بقیہ: کراچی بچاؤ مارچ

113

سیاسی جماعتیں زبانی، کلامی سے آگے نہیں بڑھ سکی ہیں، لیکن جماعت اسلامی ہمیشہ کراچی کے عوام کے ساتھ کھڑی رہی ہے، اس نے ہی ماضی میں بھی کراچی کے عوام کے مسائل حل کیے تھے اور آئندہ عوامی مسائل حل کرنے کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہے، اور اس کے لیے ہمہ تن میدانِ عمل میں موجود ہے۔
مارچ کا آغاز 3 بجے دن ہوا۔ مرکزی اسٹیج پر ایک طویل بینر لگایا گیا تھا جس پر نمایاں طور پر ”کراچی پر قبضے کا کالا قانون واپس لو“، جبکہ دائیں اور بائیں جانب ”حق دو کراچی کو“ تحریر تھا۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی اسٹیج آمد پر ان کازبردست استقبال کیا گیا اور پُرجوش نعرے لگائے گئے۔ سراج الحق نے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ ہاتھ ہلاکر اظہارِ یکجہتی کیا اور نعروں کا جواب دیا۔”کراچی بچاؤ مارچ“ میں شرکت کے لیے امیرجماعت اسلامی پاکستان سراج الحق خصوصی طور پر کراچی تشریف لائے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی پورے ملک کی ماں ہے، اگر یہ شہر توانا اور مضبوط ہوگا تو پورا ملک مضبوط ہوگا۔ بدقسمتی سے موجودہ اور ماضی کی حکومتوں اور پیپلزپارٹی، نون لیگ اور پی ٹی آئی تینوں حکمران پارٹیوں نے کراچی کا خون چوسا ہے اور اس جرم میں سب حکومتیں شریک ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان اہلِ کراچی کے ساتھ ہے اور حقوق کراچی تحریک میں ان کی پشت پر ہے۔ جس طرح گوادر کے لوگوں نے عظیم جدوجہد کے ذریعے مولانا ہدایت الرحمٰن کی قیادت میں اپنا حق لیا اور بااختیار ذمہ داران نے گوادر پہنچ کر ان کو حقوق دینے کا اعلان کیا، اسی طرح کراچی کے عوام کی اس جدوجہد، اس تحریک سے کراچی کے عوام کو بھی ضرور ان کا حق ملے گا، اور کوئی ان کے حق پر ڈاکا نہیں ڈال سکے گا۔ میں اُن لوگوں کو پیغام دیتا ہوں جنہوں نے اس شہر کو لوٹا اور عوام کو بنیادی حقوق سے محروم کیا، کہ جماعت اسلامی پاکستان کراچی کے عوام کی پشت پر ہے، اگر انہیں ان کا حق نہیں دیا گیا اور مطالبات پورے نہیں کیے گئے تو ہم کراچی سے چترال تک گلی گلی، کوچہ کوچہ کراچی کا مقدمہ لڑیں گے۔ پیپلز پارٹی 14 سال سے حکومت کررہی ہے، یہ کراچی کیا اندرونِ سندھ کے لیے بھی کچھ نہیں کرسکی۔ ان کی شوگر ملوں اور کاروبار میں تو اضافہ ہوا لیکن کراچی اور اندرونِ سندھ کے عوام کو کچھ نہیں ملا۔سندھ حکومت نے لاڑکانہ، سکھر، شکارپور سمیت اندرونِ سندھ کے شہروں کے لیے کچھ نہیں کیا اور کراچی کو بھی تباہ و برباد کررہی ہے۔ سندھ حکومت اگر کراچی کے میئر کو صرف جھاڑو دینے والے اختیارات دے گی تو پھر ایسے میئر کا کیا فائدہ؟ سندھ حکومت لندن، استنبول، قاہرہ کے میئر کے اختیارات اور کارکردگی اور ان شہروں کے حالات دیکھے۔ جب کراچی کے میئر کے پاس اختیارات نہیں ہوں گے اور سارے اختیارات وزیراعلیٰ کے پاس ہوں گے تو مسائل کس طرح حل ہوں گے! وزیراعلیٰ سندھ جب کہتے ہیں کہ ہم اکثریت میں ہیں تو اس کے ذریعے وہ جمہوری رائے اور سوچ کو بلڈوز کیوں کرتے ہیں؟ بلدیاتی اداروں کو مالی، انتظامی اور سیاسی اختیارات دینے پر کیوں تیار نہیں ہوتے؟ ہم کہتے ہیں کہ صرف جماعت اسلامی کی قیادت ہی کراچی کے عوام کو مسائل سے نکال سکتی ہے۔ عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان نے جس طرح مثالی اور تاریخی خدمات انجام دی تھیں، اس کی مثال نہیں ملتی۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ آج کا یہ مارچ اور اس میں موجود عوام کا سمندر یہ اعلان کررہا ہے کہ وڈیرؤں اور جاگیرداروں کی سوچ اور تسلط کو نہیں چلنے دیا جائے گا اور سندھ حکومت کو کالا قانون واپس لینا پڑے گا، کراچی کے عوام اپنا حق لے کر رہیں گے۔ 