کراچی کے لیے متحد ہونے وقت آگیا

406

ایشوز ملکی ہوں یا امت ِ مسلمہ کے حوالے سے ہوں، کامیاب دھرنوں اور بھرپور ریلیوں کی تاریخ رکھنے والا شہر ِ کراچی آج اپنے حقوق کے لیے سراپہ احتجاج ہوگیا۔ غزہ مارچ ہو یا کشمیر کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے انسانی ہاتھوں کی زنجیر، تحفظ ناموسِ رسالت مارچ ہو یا حکومت ِ وقت کے خلاف دیا جانے والا تاریخی دھرنا، ہمیشہ ایسے مسائل پر جب جماعت ِ اسلامی نے عوام کو طلب کیا انہوں نے شہر ِ کراچی کی سڑکیں بھردیں اور آج کراچی کی سڑکیں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑے ہونے والوں سے بھر گئی تھیں۔
ایک وقت تھا جب شہر کراچی کے عوام نے انسانیت کے نام پر اکٹھا کرنے والوں کو دل سے چاہا، اتنا چاہا کہ ان کو ایک کال پر پورا شہر بند کر دینے کا غرّہ ہوگیا… زمین پر جب انہوں نے ’’خدا‘‘ بن جانے کی کوشش کی تو دل سے چاہنے والے عوام کو بوری بند لاشوں، بھتّوں، چائنا کٹنگ، ناجائز قبضوں اور کلاشنکوف کلچر کے تحفے ملے۔ محبت و اخلاص کے بجائے خوف و ہراس کی حکمرانی قائم ہوئی۔ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ جانے کسی لاپتا مظلوم کے تڑپتے اہل ِ خانہ کی آہ لگی یا تشدد زدہ لاش کے لواحقین کی… کہ یکایک ظلم تاریکی پر مبنی یہ سلطنت تاخت و تاراج ہوگئی اور آج ایک کال پر پورا شہر اکٹھا کرنے والوں کا نام لینا شاید ہی کوئی پسند کرتا ہو۔ دوسری طرف قائد ِ عوام اور شہید ِ عوام کی پارٹی ہے جس نے یہاں مختلف ادوار کو ملا جلا کر کئی سال حکمرانی کی اور جسے سندھ کی مقبول ترین جماعت ہونے کا دعویٰ ہے۔ حالت یہ ہے کہ جن علاقوں سے ان کے ایم پی ایز اور ایم این ایز منتخب ہو کر اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں ان علاقوں کی ظاہری ناگفتہ بہ صورتحال ہی ان کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
پی ٹی آئی جس کو گزشتہ عام انتخابات میں کراچی کے عوام نے حسین مستقبل کے سپنے لیے جوق در جوق ووٹ ڈالے اور اسمبلیوں تک پہنچایا۔ مگر تبدیلیوں کا انتظار مایوسی میں بدل گیا… جب کہ پی ٹی آئی کے گورنر سندھ اور پی پی پی سے وابستہ وزیر اعلیٰ سندھ ’’آؤ بیان بیان کھیلیں‘‘ کھیلتے رہے۔ حد تو یہ ہے کہ سڑکوں پر بنتے ہوئے کچرے کے پہاڑوں کے حوالے سے بھی سیاست ہوتی رہی… نتیجتاً کراچی کھنڈر بننے جارہا ہے انفرا اسٹرکچر تباہ ہے۔ شاید ہی کوئی سڑک بچی ہو جس پر خوفناک گڑھے نہ ہوں جن کے باعث ٹریفک حادثات کا تناسب تیزی سے بڑھا ہے۔ کے الیکٹرک کی من مانیاں ایک طرف اب گیس بحران نے شہر کے بیش تر علاقوں میں لوگوں کو گھروں سے باہر نکل کر احتجاج کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ پانی کی لائنیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں… شہر کا ایک دورہ کرنے نکلیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے اِس شہر ِ بے مثال کا کوئی پرسان ِ حال نہیں۔ انفرا اسٹرکچر کے تباہ ہونے کی بات ایک طرف معاشرتی امن و سکون بھی تباہ و برباد ہے۔ عدم تحفظ کا احساس عروج پر ہے۔ ماضی میں بوری بند لاشیں اور بھتے کی پرچیاں وصول کرنے والا شہر آج پی ٹی آئی کی گونر شپ اور پی پی پی کی وزارت ِ اعلیٰ کے سائے تلے، ان کی باہمی چپقلش کے نتیجے میں گیس، بجلی اور پانی جیسی بنیادی ضروریات زندگی سے محرومی کے تحفے وصول کر رہا ہے۔ اب جبکہ تبدیلی کی کسی آس نے یکسر دم توڑ دیا ہے… اہل ِ کراچی کو جھنجوڑا جارہا ہے… جھنجھوڑنے والے کہہ رہے ہیں کہ اس کالے قانون کے خلاف اٹھو جس کے ذریعے بچے کھچے شہری حقوق پر بھی ڈاکا ڈالا جا رہا ہے۔ جس میں جعلی مردم شماری کی منظوری دے کر، کوٹا سسٹم میں غیر معینہ مدت تک اضافہ کر کے، کے الیکٹرک مافیا کی سرپرستی کر کے، سرکلر ریلوے اور پانی کے 4-K منصوبے پر دھوکا دے کر ایک ہزار ایک سو ارب کے پیکیج کا ڈھکوسلہ دے کر اور مرکز میں بااختیار شہری حکومتوں کے قیام کے لیے آئین سازی نہ کرکے، کراچی اور اہل ِ کراچی پر مکمل قبضے کا پلان تیار کیا گیا ہے۔
اے اہلِ کراچی…! اے ملکی اور عالمی مسائل پر عظیم الشان مظاہرے کرنے والو… اب اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے کھڑے ہونے اور کھڑے رہنے کا وقت ہے۔ سندھی اور غیر سندھی، مہاجر اور غیر مہاجر کی تفریق بھلا کر صرف شہر ِ کراچی کی خاطر ایک ہوجانے کا وقت ہے۔
19 دسمبر کو جماعت ِ اسلامی کے پلیٹ فارم سے ’’کراچی بچاؤ مارچ‘‘ میں شریک ہونے والوں نے پیچھے رہ جانے والوں کو یہی پیغام دیا ہے کہ مسائل کے خاتمے اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے اس طاقت کو ایندھن فراہم کیا جائے جو شہر کی خدمت کے حوالے سے شاندار ماضی کے حامل ہے۔
جو مسائل کے حل کے لیے بھرپور آواز اٹھاتے ہوئے شہر میں بااختیار بلدیاتی حکومت، درست مردم شماری، کوٹا سسٹم کے خاتمے اور بین الاقوامی طرز کا ٹرانسپورٹ سسٹم وضع کرنے کے مطالبات کررہی ہے۔ اور مستقبل میں بھی اس شہر کی ترقی کے لیے تعلیم، صحت، اسپورٹس، پانی، سیوریج اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے حوالے سے جامع و مربوط پلاننگز اور افرادی قوت رکھتی ہے۔