمرانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑتے بلکہ اقوا م عالم کوبھی للکارتے قاضی حسین احمد ظلم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ ہمیشہ کھڑے پائے گئے۔ پاکستان کے عوام ان سے بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔’’ہم بیٹے کس کے قاضی کے‘‘یہ نوجوانوں کا مقبول عام اور ولولہ انگیز جذبہ اظہار تھا۔ قاضی صاحب مرحوم ایک ایسی کرشماتی شخصیت کے مالک تھے کہ ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والا طبقہ ان کی طرف کھنچا چلا آتاتھا۔ نظریاتی اعتبار سے ان سے مخالفت رکھنے والے بھی انہیں اپنے درمیان پاکر ایسا محبت و احترام والا سلوک کرتے کہ اس پر رشک آتاہے، آج قوم مہنگی بجلی کا رونا روتی ہے یہ قاضی حسین احمد ہی تھے جنہوں نے آئی پی پیز کے خلاف سب سے پہلے اور ایک بڑا احتجاج منظم کیا تھا یہ کوئی سیاسی مصالحہ نہیں بلکہ ریکارڈ کی بات ہے،1996 بے نظیر بھٹو حکومت کی کرپشن کے خلاف دھرنا دیا تو مری روڈ پر پولیس کی فائرنگ سے چار کارکن شہید ہوئے اور خود قاضی حسین احمد زخمی ہوئے پولیس نے ان پر براہ راست لاٹھی چارج کیا تھا اور ان کے سر سے خوب بنہنے لگا جو رخسار اور داڑھی کو تر کرتا ہوا لباس پر بھی نشان چھوڑ گیا، سیاسی کردار کے ساتھ ساتھ وہ ذاتی زندگی میں اللہ کا خوف رکھنے والے انسان تھے، نرم خو طبیعت کے مالک تھے، حالات جیسے بھی پریس کانفرنس میں جس قدر بھی تلخ سوال کیا گیا ہو انہوں نے ہمیشہ مسکراتے ہوئے شیریں زبان میں جواب دیا، منصف بھی بہت اعلی تھے اور بزرگ بھی کمال کے تھے، شریف فیملی میں جائیداد کی تقسیم کا جھگڑا اٹھا تو نواز شریف کے والد محترم میاں شریف کی درخواست پر منصف بنے اور شریف خاندان میں جائیداد کی تقسیم کا تنازعہ حل کرایا، یہ بات پوری دلیل کے ساتھ کی اور کہی جاسکتی ہے کہ قاضی حسین احمد نے ہمیشہ اپنی ایک ہی شناخت پر فخرواصرار کیا کہ ان کی حضوراکرم ﷺ کے امتی کی حیثیت سے شناخت ہے۔ انہوں نے ہمیشہ نبی اکرم ﷺ کے امتیوں کے اتحاد کی سعی کی۔ تمام مکتبہ ہائے فکر کی اہم پارٹیوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل(MMA) آپ کے خوابوں کی تعبیر تھا۔ کسی منصب یا عہدے کی خواہش نہ رکھنے کے باوجود مولانا شاہ احمد نورانی کی وفات کے بعد آپ کو اتفاق رائے سے اس کا صدر چن لیاگیا۔ اس سے پہلے اسلامی جمہوری اتحاد کا قیام بھی آپ کی شبانہ روز محنت کا نتیجہ تھا۔ اسلامی جمجوری اتحاد کی وفاق میں حکومت ملکی تاریخ کی پہلی حکومت تھیجس نے1991 میںآئی ایم ایف کو خیر باد کہا،1991 میں آئی جے آئی کی حکومت بنی تو انہیں افغان ڈیسک کا انچارج بن جانے کی پیش کش کی گئی مگر انہوںنے ا سے معذرت کی، آج بھے افغان قوم قاضی حسین احمد جیسے ہمدرد کی ضرورت ہے۔