14 سال سے پیپلز پارٹی حکومت کررہی ہے لیکن کراچی سمیت پورے سندھ کے عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ یہ جمہوریت کی بات کرتے ہیں لیکن وراثت اور وصیت کے نام پر پارٹی چلائی جارہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی اس آمرانہ سوچ اور جمہوریت دشمن طرزِعمل سے 1971ء میں ملک دولخت ہوا اور پھر یہی لوگ 1972ء میں لسانی بل لے کر آئے۔ آج وزیراعلیٰ سندھ اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ریاست اور عوام کو دھمکی دیتے ہیں اور نفرت، عصبیت اور علیحدگی کے بیج بورہے ہیں۔ آج کراچی کے عوام ایم اے جناح روڈ پر اعلان کرتے ہیں کہ کراچی اور سندھ میں لسانی سیاست کو آج دفن کرتے ہیں۔ لسانی سیاست اب نہ ایم کیو ایم کی چلے گی اور نہ پیپلز پارٹی کی۔ جب 2012ء اور 2013ء میں پیپلز پارٹی سے بلدیاتی اختیارات چھینے گئے اور وسائل وڈیروں، جاگیرداروں کے حوالے کیے گئے تو ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے ساتھ وفاقی و صوبائی حکومت میں شامل تھی اور آج مگرمچھ کے آنسو بہارہی ہے۔ ایم کیو ایم جواب دے آج کس منہ سے کراچی کے لیے بات کررہی ہے؟ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی نے کراچی سے ووٹ لیے لیکن آج یہ کراچی دشمن پالیسیوں اور اقدامات پر چل رہی ہیں۔ پی ٹی آئی نے وفاق میں 32 بل منظور کروائے لیکن بااختیار شہری حکومتوں کے قیام کا ایک بل کیوں منظور نہیں کروایا؟ آج صرف جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو کراچی کی اصل نمائندہ اور کراچی کی آواز بنی ہوئی ہے۔ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی جواب دیں کہ کیوں جعلی مردم شماری کو منظوری دی گئی؟ آج ایک بار پھر نئی مردم شماری کے نام پر کراچی کے عوام کو دھوکا دیا جارہا ہے۔ کراچی کو خیرات نہیں، مسائل کا حل چاہیے۔ حکمران 162 اور 1100 ارب کے پیکیجز سے دھوکا دینے کا سلسلہ بند کریں۔ ہمیں کراچی سرکلر چاہیے، کے فور منصوبہ مکمل چاہیے، ماس ٹرانزٹ پروگرام پر پورا عمل درآمد ہونا چاہیے۔ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے نام پر بھی کراچی کے عوام کو دھوکا دیا جارہا ہے۔ بالائی سطح پر غلط بریفنگ دے کر سب کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ ہم وفاقی و صوبائی حکومتوں اور مقتدر حلقوں سے بھی سوال کرتے ہیں کہ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے کتنے فیصد حصے پر عمل کیا گیا؟ کراچی کے عوام ہر قسم کی جدوجہد کرنے کو تیار ہیں۔ 31دسمبر کو پہلے مرحلے پر سندھ اسمبلی پر ایک زبردست دھرنا ہوگا۔ وزیراعلیٰ سے کہتے ہیں کہ اس سے قبل کالا قانون واپس لے لیں۔ کراچی ٹیکس کی مد میں ہزاروں ارب روپے دیتا ہے لیکن اِس کے جواب میں اسے کچھ نہیں دیا جاتا۔ کراچی کے ساتھ حق تلفی، ناانصافی اور ظلم و زیادتی کا یہ سلسلہ اب نہیں چلنے دیا جائے گا۔ جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری رویّے، آمرانہ اور جاگیردارانہ سوچ اور وڈیرہ شاہی تسلط قائم نہیں ہونے دیا جائے گا۔
ڈاکٹر اسامہ رضی نے کہا کہ ”کراچی بچاؤ مارچ“ اور اس کے ساتھ ”حق دو کراچی تحریک“ نے کراچی کی سیاست کا نیا رخ متعین کردیا ہے۔ اس تحریک نے ثابت کردیا ہے کہ جب اہلِ کراچی سے ووٹ لینے والوں نے دھوکا کیا اور ان کی ترجمانی نہیں کی تو جماعت اسلامی اور اس کی قیادت کراچی کے عوام کی حقیقی ترجمان بنی ہوئی ہے اور سڑکوں پر بھی موجود ہے، اور ہر جگہ اور ہر فورم پر کراچی کے عوام کا مقدمہ لڑرہی ہے۔ آج کا ہمارا یہ عظیم الشان اور تاریخی ”کراچی بچاو مارچ“ اہلِ کراچی کے حق کی جدوجہد کا کوئی آخری مظاہرہ نہیں بلکہ تحریک کا نقطہ آغاز ہے۔ اہلِ کراچی کے حقوق کے حصول اور تحریک کی کامیابی تک جدوجہد جاری رہے گی۔
جماعت اسلامی کی حقوق کراچی تحریک ظلم و ناانصافی اور استحصال کے خلاف آواز اٹھانے اور جدوجہد کی تحریک ہے، جو ایک دینی تقاضا بھی ہے۔ وہ اسی دینی تقاضے کو پورا کرتے ہوئے عوام کے حقوق کی جنگ لڑرہی ہے۔