سندھ حکومت کے ظالمانہ بلدیاتی قانون سے شہری اداروں پر قبضے کے خلاف جماعت اسلامی ”کراچی بچاؤ مارچ“

279

مردوخواتین کی بڑی تعداد میں شرکت اور کراچی پر قبضہ کے خلاف ہونے والی قانون سازی پر شدید احتجاج

جماعت اسلامی کراچی نے سندھ حکومت کے کالے بلدیاتی قانون اور شہری اداروں پر قبضے کے خلاف، احتجاجی مہم شروع کر رکھی ہے . اس سلسلے میں شہر کی کراچی کے ساڑھے تین کروڑ عوام کے مسائل کے حل اور جائز و قانونی حق کے لیے اتوار 26دسمبر کوکو ایم اے جناح روڈ پر مزار قائد تا تبت سینٹر عظیم الشان اور تاریخی ”کراچی بچاؤ مارچ“ منعقد کیا گیا، جس میں شہر بھر سے لاکھوں کی تعداد میں مختلف شعبہ ہائے زندگی و طبقات اور اقلیتی برادری سے وابستہ افراد، مزدور، تاجر و صنعت کار، علمائے کرام، اساتذہ کرام، وکلاء، ڈاکٹرز، انجینئرز، طلبہ، بچوں، بزرگوں، نوجوانوں اور خواتین نے شرکت کی اور اہلِ کراچی کی حق تلفی اور سندھ حکومت کی کراچی دشمنی، لسانیت و عصبیت کی سیاست کو مسترد کیا۔ ایم اے جناح روڈ پر تبت سینٹر تا مزارِ قائدتاحدِّ نگاہ شرکاء کے سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ خواتین کے ساتھ چھوٹے بچے جھنڈے لہرا رہے تھے۔
کراچی پاکستان کی معیشت میں سب سے زیادہ وسائل فراہم کرنے والا شہر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شہر صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے۔ صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے، اور سندھ کی معیشت کا دار و مدار بھی اسی کے اوپر ہے۔ لیکن اس کا تاریخی طور پر کوئی پرسانِ حال نہیں ہے، اور پیپلز پارٹی نے اس کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پیپلز پارٹی نے کراچی کے وسائل پر قبضہ کیا، ہمیشہ اسے ”فتح“ کرنے میں لگی رہی، اور جس طرح اس نے لاڑکانہ سمیت سندھ کے دیگر شہروں کو کچھ نہیں دیا اسی طرح کراچی کو بھی لوٹا ہی ہے۔ اس وقت کراچی کے ہر محلے، ہر گلی کے نکڑ اور چوراہے پر کچرے کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں، شہر کھنڈر کا منظر پیش کررہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انتظامیہ کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اگر ہے بھی تو وہ مختلف عنوانات سے پیسے بٹورنے کے بڑے کام میں لگی ہوئی ہے۔ شہر کے لوگوں کو ملازمتوں کے حصول میں دشواریوں کا سامنا ہے، مقامی لوگوں کو گریڈ ون سے گریڈ پندرہ میں ملازمتیں نہیں مل رہیں، ان کے لیے ایک طرح سے ملازمتیں ناپید ہیں۔ جو ملتی بھی ہیں تو اس کے لیے بڑی رشوت دینی پڑتی ہے۔ اس وقت کراچی میں تمام روایتی (باقی صفحہ نمبر05بقیہ نمبر02)
سیاسی جماعتیں زبانی، کلامی سے آگے نہیں بڑھ سکی ہیں، لیکن جماعت اسلامی ہمیشہ کراچی کے عوام کے ساتھ کھڑی رہی ہے، اس نے ہی ماضی میں بھی کراچی کے عوام کے مسائل حل کیے تھے اور آئندہ عوامی مسائل حل کرنے کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہے، اور اس کے لیے ہمہ تن میدانِ عمل میں موجود ہے۔
مارچ کا آغاز 3 بجے دن ہوا۔ مرکزی اسٹیج پر ایک طویل بینر لگایا گیا تھا جس پر نمایاں طور پر ”کراچی پر قبضے کا کالا قانون واپس لو“، جبکہ دائیں اور بائیں جانب ”حق دو کراچی کو“ تحریر تھا۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی اسٹیج آمد پر ان کا زبردست
