کیا کراچی عوام کو صحت عامہ کی سہولیات دے سکتا ہے؟

216

صورت حال، چیلنجز اور مسائل کا حل جاننے کے لیے ری بلڈ کراچی کی
طبی ماہرین کے ساتھ ہیلتھ کیئر پینل ڈسکشن
کراچی آلودگی کا ایک بڑا گڑھ بنتا جا رہا ہے ، کراچی کا 85 فیصد پانی مضر صحت ہے،ایسے میںصحت عامہ کے بڑے بڑے زندہ مسائل شہر میں موجود ہیں۔اسی ”صحت کی صورت حال، چیلنجز اور مسائل کا حل‘‘ کے زیر عنوان مقامی ہوٹل میں جماعت اسلامی نے طب کے شعبہ میں کام کرنے والے مختلف ماہرین کے ساتھ ایک ڈسکشن منعقد کیا۔اس کا مقصد صحت عامہ کی موجودہ صورتحال اور بہتری کے لیے تجاویز و حل کو مرتب کرنا تھا.امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے منظر نامہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ کراچی کے تین کروڑ سے زائد عوام کی صحت کے لیے حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں، سندھ حکومت تعصب کو ہوا دے کر لسانی وسیاسی بھرتیوں میں مصروف ہے۔ حکومت کئی امور میں بھاری فنڈنگ کے باوجود اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتی اوراپنی کرپشن این جی اوز کی آڑ میں چھپاتی ہے۔ 51سال سے کراچی میں ایک جنرل ہسپتال عوام کو نہیں دیا گیا، 173ارب روپے کے بجٹ میں سندھ حکومت تعمیری کام کرنے کے بجائے بغیر میرٹ کے نوکریاں بانٹ کرنااہل افراد کو کرپشن کے لیے تیار کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی ماہرین کے ساتھ مل کر تمام مسائل کے حقیقی حل کے لیے صحت عامہ کا جامع چارٹر بنائےگی اور اسے اپنے سیاسی ایجنڈے کا حصہ رکھے گی۔

پینل کے شرکاءنے اس بات پر اتفاق کیا کہ اس وقت کراچی شہر میں موجود صحت عامہ کی سہولیات انتہائی خراب اور ناکافی ہیں.ہسپتال ، ادویات، ڈسپنسریاںہوں ماہرین کی تعداد یا آلات کی کمی تمام امو رپر سخت توجہ اور جامع منصوبہ بندی کے ساتھ عمل درآمد کی ضرورت ہے. یہی نہیں بلکہ مختلف امراض کے حوالے سے سروے ، مریضوں کی تعداد اور میڈیکل رجسٹری بھی موجود نہیں . جناح اسپتال میں جتنے مریض آتے ہیں اس تناسب سے ڈاکٹرز موجود نہیں ۔ صحت مند معاشرے کے لیے حکومت، سول سوسائٹی، این جی اوز اور صحافیوں کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ روزانہ کراچی میں  70سے 100لوگ فالج کا شکار ہوجاتے ہیں، ریاست کا بنیادی کام صحت کی سہولیات فراہم کرنا ہے، کراچی میں 8سرکاری اسپتال ہیں مگر کہیں بھی اسٹیٹ آف دی آرٹ صورتحال نہیں ہے . ملک میں صحت کے حوالے سے این جی اوز کا کردار بھی قابل ذکر ہے، ایس آئی یوٹی، انڈس، الخدمت کی سرگرمیاں قابل فخر ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام این جی اوز مل کر کا م کریں۔ اچھے اورٹرینڈہیومن ریسورس کی ملک میں کمی ہے۔ڈاکٹر ثاقب انصاری نے کہا کہ ہم گزشتہ 20سال سے تھیلے سیمیا پرکام کر رہے ہیں، ملک میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تھیلے سیمیاکے مریض بچوں میں اضافہ ہو رہا ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں ہر سال 5سے 6ہزار بچے تھیلے سیمیا کے مرض کے ساتھ پیدا ہورہے ہیں، شادی سے قبل تھیلے سیمیا کا ٹیسٹ کرا کے ہی اس مرض کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر منہاج قدوائی نے کہا کہ 2011ء میں صحت کا شعبہ صوبوں کے حوالے کر دیا گیا مگر ہیلتھ ورک کو اس حوالے سے ٹرینڈ نہیں کیاگیا، کراچی کے ہیلتھ اور ایجوکیشن کے مسائل کے حل کے لیے کور کمیٹی بنانے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر حکیم جوکھیو نے کہا کہ ہمارا صحت کا نظام زبوں حالی کا شکار ہے، پبلک ہیلتھ کے حوالے سے ان گنت مسائل ہیں مگر حکومتی سطح پر کوئی سنجیدگی نظر نہیں آتی۔