ایک تھا

340

ایک ہنگامہ ہوا سیالکوٹ میں انسانیت دم توڑ گئی پورا ہفتہ اس میں گزر گیا۔ اس دوران ایک چیز کھو گئی۔ 1990ء کے عشرے میں پاکستانیوں کو اس سے بہت پیار تھا جس نے کبھی نماز نہ پڑھی ہو یا کوئی جمعے کو بھی کبھی کبھار جاتا ہو یا صرف عیدین میں مسجد کا رخ کرتا ہو اسے بھی بابری مسجد بہت عزیز تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ صرف سالانہ یاد اور پھر کبھی کبھار مضامین اور اب سیالکوٹ کا واقعہ ایسا ہوا کہ کوئی بابری مسجد کو یاد بھی کرتا تو وہ شور قیامت اٹھتا کہ… اللہ کی پناہ۔ لہٰذا بابری مسجد غائب ہوگئی… یہی کہا جاسکتا ہے کہ ایک تھی بابری مسجد… 6 دسمبر یوں ہی گزر گئی۔ ایک آدھ مضمون کہیں کہیں نظر آیا… اور بس ایسا کیوں ہوتا ہے۔ ہماری یادداشت خراب ہے یا ہم یاد رکھنا نہیں چاہتے۔ اب ہم بابری مسجد کی یاد نہیں مناتے۔ بلکہ گزشتہ دو عشروں میں ہم نے پاکستان میں کئی مساجد کو بابری مسجد بنادیا ہے۔ حکمرانوں کو ملک بھی ایک مسجد کی مثال ملا تھا انہوں نے اسے بھی بابری مسجد بنا کر رکھ دیا۔ یعنی ایک تھی بابری مسجد… ہم پاکستانیوں کو شروع سے بتایا گیا کہ بھارت کشمیر پر قابض ہے۔ اس سے کشمیر لے کر رہیں گے۔ ہر سال مختلف دن منا کر یوم کشمیر بھرپور جذبے کے ساتھ منایا جاتا۔ 5 فروری بھی قاضی حسین احمد مرحوم اور جماعت اسلامی کی جدوجہد کے نتیجے میں حکومت پاکستان نے منانا شروع کیا۔ پورے ملک میں کشمیر کے نام پر جوش اور جذبہ ہوتا تھا اس نے پاکستان میں کئی نسلیں تیار کردیں جو جذبہ جہاد سے سرشار تھیں۔ کشمیر فتح کرنے کا جنون تھا۔ پورے ملک کے تمام وسائل ہر شعبے کو کشمیر کاز اجاگر کرنے پر مامور کردیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ اپنے وقت کی مشہور اداکارہ شمیم آراء نے یہ اعلان کردیا کہ میں اس سے شادی کروں گی جو کشمیر پر جھنڈا لہرائے گا۔ پورے ملک میں ہر شعبہ کشمیر کشمیر کرتا تھا۔ پھر کیا ہوا… ایک جنرل نے ہتھیار ڈالے تھے جو نیازی تھا۔ ایک اور جنرل آیا پرویز مشرف… اس نے کشمیر پر آپشنز اوپن کردیے۔ وہ کہتے تھے مسئلہ حل کرنے کے لیے امکانات تلاش کیے جارہے ہیں لیکن جہاندیدہ لوگوں نے کہا کہ یہ کشمیر سے جان چھڑانے کے امکانات کی تلاش ہے۔ اور جب وہ آٹھ سالہ دور گزار کر گئے تو اس طرح میں کام کرچکے تھے۔ کشمیری مجاہد دہشت گرد قرار پاچکے تھے۔ کشمیر محض متنازعہ علاقہ قرار دیا جاچکا تھا۔ بھارت سے دوستی، بسیں، کھیل، طائفے وغیرہ پر تعلقات کا انحصار ہونے لگا۔ ہر معاملے میں کشمیر کو نہ لانے کی پالیسی چلی۔ نواز شریف، پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی حکومتیں آئیںاورگئیں اور کشمیر ٹھنڈا ہوتا چلا گیا۔ پھر… تبدیلی آگئی۔ اور 5 اگست 2019ء کا اقدام سامنے آگیا۔ پاکستان کی جانب سے نیازی سرکار نے اس اعلان پر جو رویہ ظاہر کیا وہ کسی مظلوم کے زخموں پر نمک چھڑکنے بلکہ اسے مزید تڑپانے کے مترادف تھا۔ یعنی اِدھر بھارت نے کشمیر کی حیثیت تبدیل کی اور یہاں سے آدھے گھنٹے کے لیے خاموشی کا زبردست جواب دیا گیا۔ ایک ترانہ بنایا گیا اور اب لوگ یہ یقین کرچکے کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے۔ کشمیر کی جدوجہد کرنے والے جیلوں میں ہیں یا محصور ہیں۔ جسے بزور قوت کشمیر لینا تھا اس نے کشمیر بسرو چشم دے دیا۔ اب عمران خان کے دور میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک تھا کشمیر… یہ اور بات ہے کہ قدرت جس طرح انتقام لیتی ہے اس کا اندازہ کوئی نہیں کرسکتا۔ دو سال کے دوران بھارتی جرنیل بپن راوت نے کشمیریوں کے خلاف اپنی حکومت کی کارروائی پر کہا تھا کہ کشمیر کی حیثیت بدل دی جائے۔ یہاں آبادی کا تناسب بدل دیا جائے۔ ہم کشمیریوں کا ڈی این اے تبدیل کردیں گے۔ وہ کشمیریوں کا ڈی این اے تو تبدیل نہ کرسکے البتہ ان سب لوگوں کی باقیات ڈی این اے لیب میں ہیں جو ہیلی کاپٹر حادثے میں مرے ہیں۔ اب ان کا ڈی این اے ہورہا ہے۔ تبدیل بھی ہوسکتا ہے۔ اگر پاکستانیوں کے لیے یہ جملہ ہے کہ ایک تھا کشمیر… تو ہندوستانی بھی یہ بات یاد رکھیں گے کہ کشمیریوں پر مظالم کرنے والا… ایک تھا جنرل بپن راوت… لیکن دشمن مرنے پر ہمیں خوشی کیوں ہو… ہمیں تو کشمیر آزاد ہونے پر ہی خوشی ملے گی۔جنرل پرویز مشرف کا ایک اور کارنامہ ہے جس میں ہزاروں پاکستانیوں کو پانچ ہزار ڈالر فی کس کے حساب سے فروخت کرنے کا کام بھی شامل ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا کہ ہم نے پانچ ہزار ڈالر کے عوض لوگوں کو امریکا کے حوالے کیا۔ دنیا میں لوگ مرجاتے ہیں تو ان کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ ایک تھا… لیکن فاعتبر و یا اولی الابصار کہ یہ زندگی ہی میں ایک تھا مشرف ہو کر رہ گئے ہیں۔ جن لوگوںکو امریکا کے ہاتھ بیچا گیا ان میں پاکستانی ماہر تعلیم ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کو تین بچوں کے ساتھ کراچی سے اغواء کیا گیا، بگرام میں برطانوی صحافی ایوون ریڈلی نے اس کی موجودگی کا انکشاف کیا۔ دلچسپ یا تلخ بات یہ ہے کہ اس وقت عمران خان ایوون ریڈلی کے ساتھ تھے اور بڑھ چڑھ کر عافیہ کے لیے آواز اٹھا رہے تھے۔ سیاست میں بھرپور طریقے سے آنے کے بعد بھی وعدے کرتے رہے لیکن وزیراعظم بنتے ہی عافیہ کا ذکر غائب۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور اب پی ٹی آئی کے نزدیک ایک تھی عافیہ… نہیں بلکہ یہ حکمراں تو کہتے ہیں کہ کون تھی عافیہ۔ قدرت کا کرشمہ دیکھیے ایسا کرنے والے جنرل پرویز اور میاں نواز شریف ایک تھا جنرل اور ایک تھا نواز شریف ہو کر رہ گئے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے ذلت آمیز کاموں میںاگر موازنہ کیا جائے تو جنرل پرویز اورپی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کے درمیان مقابلہ ہے۔ دونوں نے ایک سے بڑھ کر ایک کام کیا۔ جنرل پرویز کے بعد پی ٹی آئی ،یا ان سے زیادہ اس کا فیصلہ تاریخ ہی کرے گی۔ ہم تو الجھن میں پڑ گئے۔ پاکستان کی تاریخ کا ایک اور سانحہ ایک اور جرنیل یحییٰ خان کے دور حکومت میں ہوا وہ سانحہ سقوط مشرقی پاکستان تھا۔ ملک الگ ہوگیا، ایک تحقیقاتی کمیشن بنا، آج تک قوم کو کمیشن کی تحقیقات سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ بھارت سے کمیشن کی رپورٹ لیک کی گئی۔ اس نے اپنی مرضی کے حصے جاری کیے اور اب اگر پوری رپورٹ آ بھی گئی تو کیا ہوا۔ لیکن 2014ء میں 16 دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول کا واقعہ پیش آیا جس کے بعد میڈیا، قوالوں، طاقت کے مراکز اور 16 دسمبر 1971ء کے دھبے سے جان چھڑانے والوں نے اس واقعے کو اتنا اچھالا اتنا پیٹا کہ لوگ بھول گئے کہ ایک تھا مشرقی پاکستان۔ ایک تھا ڈھاکا… اگرچہ آرمی پبلک اسکول کا سانحہ دلخراش تھا، 150 بچے شہید ہوئے لیکن ڈیڑھ سو بچوں کا موازنہ ملک کے ایک بازو، ہزاروں فوجیوں، لاکھوں شہریوں کی جانوں اور تاریخی کالک سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس سانحہ کا ایک پہلو ڈھائی لاکھ محصورین بھی ہیں۔ ان محصورین کو پاکستان لانے کا وعدہ ہر حکمران نے کیا اور کسی نے اسے پورا نہیں کیا، صرف وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں نے اس پر عمل شروع کیا تھا کہ نامعلوم (معلوم) قوت نے غلام حیدر وائیں کو راستے سے ہٹادیا۔ اب ان محصورین کو پاکستانی ہی تسلیم نہیں کیا جاتا… کیوں… یہ پوچھنے کے لیے اسمبلیوں میں کوئی نہیں۔ حکمرانوں میں کوئی نہیں۔ ان محصورین کی تیسری نسل اب جوان ہورہی ہے، وہ اپنے سینے گھروں دروازوں سے پاکستانی پرچم نہیں اتارتے، خدا کی قسم اس کے عوض انہیں مرلے بیگھے یا میڈلز نہیں ملے۔ کوئی ستارئہ جرأت نہیں ملا لیکن وہ مستقل مزاجی سے پاکستانی پرچم تھامے ہوئے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ان کی زندگی غیر انسانی ہے۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ انہیں اس حال کو پہنچانے والوں اور اب اس حال میں رکھنے والوں کی زندگی غیر انسانی ہے۔ حیوانوں کا سا رویہ ہے ان کا۔ جو رویہ حکمرانوں اور طاقتور سیاستدانوں کا ہے اس کی روشنی میں بلکہ اس کے اندھیروں سے تو لگتا ہے کہ خاکم بدہن یہ لوگ اس ایجنڈے پر کارفرما ہیں کہ کوئی یہ کہہ رہا ہو کہ ایک تھا پاکستان… اس سے پہلے ان کو ناکام بنانا ہوگا ان کا نشان مٹانا ہوگا۔