حکمرانوں نے سقوط ڈھاکا سے کچھ سیکھا ہوتا تو کراچی اور بلوچستان کی صورتحال مختلف ہوتی

147

کراچی (رپورٹ :قاضی جاوید)کرنل (ر) سید سرفراز حسین عابدی نے “جسارت کے سوال”کیا پاکستان کے حکمران طبقے نے سقوط ڈھاکا سے کچھ سیکھا ہے؟ کے جواب میں کہا کہ کچھ سیکھا ہو تا تو آج کراچی اور بلوچستان کی یہ حالت ہوتی جو آپ دیکھ رہے ہیں ۔ بنگال 60 فیصد ملکی معیشت میں حصہ ڈالتا تھا لیکن اس کو صرف 15 فیصد واپس ملتا تھا ۔ یہ وہی صورتحا ل تھی جو آج کراچی کی ہے جہاں سے حکومت کو 65سے 70فیصد ٹیکس وصول ہو تا ہے لیکن جواب میں کیا ملتا ہے وہ سب کو معلوم ہے اور اگر اس پر زبان کھولو تو کہا جاتا ہے کہ کراچی والے لسانی باتیں کر رہے ہیں۔جنرل نیازی نے بنگالیوں کو ان کی نسل بدلنے کی دھمکی دی اور پاکستان کا جغرافیہ بدل کر واپس آئے ۔قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد ہی قائداعظم کی وفات ہو گئی۔ اردو کو قومی زبان قرار دینے پر قائد اعظم کی زندگی میں ہی مشرقی پاکستان میں بے چینی پیدا ہوئی لیکن مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں نفرتوں کا آغاز 1958ء میں مارشل لا نافذ ہونے کے بعد ہوا۔ مارشل لاکی حکومت میں جو ظلم و ستم ہوا، اس کی گواہی راؤ فرمان سے لے کر جنرل مٹھا تک بہت سے فوجی افسران نے اپنی تحریروں میں بیان کر دی ہے ۔ لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ فوجی آپریشن میں 30 لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا گیا اور 2 لاکھ عورتوں کا ریپ ہوا۔حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ میں جو کچھ لکھا گیاوہ سقوط ڈھاکا کے 50 سال کے بعد پاکستان کے حکمران طبقے کو ضرور پڑھنی چاہیے۔ پنجاب یونیو رسٹی کی ڈاکٹر صائمہ نے کہا اگر ہم نے کچھ سیکھا ہوتا تو آج پاکستان میں علیحدگی کے نعرے کو ئی لگانے والا نہیں ہو تا۔ کے پی کے میں سے ہر سال درجنوں تحریکیں نکلنے کی کوشش کر تی ہے اس کے علاوہ ہمارے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں مہاجر عوام جن کا یہ دعویٰ ہے وہ پاکستان بنانے والوں کی اولاد ہیں ان لوگوں سے بغاوت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ، لیکن ہمارے حکمرانوں نے ان کو بھی مجبورکر دیا کہ وہ پاکستان کے خلاف نعرے لگائیں کیا یہ ایک حقیقت نہیں ہے کہ پاکستان کی تحریک چلانے والی آل انڈیا مسلم لیگ 30 دسمبر 1906ء کو ڈھاکا میں قائم ہوئی تھی۔ تحریک پاکستان میں بنگالیوں نے بہت اہم کردار ادا کیا اور 23 مارچ 1940ء کی قرار داد لاہور بھی ایک بنگالی لیڈر مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی۔ اور اب یہ علاقہ ہماری ریاست نہیں ، یہ ایک الگ ملک بن چکا ہے ۔ہم نے یا ہمارے حکمرانوں نے کیا سیکھا تو اس کا جواب منفی میں ہے کہ ہم نے کچھ سیکھنے کے بجائے آج ہم فرقوں اور لسانی اکائیوں میں ڈگمگا رہے ہیں ۔ 16 دسمبر قریب آتا ہے تو پاکستان میں یہ بحث شروع ہو جاتی ہے کہ 1971ء میں پاکستان کیوں ٹوٹ گیا تھا؟ کیا پاکستان کے حکمران طبقے نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا؟دوسری طرف دسمبر کے آتے ہی بنگلا دیش میں بھی یہ بحث شروع ہو جاتی ہے کہ جن مقاصد کے لیے پاکستان سے علیحدگی اختیار کی تھی، آج کے بنگلا دیش میں وہ مقاصد حاصل ہوئے یا نہیں؟پاکستان میں آج 50 سال بعد بھی سقوط ڈھاکا پر جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ اسی طرح بنگلا دیش میں بھی کچھ افسانوں کو تاریخ بنا کر پیش کیا جاتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حقیقت اور افسانے میں فرق سامنے آرہا ہے۔سجاد اظہر کا کہناتھا کہ یہ ایک عجیب سوال ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے آج بھی پاکستان کے متعدد علاقوں میں وہی صورتحال ہے جو1971ء میں بنگلا دیش میں تھی۔ نصف صدی گزرنے کے باوجود بنگلا دیش کی تحریک آزادی کے حوالے سے جو پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے وہ اتنا پر اثر ہے کہ آج بھی اصل حقائق کہیں گم ہو کر رہ گئے ہیں۔جنوری 1972 کو ڈھاکا میں بیان دیا، ’آزادی کے دوران ہمارے 30 لاکھ لوگ قتل ہوئے۔ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی تحریک آزادی میں اتنی بھاری جانوں کی قربانی دی گئی ہو۔ دنیا کے کئی آزاد اداروں، صحافیوں اور مصنفین نے اس تعداد کو مبالغہ قرار دیا ہے۔ان میں بنگلا دیشی اور بھارتی صحافی اورمصنفین بھی شامل ہیں۔خود بنگلا دیش کی حکومت نے جنوری1972 میں مرنے والوں کی درست تعداد معلوم کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی جس کے سربراہ ایک ڈپٹی آئی جی پولیس تھے۔ لیکن اس کمیٹی کی کوئی رپورٹ آج تک سامنے نہیں آ سکی، شاید اس لیے کہ مرنے والوں کی اصل تعداد 30 لاکھ کے ہندسے سے کوسوں دور تھی۔ 1971ء میں خفیہ ادارے پاکستانیوں کو لاپتہ کر رہے تھے، آج بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کھو دیا گیا اور آج بہت سے پاکستانیوں کے خیال میں کشمیر کھو دیا گیا ہے۔ 16 دسمبر سے سبق نہ سیکھا گیا تو خدانخواستہ پاکستان مزید نقصان اُٹھا سکتا ہے کیونکہ آج تک پاکستان میں کسی جنرل یحییٰ یا کسی جنرل نیازی کا احتساب نہیں ہوا اور نہ ہی ہو گا۔ آئین توڑنے والا آج بھی مفرور ہے؟۔