سیاسی بونے اور بوٹ پالش

539

پاکستان کے وفاقی وزرا کی خیر ہو کہ وہ طرح طرح کی اصطلاحات اور ان کے عملی معنوں سے آگاہ کرتے رہتے ہیں، کبھی صرف جملے بازی کی حد تک کبھی اپنی حرکتوں سے بتا دیتے ہیں کہ وہ کیا ہیں ان کے ساتھی کیا ہیں اور مخالفین کیا ہیں۔ تازہ خبر کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) پالش کے لیے کھڑی ہے لیکن کوئی بوٹ آگے نہیں کررہا۔ بھائی لوگ بوٹ چھوڑیں گے تو اِدھر اُدھر جائے گا۔ فی الوقت تو بوٹ پالش کے بجائے چاٹنے کا کام ہورہا ہے۔ ورنہ اتنی خراب پرفارمنس کے بعد بوٹ آگے نہیں آتا بلکہ کہیں اور مارا جاتا۔ انہوں نے یہ اطلاع بھی دی کہ ڈیل کا انتظار کرنے والے ہمیشہ سیاسی بونے ہی رہیں گے۔ یہ سیاسی بونے بوتے کیا ہیں۔ اس کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہے بہت آسانی سے بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ سیاسی بونا ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اپنے حلقہ انتخاب میں آزادانہ الیکشن میں حصہ لیں تو ضمانت ضبط ہوجائے لیکن بوٹ پالش کرکے اسمبلی تک پہنچتے ہیں پھر نت نئے طریقوں سے وزارتیں حاصل کرتے ہیں پھر جس کی جتنی لمبی زبان جتنی اچھی جگت مارتا ہو اتنا ہی اچھا عہدہ ملتا ہے۔ ان سب کی کوشش ہوتی ہے کہ ملک کے سارے بھانڈ میراثی اور مخولیے، بیروزگار ہوجائیں ان کی جگہ یہ خود لے لیں۔ لیکن وزارتوں کے کاموں سے فرصت کہاں اور وزرات میں کام صرف لمبی لمبی جگت مارنا ہے۔
جب پاکستان میں پہلی جعلی پارٹی کنونشن مسلم لیگ بنی تھی اس وقت کسی کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ اس ذریعے سے کیا حاصل کیا جائے گا۔ اس کا زیادہ دن انتظار نہیں کرنا پڑا جلد نتائج سامنے آگئے اور مسلم لیگ سے کنونشن لیگ اور اس سے ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی پھوٹ نکلی، پھر تو بہار آگئی۔ یہ لیگ، وہ لیگ، ف لیگ، ن لیگ، ق لیگ، ضیا مسلم لیگ، عوامی مسلم لیگ، آل پاکستان مسلم لیگ، اور اب آنے والے دنوں میں نجانے کیا کیا دیکھنے کو ملے گا۔ اب وزیر داخلہ شیخ رشید نے بتایا ہے بلکہ تصدیق کی ہے کہ حکومت دونوں ہاتھوں اور دونوں ٹانگوں کی مدد سے بوٹ سے چمٹی ہوئی ہے۔ شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ ہمارے سر سے ہاتھ نہیں اٹھا۔ پھر وہ اسٹیبلشمنٹ کے ترجمان بن گئے اور فرمانے لگے کہ اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات اچھے ہیں ان کی پالیسیاں 20 دن نہیں 20 سال کے لیے ہوتی ہیں۔ وہ خبر دے رہے تھے یا اطلاعات اور دعوے، بہرحال وزرا کے پاس خبریں جوتوں، بوٹ پالش اور سیاسی بونوں ہی کی ہیں۔ حکمرانی کے بارے میں انہوں نے کھل کر اعتراف کرلیا کہ ہم چوروں کو سزا نہیں دے سکے۔ مافیاز پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ انہوں نے یہ الزام بھی ثابت کردیا کہ الطاف حسین پر کس کا ہاتھ تھا۔ کہنے لگے کہ جو لندن سے نام لے کر بات کرتے تھے ان پر سے ہاتھ اٹھ گیا ہے۔ گویا 35 برس تک کراچی پر حکمرانی اور ملک کی تباہی کے ذمے داروں پر ان ہی کا ہاتھ تھا جن کا اب پی ٹی آئی پر ہے۔ یہی سیاسی بونے اور بوٹ پالشیے ہوتے ہیں ہر حکومت کے دور کے اختتام پر اس طرح لوٹا پریڈ ہوتی ہے کچھ لوٹے اِدھر سے اُدھر پریڈ کرتے نظر آتے ہیں کچھ دوسری طرف سے ادھر آتے ہیں۔ یہ سیاسی بونے ایک پارٹی سے دوسری میں جانے کی یہی شرط رکھنے ہیں کہ وزارت مشاورت وغیرہ ملے تو ہمارا قد اونچا ہوجائے گا ہم اس گروپ میں چلے جائیں گے پھر یہ بھونپو بن کر اپنی حکومت کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں۔
مٹی کے کھلونے بنانے والی فیکٹری کا ایک کارنامہ سابق جج کا حلف نامہ ہے۔ جج صاحب کو کیا ہوا تھا کہ چار سال بعد حلف نامہ جمع کرادیا۔ حلف نامہ جمع کرانے کے بعد تو اسے لاکر میں رکھا گیا تھا تو پھر یہ میڈیا تک کیسے پہنچا۔ حکومت بھی سوال کررہی ہے اور اپوزیشن بھی۔ اس کا سادہ سا جواب ہے کہ وہی فیکٹری یہ سارے کام بھی کررہی ہے۔ بوٹ پالش کرنے والے سیاسی بونوں کو کسی قسم کی شرم و حیا نہیں ہوتی۔ چنانچہ جس ادارے کے پاس جانے کو خودکشی کہا جاتا تھا اس کے پاس جا کر بلکہ جا جا کر خودکشی کی تکرار کی جارہی ہے اور اب مشیر خزانہ فرما رہے ہیں (جو وزیر بن گئے ہیں) کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کریں گے۔ بھائی جس دن قرض لینے آئی ایم ایف کے پاس گئے تھے اس دن سب کو معلوم تھا کہ ایسا ہی کرنا ہوگا۔
رہے شیخ رشید صاحب تو وہ رفتہ رفتہ نائلون کا موزا بنتے جارہے ہیں۔ ویسے تو پی ٹی آئی میں سارے ہی ایسے لوگ ہیں جو نائلون کا موزا قرار پاتے ہیں۔ ہر پائوں میں فٹ ہوجاتے ہیں، یہی پائوں کسی بھی جوتے میں ہو تو ان ہی کو پتا ہوتا ہے جو یہ جوتا پہنتے ہیں۔ یہ محاورے کے مطابق بھی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔ نائلون کے موزے ہی بوٹ پالش میں طاق ہوتے ہیں۔ بوٹ کے اندر رہتے ہیں لیکن جاتے وہاں ہیں جہاں بوٹ لے جائے۔ پاکستان کے نصیب میں یہی بوٹ پالشیے، یہ سیاسی بونے اور مخولیے جگت باز کب تک رہیں گے۔ ان سے نجات کے لیے قوم کب نکلے گی۔ ایسے سیاسی بونوں اور بوٹ پالشیوں کو نرم بات سمجھ میں تو نہیں آتی لیکن ان سے نرم بات کہتے کہتے سنجیدہ سیاسی جماعتوں کو کئی عشرے گزر گئے۔ اب ان کا کوئی نہ کوئی حساب کرنا ہی ہوگا۔