ری بلڈ کرا چی کیا ہے؟ ری بلڈ کراچی کانفرنس

225

حق دو کراچی کی مہم کو پریشر یا حکمرانوں پر دباؤ کہہ دینا درست نہیں ہو سکتا. گذشتہ دو سالوں میں شہر بھر میں اس تحریک نے مختلف مراحل طے کیے ہیں .اس مہم کو مختلف تناظر میں چلایا گیا.اس تحریک میں عوامی رائے عامہ کے لیے صرف احتجاج، مظاہرے، دھرنے ، نعرے، ہینڈ بلز ،چاکنگ یا بینر لگانا ہی نہیں بلکہ مسائل کے واقعی حل کے لیے بھی مکمل سنجیدگی دکھائی گئی ہے .جماعت اسلامی نے ہمیشہ شہر اور شہریوں کے ساتھ ہونے والی حق تلفیوں پر ہمیشہ موثر آواز بلند کی ہے .حق دو کراچی مہم طول اس لیے پکڑ گئی ہے کہ کراچی کو جس طرح مسائلستان بنایا جا رہا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی. تباہی کا یہ سفر بحالی کے لیے جن اقدامات کا تقاضا کرتا ہے ان میں تباہ ہونے والے شعبہ جات کے م تعلقہ اسٹیک ہولڈر و ماہرین کی آراء و تجاویز کا شامل کرنا نہایت ضروری ہے .ان کو لے کر ہی ایک جامع و تکنیکی و قابل عمل حل پیش کیا جا سکتا ہے . اس مقصد کے لیے جماعت اسلامی جہاں سیاسی میدان میں انتظامیہ و حکمرانوں سے بات کرنے و مطالبات پیش کرنے میں پیش پیش ہے وہاں عملی حل نکال کر تکنیکی و علمی و شعبہ جاتی مہارت میں بھی پیش پیش ہے.اس کے ذریعہ متعلقہ شعبہ جات کے حقیقی مسائل بھی سامنے آتے ہیں اور انکا حل بھی باہمی ڈسکشن سے نکالا جاتا ہے .جماعت اسلامی کے تحت پورے پاکستان سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ ماہرین کو ری بلڈکراچی یعنی کراچی کی تعمیر نو کے عنوان سے جمع کیا گیا۔
اس سلسلے کی پہلی کڑی اکتوبر میں کراچی کے مقامی ہوٹل میں ایک کانفرنس کے ساتھ منعقد کی گئی۔اس کانفرنس میں صنعت وتجارت،صحت،تعلیم ، ادب، انجینئر، ڈاکٹرز، وکلا، اساتذہ، صحافی، علما کرام ،خواتین ، این جی اوز سمیت تمام شعبہ جات سے ماہرین کو کراچی کی تعمیر کے تناظر میں مسائل و حل کی جانب سنجیدہ غور و فکر کرنے کے لیے اظہار خیال کی دعوت دی گئی ۔کانفرنس سے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن ،سابق وفاقی وزیر جاوید جبار ،معروف شہری منصوبہ ساز عارف حسن ،سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی فہیم الزماں صدیقی، معروف ڈراما نگار انور مقصود ،چیف ایڈیٹر روزنامہ جسارت شاہ نواز فاروقی، معروف بزنس مین بشیر جان محمد، معروف صنعت کار جاوید بلوانی ،آرٹس کونسل کے صدراحمدشاہ،ماہر اقتصادیات عاصم بشیر خان، ماہر ماحولیات ڈاکٹر ظفر فاطمی ،ماہر تعلیم ،وائس چانسلر ضیا الدین یونیورسٹی ڈاکٹر عرفان حیدر، ماہر صحت ڈاکٹر اقبال آفریدی، ماہر ٹرانسپورٹ محمد توحید، ماہر آئی ٹی عمارہ مسعود، ماہر حقوق خواتین حمیرا قریشی، کھیلوں سے وابستہ معروف اینکر ماہر یحییٰ حسینی، ٹرانسپرنسی کے عادل گیلانی،سی پی ایل سی کے سابق چیف ناظم ایف حاجی ودیگر نے بھی اظہار خیال کیاجبکہ نظامت کے فرائض نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی ،معروف اینکر ڈاکٹر بلند اقبال ،الخدمت کے ڈائریکٹر نوید علی بیگ نے انجام دیے ۔
اس کانفرنس میں شریک تمام ہی ماہرین نے کراچی کو از سرنو تعمیر کرنے کے لیے کراچی کو بااختیار شہری حکومت قائم کرنے کی تجویز پر اتفاق کیا ۔ ری بلڈ کراچی کانفرنس نے یہی پیغام دیا کہ آئینی طور پر کراچی میںبااختیار شہری حکومت قائم کی جائے۔فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں، کیونکہ جب جعلی مردم شماری پر قومی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوسکتے ہیں تو بلدیاتی انتخابات کیوں نہیں کرائے جاتے؟ بد ترین حالات کے باوجود بھی کراچی پورے ملک کو 41 فیصد انکم ٹیکس دیتا ہے،ایسے میں 3 کروڑ آبادی والے میگا سٹی کو صرف ایک روٹ کے لیے 100بسوں کی خیرات نہیں بلکہ باقاعدہ ماس ٹرانزٹ کی ضرورت ہے۔