استقبال کیا گیا اور پُرجوش نعرے لگائے گئے۔ سراج الحق نے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ ہاتھ ہلاکر اظہارِ یکجہتی کیا اور نعروں کا جواب دیا۔”کراچی بچاؤ مارچ“ میں شرکت کے لیے امیرجماعت اسلامی پاکستان سراج الحق خصوصی طور پر کراچی تشریف لائے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی پورے ملک کی ماں ہے، اگر یہ شہر توانا اور مضبوط ہوگا تو پورا ملک مضبوط ہوگا۔ بدقسمتی سے موجودہ اور ماضی کی حکومتوں اور پیپلزپارٹی، نون لیگ اور پی ٹی آئی تینوں حکمران پارٹیوں نے کراچی کا خون چوسا ہے اور اس جرم میں سب حکومتیں شریک ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان اہلِ کراچی کے ساتھ ہے اور حقوق کراچی تحریک میں ان کی پشت پر ہے۔ جس طرح گوادر کے لوگوں نے عظیم جدوجہد کے ذریعے مولانا ہدایت الرحمٰن کی قیادت میں اپنا حق لیا اور بااختیار ذمہ داران نے گوادر پہنچ کر ان کو حقوق دینے کا اعلان کیا، اسی طرح کراچی کے عوام کی اس جدوجہد، اس تحریک سے کراچی کے عوام کو بھی ضرور ان کا حق ملے گا، اور کوئی ان کے حق پر ڈاکا نہیں ڈال سکے گا۔ میں اُن لوگوں کو پیغام دیتا ہوں جنہوں نے اس شہر کو لوٹا اور عوام کو بنیادی حقوق سے محروم کیا، کہ جماعت اسلامی پاکستان کراچی کے عوام کی پشت پر ہے، اگر انہیں ان کا حق نہیں دیا گیا اور مطالبات پورے نہیں کیے گئے تو ہم کراچی سے چترال تک گلی گلی، کوچہ کوچہ کراچی کا مقدمہ لڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ عظیم الشان کراچی بچاؤ مارچ پر اہلِ کراچی، حافظ نعیم الرحمٰن، ان کی ٹیم اور کارکنان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ کراچی کے عوام ایک جائز، قانونی اور آئینی جدوجہد کررہے ہیں، وہ تعلیم، صحت، روزگار، ٹرانسپورٹ، پانی، بجلی اور گیس چاہتے ہیں۔ ان کی حق تلفی اب ختم ہونی چاہیے۔ کراچی کے حقوق اور مسائل کے حل کے لیے آج حافظ نعیم الرحمٰن کی قیادت میں ان کی ٹیم اور کارکنان عوام کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ یہ عوامی جدوجہد ضرور کامیاب ہوگی۔“ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی صرف کراچی ہی نہیں پورے ملک کو خوشحال اور اسلامی ملک بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ عوام جماعت اسلامی کا ساتھ دیں، حالات ضرور بدلیں گے۔ ملک کے اندر جرنیل اور نام نہاد سیاسی حکومتیں اقتدار میں رہیں لیکن عوام کے حالات نہیں بدلے۔ ملک کے اندر سارے تجربات ناکام ہوگئے ہیں۔ اب صرف اور صرف اسلامی نظام اور نبی مہربانؐ کی سنت پر عمل کرنے سے ہی حالات بہتر ہوں گے۔ کراچی ایک دن عالم اسلام کا قائد شہر ضرور بنے گا۔ یہاں کے در و دیوار روشن ہوں گے۔ مسائل ضرور حل ہوں گے۔ جماعت اسلامی عوام کی خدمت اور مسائل کے حل کی جدوجہد جاری رکھے گی۔ انہوں نے کہاکہ افسوس کہ کراچی کے عوام سے جن پارٹیوں نے ووٹ لیے انہوں نے ان کے لیے کچھ نہیں کیا، بس اپنے بینک بیلنس بنائے اور کاروبار بڑھائے۔ پیپلز پارٹی 14 سال سے حکومت کررہی ہے، یہ کراچی کیا اندرونِ سندھ کے لیے بھی کچھ نہیں کرسکی۔ تھر کے علاقے میں ہزاروں بچے بھوک سے مررہے ہیں، اس پارٹی اور اس کی حکومت نے عوام کے ساتھ انصاف نہیں کیا، ان کی شوگر ملوں اور کاروبار میں تو اضافہ ہوا لیکن کراچی اور اندرونِ سندھ کے عوام کو کچھ نہیں ملا۔ کراچی کے لوگ سندھ کو 95 فیصد ٹیکس دیتے ہیں تو پھر اِس شہر کو اس کا حق کیوں نہیں دیا جاتا؟ سندھ حکومت نے لاڑکانہ، سکھر، شکارپور سمیت اندرونِ سندھ کے شہروں کے لیے کچھ نہیں کیا اور کراچی کو بھی تباہ و برباد کررہی ہے۔ سندھ حکومت اگر کراچی کے میئر کو صرف جھاڑو دینے والے اختیارات دے گی تو پھر ایسے میئر کا کیا فائدہ؟ سندھ حکومت لندن، استنبول، قاہرہ کے میئر کے اختیارات اور کارکردگی اور ان شہروں کے حالات دیکھے۔ جب کراچی کے میئر کے پاس اختیارات نہیں ہوں گے اور سارے اختیارات وزیراعلیٰ کے پاس ہوں گے تو مسائل کس طرح حل ہوں گے! وزیراعلیٰ سندھ جب کہتے ہیں کہ ہم اکثریت میں ہیں تو اس کے ذریعے وہ جمہوری رائے اور سوچ کو بلڈوز کیوں کرتے ہیں؟ بلدیاتی اداروں کو مالی، انتظامی اور سیاسی اختیارات دینے پر کیوں تیار نہیں ہوتے؟ ہم کہتے ہیں کہ صرف جماعت اسلامی کی قیادت ہی کراچی کے عوام کو مسائل سے نکال سکتی ہے۔ عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان نے جس طرح مثالی اور تاریخی خدمات انجام دی تھیں، اس کی مثال نہیں ملتی۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ آج کا یہ مارچ اور اس میں موجود عوام کا سمندر یہ اعلان کررہا ہے کہ وڈیرؤں اور جاگیرداروں کی سوچ اور تسلط کو نہیں چلنے دیا جائے گا اور سندھ حکومت کو کالا قانون واپس لینا پڑے گا، کراچی کے عوام اپنا حق لے کر رہیں گے۔ 14 سال سے پیپلز پارٹی حکومت کررہی ہے لیکن کراچی سمیت پورے سندھ کے عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ یہ جمہوریت کی بات کرتے ہیں لیکن وراثت اور وصیت کے نام پر پارٹی چلائی جارہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی اس آمرانہ سوچ اور جمہوریت دشمن طرزِعمل سے 1971ء میں ملک دولخت ہوا اور پھر یہی لوگ 1972ء میں لسانی بل لے کر آئے۔ آج وزیراعلیٰ سندھ اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ریاست اور عوام کو دھمکی دیتے ہیں اور نفرت، عصبیت اور علیحدگی کے بیج بورہے ہیں۔ آج کراچی کے عوام ایم اے جناح روڈ پر اعلان کرتے ہیں کہ کراچی اور سندھ میں لسانی سیاست کو آج دفن کرتے ہیں۔ لسانی سیاست اب نہ ایم کیو ایم کی چلے گی اور نہ پیپلز پارٹی کی۔ جب 2012ء اور 2013ء میں پیپلز پارٹی سے بلدیاتی اختیارات چھینے گئے اور وسائل وڈیروں، جاگیرداروں کے حوالے کیے گئے تو ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے ساتھ وفاقی و صوبائی حکومت میں شامل تھی اور آج مگرمچھ کے آنسو بہارہی ہے۔ ایم کیو ایم جواب دے آج کس منہ سے کراچی کے لیے بات کررہی ہے؟ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی نے کراچی سے ووٹ لیے لیکن آج یہ کراچی دشمن پالیسیوں اور اقدامات پر چل رہی ہیں۔ پی ٹی آئی نے وفاق میں 32 بل منظور کروائے لیکن بااختیار شہری حکومتوں کے قیام کا ایک بل کیوں منظور نہیں کروایا؟ آج صرف جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو کراچی کی اصل نمائندہ اور کراچی کی آواز بنی ہوئی ہے۔ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی جواب دیں کہ کیوں جعلی مردم شماری کو منظوری دی گئی؟ آج ایک بار پھر نئی مردم شماری کے نام پر کراچی کے عوام کو دھوکا دیا جارہا ہے۔ کراچی کو خیرات نہیں، مسائل کا حل چاہیے۔ حکمران 162 اور 1100 ارب کے پیکیجز سے دھوکا دینے کا سلسلہ بند کریں۔ ہمیں کراچی سرکلر چاہیے، کے فور منصوبہ مکمل چاہیے، ماس ٹرانزٹ پروگرام پر پورا عمل درآمد ہونا چاہیے۔ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے نام پر بھی کراچی کے عوام کو دھوکا دیا جارہا ہے۔ بالائی سطح پر غلط بریفنگ دے کر سب کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ ہم وفاقی و صوبائی حکومتوں اور مقتدر حلقوں سے بھی سوال کرتے ہیں کہ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے کتنے فیصد حصے پر عمل کیا گیا؟ کراچی کے عوام ہر قسم کی جدوجہد کرنے کو تیار ہیں۔ 31دسمبر کو پہلے مرحلے پر سندھ اسمبلی پر ایک زبردست دھرنا ہوگا۔ وزیراعلیٰ سے کہتے ہیں کہ اس سے قبل کالا قانون واپس لے لیں۔ کراچی ٹیکس کی مد میں ہزاروں ارب روپے دیتا ہے لیکن اِس کے جواب میں اسے کچھ نہیں دیا جاتا۔ کراچی کے ساتھ حق تلفی، ناانصافی اور ظلم و زیادتی کا یہ سلسلہ اب نہیں چلنے دیا جائے گا۔ جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری رویّے، آمرانہ اور جاگیردارانہ سوچ اور وڈیرہ شاہی تسلط قائم نہیں ہونے دیا جائے گا۔ (باقی صفحہ 41پر)
ڈاکٹر اسامہ رضی نے کہا کہ ”کراچی بچاؤ مارچ“ اور اس کے ساتھ ”حق دو کراچی تحریک“ نے کراچی کی سیاست کا نیا رخ متعین کردیا ہے۔ اس تحریک نے ثابت کردیا ہے کہ جب اہلِ کراچی سے ووٹ لینے والوں نے دھوکا کیا اور ان کی ترجمانی نہیں کی تو جماعت اسلامی اور اس کی قیادت کراچی کے عوام کی حقیقی ترجمان بنی ہوئی ہے اور سڑکوں پر بھی موجود ہے، اور ہر جگہ اور ہر فورم پر کراچی کے عوام کا مقدمہ لڑرہی ہے۔ آج کا ہمارا یہ عظیم الشان اور تاریخی ”کراچی بچاو مارچ“ اہلِ کراچی کے حق کی جدوجہد کا کوئی آخری مظاہرہ نہیں بلکہ تحریک کا نقطہ آغاز ہے۔ اہلِ کراچی کے حقوق کے حصول اور تحریک کی کامیابی تک جدوجہد جاری رہے گی۔
کراچی کی تعمیر و ترقی اور روشن و تابناک مستقبل جماعت اسلامی سے ہی وابستہ ہے، جماعت اسلامی کی حقوق کراچی تحریک ظلم و ناانصافی اور استحصال کے خلاف آواز اٹھانے اور جدوجہد کی تحریک ہے، جو ایک دینی تقاضا بھی ہے۔ وہ اسی دینی تقاضے کو پورا کرتے ہوئے عوام کے حقوق کی جنگ لڑرہی ہے۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ جماعت اسلامی کی حقوق کراچی مہم میں عوام کی بڑھتی دلچسپی اور اپنے مسائل کے حل کے لیے جماعت اسلامی کی طرف دیکھنا شہر کے مستقبل کے لیے اچھا شگون ہے، اور ضرورت بھی اس بات کی ہے کہ اگر لوگوں کو اپنے مسائل حل کرنے ہیں، شہر کو خوبصورت دیکھنا ہے، صاف و شفاف پانی کا حصول یقینی بنانا ہے، اور ٹوٹی ہوئی سڑکوں سے نجات سمیت بے روزگاری و دیگر ایشوز کو حل کرنے کے ساتھ اپنے بچوں کو اچھا اور پُرسکون مستقبل دینا ہے تو پھر آج اس شہر کے جائز حقوق کو واپس دلوانے کے لیے اپنا حصہ بھی ڈالنا ہوگا۔