صحت عامہ کے مسائل کے بارے میں کچھ اہل کراچی کی رائے ؟

233

محمد آصف

افسوس ناک بات ہے کہ ایک عالمی ادارے نے کراچی کو دنیا کے دس ناقابل رہائش شہروں میں شمار کیا، جہاں پہلے ہی کوئی ۲ڈھائی کروڑ لوگ بستے ہیںوہاں ہسپتال ، ڈسپنسریاں انتہائی ناکافی ہیں. نجی ہسپتال، جعلی ڈاکٹروں کا جال بچھ چکا ہے،کوئی پوچھنے والا نہیں.بڑا شہر ہے اسلیے ہر مافیا کی چاندی ہے.کراچی کے شہری سوال کرتے ہیں کہ حکومت کیوں بہترین ہسپتال نہیں بنا سکی. عوام این جی او کو چندہ مگر حکومت کو تو ٹیکس دیتے ہیں پھر این جی او مفت ہسپتال بنا سکتی ہے تو حکومت عالمی امداد کے باوجود کیوں نہیں کر سکتی۔

ذیشان احمد
صحت کی بات کی جائے تو سب سے اچھی صحت ورزش اور خوشگوار ماحول سے ہوتی ہے جو کہ کراچی والوں کے لیے نایاب ہو گئی ہے. کھیل کے میدانوں پر قبضہ ہو چکا ہے، جاگنگ، واکنگ، سائیکلنگ جیسی صحت مند سرگرمیوں کا تصور ہی ختم. کچرے کے ڈھیر ، ابلتی گٹر لائن سے مچھروں و پیٹ کی بیماریاں عام ہیں، اس لیے اب صرف بیماریوں کا موٹاپے ، شوگر، بلڈ پریشر کا ہی راج ہے . حکمرانوں کو کیا کہیں ، ہمیں خود بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہوگا.درست لوگ حکمران بنانے ہوںگے۔

کاشف اسلم
میں نےخبر پڑھی کہ پیرو کے صدر نے ملک میں صحت عامہ اور تعلیم کے لیے اپنے بوئنگ طیارہ بیچنے کا اعلان کر دیا۔کراچی میں پیدا ہوایہیں پلا بڑھا مگر یہاں صحت کی کوئی سہولت ہے یہ معلوم نہیںہو سکا، بچپن میں محلہ کے ڈاکٹر کے پاس سے دوائی لیتے، زیادہ بیمار ہوتے تو پرائیویٹ ہسپتال ۔کبھی سرکاری ہسپتال نہیںگئے ۔ اسلیے کہ جو کچھ سنا تھا وہ اتنا خوفناک تھا کہ ہمت نہیں ہوئی ۔ یہ حال آج بھی ہے اور نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے۔

عاطف علی
کراچی کو اب بھی غریبوں کی ماں اور منی پاکستان کہا جاتا ہے ، مگر شہر کی حالت یہ ہے کہ کچرا اٹھانے کا نظا م نہیں، برساتی نالوں پر تعمیرات، پانی ٹینکر میں ،سڑکیں وٹرانسپورٹ کی قلت، سرکاری ہسپتالوں کی خستہ حالی،بجلی کے بعد اب گیس بھی شارٹ ہوگئی ہے. یہ سب عوامل مل کر شہر میں زیادہ سے زیادہ بیماریاں اور مریض پیدا کر رہے ہیں. شوگر، بلڈ پریشر، فالج، سانس کے امراض اور اب تو کینسر بھی عام ہے.یہی وجہ ہے کہ کراچی والوں کو کورونا نے کوئی ٹینشن نہیں دی کیونکہ اس سے بڑی بیماریاں ہم جھیلتے ہیں.ادویات کی قیمتوں پر کوئی کنٹرول نہیں ، حکومت کی رٹ صرف قیمتیں بڑھانے اور مریضوں کو مارنے میں ہے۔

عارف بقائی
صحت عامہ کے مسائل کی بات کی جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ صرف کراچی میں فوری طور پر ہر ضلع میں ایک معیاری سرکاری ہسپتال بننا چاہیے.ادویات کی قیمتوں کو فوری طورپر نیچے لانا چاہیے . تیزی سے بڑھتی ہوئی بیماریوں کے بارے میں عوام کو آگہی کا کوئی نظام نہیں ہے . ایک کورونا کی وبا میں ہم نے دیکھا کہ ہر طرف ایس او پی ایس او پی کر کر کے سب کو یاد کرا دیا گیا،فون ملاؤتو ایس او پی ، شادی میں جاؤ تو ایس او پی، اسکول جاؤ دفتر جاؤ ہر جگہ اسکو ٹھونس دیا گیا تو سب کو یاد ہوگیا. اسی طرح باقی بیماریوں
کو نظر انداز کرنا میرے نزدیک کرپشن ہے

صہیب جمال
کراچی کے مسائل حل کرنے کیلئے جن افراد کو مینڈیٹ ملا ، کسی نے بھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، سب لوٹ مار کرتے رہے ۔صحت کا شعبہ سب سے زیادہ کرپشن کا گڑھ کہلاتا ہے ۔میں ضلع وسطی میں رہتا ہوں جہاں عباسی شہید ہسپتال تباہی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اس ہسپتال کی وجہ شہرت ہی سیاسی بھرتیاں ہیں ، جہاں کسی زندہ انسان کو لے جانے کاتصور ہی نہیں کیا جا سکتا،کہ کچھ بھروسہ نہیں وہاں کیا حالات ہوں۔

عرفان معطر
کراچی کا آج بھی کوئی نہیں۔ آج تک جہاں سندھ حکومت نے دیوار سے لگائے رکھا ،وہیں وفاق نے بھی کراچی کی ترقی کیلئے کچھ نہیں کیا ۔وزیراعظم عمران خان کراچی کیلئے 11 سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان کرتے ہیں مگر یہاں صحت کی سہولیات انتہائی خراب ہیں۔سرکاری ہسپتالوں کو جان بوجھ کر خراب کیا گیا ہے لوگ مجبوری میں جاتے ہیں مگر سفارش نہ ہو تو وہاں بھی کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔

راشد حسن
کراچی جسے دار الخلافہ بننا تھا، اب حال یہ ہے کہ پورے ضلع وسطی کے لیے بچوں کا ایک ہسپتال ہونا بھی شرمناک ہے . یہ ٹھیک ہے کہ اس ہسپتال میں اچھی سہولیات رکھی گئی مگر اس ایک ہی چلڈرن ہسپتال میں جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ چھ چھ ماہ ملازمین کو تنخواہ نہیں ملتی اور ملازمین کے نہ ہونے کی وجہ سے عوام رل جاتی ہے ۔نہ ادویات ملتی ہیں اور نہ ہی ڈاکٹر ہوتے ہیں، کرپشن کی انتہا یہ ہے کہ معصوم بچوں کی زندگیوں سے کھیل کرحکومت این جی او کے ساتھ اپنے کمیشن کے جھگڑوں میں لگی ہوئی ہے ۔