کانفرنس نے یاد دلایا کہ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن پروجیکٹ قائم کرکے دکھایا جسے بعد میں آنے والی حکومتوں نے تباہ و برباد کردیا ۔11ماہ میں لاہور ،8ماہ میں پنڈی اور پشاور میں میٹرو کے پروجیکٹس بن سکتے ہیں تو کراچی میں 6سال گزرنے کے باوجود چھوٹا سا گرین لائن پروجیکٹ آج تک مکمل نہیں کیا گیا۔ دو بار افتتاح کے باوجود ڈھائی سال مسلم لیگ ن اور3 سال پی ٹی آئی کی حکومت کو گزرگئے لیکن کراچی کے3 کروڑ شہریوں کے لیے گرین لائن کا منصوبہ آج تک نہ باقاعدہ شروع کیا گیا اور نہ ہی روٹ مکمل کیا گیا۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے سید عادل گیلانی نے کہاکہ کراچی جب سے صوبے کے ماتحت ہوا ہے، فراہمی آ ب کا نظام درہم برہم ہوگیا ہے ، K4کا منصوبہ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے پیش کیا جوکہ آج تک مکمل نہ ہوسکا،کراچی میں فراہمی آب کے منصوبوں پر صرف نعمت اللہ خان کے دور میں کام ہوا ۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں واپڈا سے بڑا کوئی کرپٹ ادارہ نہیں ہے ،پانی اور بجلی کے بحران کا ذمے دار یہی ادارہ ہے ۔
معروف شہری منصوبہ ساز عارف حسن نے کہاکہ تمام تر اختلافات کے باوجود جماعت اسلامی کی حق دو کراچی کی حمایت کرتا ہوں۔ کراچی کی از سر نو تعمیر کے لیے بااختیار شہری حکومت قائم ہونی چاہیے۔ سابق وفاقی جاوید جبار نے کہاکہ جماعت اسلامی واحد جمہوری جماعت ہے ، حافظ نعیم الرحمن کو کراچی کے مسائل کے حل کی جدوجہد پر مبارکباد پیش کرتاہوں ،کراچی کی تعمیر نو کے لیے ہم ماضی کاکراچی تو واپس نہیں لاسکتے لیکن کراچی کے ماضی کو یاد کرتے ہوئے شہرکی از سر نو تعمیر کرسکتے ہیں ۔ڈاکٹر اقبال آفریدی نے کہاکہ صحت ذہنی ، جسمانی اور معاشرتی آسودگی کا نام ہے ، پاکستان میں قدرتی آفات سے اتنے لوگ نہیں مرے جتنے معاشرتی مسائل سے متاثر ہوکر مرے ہیں ،کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے ،اداروں میں کرپشن کی وجہ سے ہی ہمارا صحت کا پورا نظام تباہ و برباد ہے ،کراچی سمیت پاکستان بھر میں سب کو مل کر صحت کے مسائل کومل جل کر حل کرنا ہوگا۔
معروف ڈراما نگار انور مقصود نے کہا کہ جماعت اسلامی کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے جان ہتھیلی پہ لیے رہتی ہے ۔ وزیراعظم پاکستان کو مدینے کی ریاست بنانا چاہتے ہیں اور یہ کام صرف جماعت اسلامی کرسکتی ہے۔ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے سب کو نکلنا ہوگا۔
ماہر اقتصادیات عاصم بشیر خان نے کہا کہ3 سال گزرنے کے بعد 2017ء کی مردم شماری کی منظوری دی گئی ہے، جب فروری 2018ء میں مردم شماری کے عبوری نتائج شائع ہوئے تو ان نتائج کے تجزیے سے مردم شماری میں کئی خامیاں سامنے آئیں جس سے مردم شماری کے نتائج متنازع ہوگئے،تمام سیاسی جماعتوں نے مردم شماری خاص طور پر کراچی کی مردم شماری پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور عدالت عظمیٰ سے بھی رجوع کیا۔مردم شماری کے حوالے سے ایک جامع تجزیے کی اشد ضرورت ہے۔مردم شماری کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد بلاکس کے تحقیقی جائزے پر پہلا تجزیہ میں نے پیش کیا جسے کافی پذیرائی ملی۔ اس تجزیے کے مطابق کراچی اور اندرون سندھ میں غیر معمولی آبادی والے بہت سے بلاکس ہیں ایک گھر میں 175 افراد ہیں کہیں بے شمار بلاکس میں صفر گھرانے اور صفر آبادی ہے جبکہ وہاں اچھی خاصی تعداد میں ووٹر ز ہیں۔معروف صنعتکار بشیر جان محمد نے کہاکہ آج معیشت کی صورتحال دگرگوں ہے، جولوگ کاروبار کرنا چاہتے ہیں ان کے پاس وسائل نہیں ،حکومت نے کراچی کو نظر انداز کردیا ہے ،جماعت اسلامی شہر کی تعمیر وترقی کے لیے جو کرسکتی ہے وہ سب کچھ کررہی ہے جس پر وہ مبارکباد کی مستحق ہے ۔آج اصل مسئلہ گڈ گورننس کا ہے لوگوں میں عزم بھی ہے حوصلہ بھی اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ بھی ۔