بقیہ: پینل ڈسکشن ، صنعت وتجارت

177

غریب پرور شہر ہے ، تین کروڑ سے زائد شہر پھر سے روشن اور چمکتا دمکتاشہر بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔کراچی کے لیے 500فائراسٹیشنز کی ضرورت ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ تین کروڑ سے زائد شہریوں کے لیے صرف 25فائر اسٹیشن ہیں۔کراچی جیسے غریب پرورشہر کو کبھی بھی حق نہیں دیا گیا بلکہ حق چھین لیا گیا ہے ،کراچی میں بڑھتے ہوئے مسائل عوام کی خاموشی سے ہی ہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ متحد و متفق ہوکر کراچی کے حقوق کے لیے جدوجہد کریں ۔کامران خلیلی نے کہاکہ کراچی میں مردہ جانوروں کی قیمتیں بھی لگائی جاتی ہیں اور شہریوں کو مردہ جانوروں کا گوشت کھلایاجاتا ہے ، ٹیکسز پورے لیے جاتے ہیں اور حکومتی نمائندے مردہ جانوروں پر مہر لگاکر مارکیٹ میں بھیجتے ہیں ، کراچی کے علاوہ تمام صوبوں میں گوشت کے حوالے سے بہت ہی مؤثر نظام موجود ہے ۔سلمان جاوید نے کہاکہ سندھ حکومت کی جانب سے منظور کردہ بلدیاتی ترمیمی بل کراچی دشمن فیصلہ ہے ۔کراچی منی پاکستان ہے اور پورے ملک کی نمائندگی کرتا ہے اس کے باوجود مسلسل کراچی کو نظر انداز کیا جارہا ہے ۔آباد کے رہنما حنیف میمن نے کہاکہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے ، 67فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے ، 95فیصد انڈسٹریز کراچی کی بندرگاہ سے مستفید ہوتی ہیں مگرکراچی کا حال کھنڈرجیسا کردیا گیا ہے ، کاروباری طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہے ۔ کراچی کی تعمیر و ترقی کے لیے کوئی اقدامات نہیں ہو رہے ،تاجر برادری میں سے کوئی بھی کراچی میں سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں ۔معروف صنعت کار بابر خان نے کہاکہ جماعت اسلامی نے کراچی کے اہم اور دیرینہ مسائل کے حل کے لیے ایک توانا آواز بلند کی ہے ،کراچی میں انڈسٹری لگانا انتہائی مشکل کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے انڈسٹری مالکان کراچی سے پنجاب منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔محمد فیضان راوت نے کہاکہ کراچی کے عوام کا ہر طرح سے استحصال ہورہاہے ،مردم شماری اورکوٹہ سسٹم کے ذریعہ ہمارا حق سلب کیا جارہا ہے ۔شہر کو ری بلڈ کرنے کے لیے ماسٹر پلان بنانے کی ضرورت ہے۔شکیل احمد بیگ نے کہاکہ کراچی میں پانی تک فروخت کیا جاتا ہے ،عوام کو سستی بجلی نہیں ملتی ،اب گیس بھی نہیں مل رہی جب تک شہر کے مسائل اور معاملات کے لیے تمام ادارے ایک اتھارٹی کے تحت نہیں ہوں گے کراچی کی تعمیر مشکل ہے ۔شوکت مختار نے کہاکہ آج کراچی کے اندر حافظ نعیم الرحمن ایک رجحان سازکی صورت میں موجود ہیں اور ہر شعبے اور طبقے کے لوگوں کے مسائل کے لیے کوشش کررہے ہیں ،کراچی ایک میگا سٹی ہے ، ہم اس کی ضرورت پورا کرتے ہیں۔خواجہ طارق نے کہاکہ کراچی میں تقریبا ً 800میرج لان وہال موجود ہیں ،ہماری انڈسٹری کو بھی بے پناہ مسائل کا سامنا ہے اس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے ،اس کی بندش سے پولٹری انڈسٹری بھی متاثر ہوئی ہے اور کروناکے باعث تو ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے ،حکومت نے بلند و بانگ دعوے تو کیے لیکن عملاً ہماری انڈسٹری کو کوئی ریلیف نہیں ملا ۔ڈاکٹر ظفر الاسلام صدیقی نے کہاکہ ہماری انڈسٹری سے بھی سرمایہ کراچی سے باہر نکل گیاہے ،ہمیں سب سے پہلے قومی مزاج کو ٹھیک کرنا ہوگا ،پولٹری انڈسٹری ملکی معیشت میں ریڑھ کی حیثیت رکھتی ہے ،غیر ضروری چیزوں کے استعمال کو کم کرنا ہوگا جیسے کھانے کا تیل ،پرتعیش چیزوں کو کم کیا جائے ،حکومت اپنی رٹ قائم کرے اور امن و امان کی صورتحال بہتر کرے۔انجینئر صابر احمد نے کہاکہ بد قسمتی سے 1980سے آج تک ملک سے ذہانت کے جانے کا تناسب کراچی میں سے زیادہ ہے ،لوگو ں کا یہاں اپنا مستقبل محفوظ نہیں ہوتا ،آج میڈیکل کے طلبہ کے لیے بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ایک غیر سنجیدہ رویہ اختیار کررکھا ہے اور ہزاروں طلبہ اور والدین شدید پریشانی کا شکار ہیں ری بلڈ کراچی کے لیے شعبہ تعلیم کوبھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔جماعت اسلامی کی حقوق کراچی مہم کے تسلسل میں اس طرح کے سیشن یقناجہاں کراچی اور کراچی کے مسائل اور ان کے حل کو سمجھنے میں معاون ثابت ہونگے وہاں جماعت اسلامی نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ صرف مسائل پر احتجا ج نہیں کررہی بلک ہ ان کا حل بھی پیش کررہی ہے اب یہ حکومت وقت کا کام ہے کہ وہ ان نکات کی روشنی میں کراچی کے لوگوں کو ریلیف فراہم کرے ۔ری بلڈ کراچی پروجیکٹ کے انچارج نوید علی بیگ نے کہاکہ جماعت اسلامی تمام مسائل کو اور ان کے حل کے لیے تجاویز کو جمع کرے گی اور متعلقہ حکام تک نہ صرف پہنچائے گی بلکہ عملی اقدامات کی جانب بھی متوجہ کرے گی.