غیر ملکی قرضوں سے نجات کیلیے معاشی ترقی اور حکومتی اخراجات میں کمی ضروری ہے

454

کراچی (رپورٹ:قاضی جاوید)ملک کو غیر ملکی قرضوں سے نجات کے لیے معاشی ترقی ضروری ہے‘ اس کے لیے تجارتی اور صنعتی سرگرمیوں میں اضافہ کیا جائے‘ حکومتی اخراجات میں جس قدر ممکن ہو جلد ازجلد کمی کی جائے‘ ملکی برآمدات بڑھا کر آئی ایم ایف سے نجات کا راستہ تلاش کیا جائے۔ان خیالات کا اظہار ملک کے معروف صنعتکار ایس ایم منیر،پنجاب کے سابق صوبائی وزیر میاںانجم نثار، سی این جی ایسوسی ایشن کے سربراہ غیاث پراچہ، سابق وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا اور ماہر معاشیات ڈاکٹر اشتیاق نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’پاکستان کو غیر ملکی قرضوں سے کس طرح نجات ملے گی؟‘‘ ایس ایم منیر نے کہا کہ قرض اُتارنے کے لیے ملک میں زیادہ سے زیادہ صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے لیکن گیس کی بندش او ر مہنگی بجلی صنعتی پہیہ جام کر رہی ہے جس سے ایکسپورٹ کو دھچکا لگے گا‘ سندھ میں سی این جی ایسوسی ایشن کی ہڑتال سے ایک نیا بحران جنم لے رہا ہے‘ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتی شعبے اور سی این جی سیکٹرکو اعتماد میں لے اور ان کے تحفظات سن کر اس کو حل کرنے کی کوشش کر ے ‘ملکی برآمدات ہی بڑھنے سے ہی زرِ مبادلہ میں اضافے کا امکان ہے اور اس سے قرض بھی اُتارنے میںمدد ملے گی ۔ میاںانجم نثار نے کہا کہ اقتصادی صورتحال کو بہتر سے بہتر بنانے کی ضرورت ہے‘ ملک میں معیشت کے حالات بد سے بد تر ہو تے جا رہے ہیں اور کارروبار کرنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے ‘ بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ تیز رفتاری سے بڑھتے ہوئے ڈھائی ٹریلین روپے تک پہنچ کر معیشت کے لیے خطرہ بن گیا ہے جس کو کم کرنے کے لیے سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال کر فیصلے کرنے ہوں گے لیکن ایسا نہیں کیا جا رہا ہے‘ گزشتہ کئی سال کے دوران بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ کم کرنے کے لیے جو بھی اقدامات کیے گئے ہیں ان سے قرضہ تو کم نہیں ہوا البتہ عوام اور کاروباری برادری پر بجلی کے بلوں کا بوجھ بڑھا ہے ‘ کئی سو ارب روپے کی بجلی کی چوری کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے‘ بجلی کی تقسیم و ترسیل کے دوران بھاری نقصانات کا سلسلہ جاری ہے جبکہ اربوں روپے کے بلوں کی ریکوری کے بجائے اس کا بوجھ بھی بل ادا کرنے والے صارفین پر ڈالا جا رہا ہے۔ اُدھر دوسری جانب گیس کی بندش کا سلسلہ جاری ہے‘ صنعتی مشین پاور کے بغیر نہیں چلتی ہے‘ گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ بھی آئی ایم ایف کی مرضی سے کیا جا رہا ہے‘ پاکستان کو غیر ملکی قرضوں سے نجات اسی صورت ممکن ہے جب ملک میں بھاری سرمایہ کاری ہو‘ تجارتی اور صنعتی سر گرمیوں میں اضافے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ غیاث پراچہ نے کہا کہ پوری دنیا میں ترقی کے لیے پاور سیکٹر کو مضبوط کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک میں سال میں6 ماہ گیس کی فراہمی بند کر دی جاتی ہے اور پورا بوجھ بجلی پر آجاتا ہے ‘ ملکی مجموعی پیداوار میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اور کمائی کے بغیر خرچ کے لیے صر ف قرض کی ہی ضرورت ہو تی ہے ’گیس لوڈ مینجمنٹ پالیسی 2005ء‘ کا نفاذ 2 سال کے لیے کیا گیا تھا‘ لیکن متعلقہ حکام نے جان بوجھ کرا سے وفاقی کابینہ سے خفیہ رکھا۔ آئی پی پیز سے نئے معاہدے، بجلی نرخ میں ایڈجسٹمنٹ، بجلی کے ٹیرف میں اضافہ اور نیپرا ایکٹ میں ترمیم سمیت تمام اقدامات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے کیونکہ حکومت نے گزشتہ 3 سال میں اس سلسلے میں کوئی واضح پالیسی اختیار ہی نہیں کی ہے ‘ سوئی ناردرن گیس کمپنی لمیٹڈ کا گردشی قرضہ 400 ارب روپے جبکہ سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ270 ارب روپے کے گردشی قرض میں پھنس گئی ہے‘ ان حالات میں حکومت کہاں کھڑی ہے ؟ حفیظ پاشا نے کہا کہ تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور درآمدات پر زیادہ ڈالر خرچ ہو رہے ہیں اور برآمدات کی صورت میں ڈالر کم آ رہے ہیں اس کی وجہ سے بھی ملکی ذخائر میں کمی ہو رہی ہے کیونکہ وہاں سے درآمدات کے لیے ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ اس ادائیگی کی وجہ سے بیرونی قرضے کی قسط اور اس پر سود کی واپسی مشکل ہو جاتی ہے‘ بیرونی قرضے کی ادائیگی بھی ڈالر میں کرنی ہوتی ہے۔اس لیے ملکی پیداوار میں اضافہ ضروری ہے‘ کسی ملک کے لیے داخلی قرضے بھی ایک مسئلہ ہوتے ہیں تاہم اس کی بنیاد پر ملک کو بین الاقوامی سطح پر دیوالیہ نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ اندرونی قرضے کی ادائیگی کے لیے مقامی کرنسی چھاپ کر ان کی ادائیگی تو ہو سکتی ہے لیکن بیرونی قرضے کی ادائیگی کے لیے عالمی کرنسی کی ضرورت ہوتی ہے‘ اس وقت ڈالر کو عالمی کرنسی کا درجہ حاصل ہے‘ خدشہ ہے کہ ملک دیوالیہ نہ ہوجائے اگر ایسا ہوا تو ملکی کرنسی اس قدر بے وقعت ہو جائے گی کہ یہ سڑکوں پر بکھری ہو گی اور لوگ اس پر چلا کریںگے ‘ ہمیں اس وقت کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے کہ جس سے ظاہر ہو کہ پاکستان دیوالیہ ہونے جا رہا ہے۔ ڈاکٹر اشتیاق نے بتایا کہ ملک میں قرض کا بوجھ معیشت کو زنگ لگا رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ملک مکمل طور سے قرض میں جکڑا جا رہا ہے‘ قرض ملکی سیکورٹی کے لیے رسک بھی ہو سکتا ہے اور اس سے جس قدر بچ سکتے ہیں بچا جائے ۔