ڈرائنگ روم ماہرین معیشت

669

 

ڈرائنگ روم ماہرین معیشت کے بارے میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے مشیر خزانہ شوکت ترین نے فرمایا ہے کہ قرض لیں اور شرائط نہ مانیں تو کون قرض دے گا۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھے ماہرین معیشت کو کیا معلوم وہ کچھ نہیں جانتے۔ انہوں نے اپنے ہی گورنر چودھری سرور پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ماہر معیشت نہیں۔ آئی ایم ایف کی مہر لگنے کے بعد ہی دوسرے قرضہ دیتے ہیں۔ ہم برآمدات بڑھانا اور درآمد گھٹانا چاہتے ہیں۔ سب سے اہم بات شوکت ترین صاحب نے جو بتائی ہے وہ یہ ہے کہ معیشت ترقی کررہی ہے۔ انہوں نے اعداد و شمار کے حساب سے بتایا کہ معیشت 5 فی صد کی شرح سے ترقی کررہی ہے۔ مزید خوش خبری یہ دی کہ چار ماہ میں مہنگائی کم ہوجائے گی۔ روپیہ مستحکم ہوجائے گا، تیل اور سریا سستا ہوجائے گا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ڈرائنگ روم میں بیٹھے ماہرین معاشیات اور آئی ایم ایف کے ملازم ماہرین معاشیات کے درمیان کوئی لڑائی جاری ہے جو ایک دوسرے پر الزامات لگارہے ہیں اور ملک کا بیڑا غرق ہورہا ہے۔ مشیر خزانہ اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ جب ایک ماہر معیشت کو مشیر یا وزیر خزانہ بنادیا جاتا ہے تو باقی لوگ ڈرائنگ روم میں بیٹھ جاتے ہیں اور اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ انہوں نے خود بھی بہت عرصے تک ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کیا تھا۔ آج کل ان کی باری ہے تو دوسرے ماہرین جو آئی ایم ایف ہی کے پیرول پر ہیں ان پر تنقید کررہے ہیں تا کہ اپنی باری کا راستہ ہموار کرسکیں۔
شوکت ترین صاحب نے اطلاع دی ہے کہ چار ماہ بعد مہنگائی کم ہوجائے گی۔ انہیں بھی معلوم ہے اور ڈرائنگ روم ماہرین معیشت کو بھی معلوم ہے کہ دنیا بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں گزشتہ تین ماہ کی کم ترین سطح پر آچکی ہیں۔ اس کے اثرات دو تین ماہ میں پاکستان آئیں گے۔ تین ماہ بعد ایک ماہ تک حکومت مزے کرکے مارچ کے شروع یا وسط میں پٹرول کی قیمتیں کم کردے گی جس کے نتیجے میں مہنگائی میں معمولی کمی آئے گی۔ ٹماٹر، پیاز، آلو اور سبزی کی قیمتوں میں کمی کو مہنگائی میں کمی قرار دیا جائے گا۔ اور حکومت خوب ڈھول پیٹے گی۔ 108 روپے والا ڈالر 170 سے 165 پر لا کر مزید بھنگڑا ڈالا جائے گا کہ روپیہ مستحکم ہوگیا ہے۔ ڈرائنگ روم ماہرین معیشت بھی یہی کرتے تھے اور شوروم ماہرین معیشت بھی یہی کررہے ہیں۔ مشیر خزانہ کہیں یہ یقین دہانی بھی کرادیں کہ بجلی کی قیمت بھی کم ہوگی۔ اور پٹرول پاکستان میں اس تناسب سے سستا ہوگا جس تناسب سے عالمی مارکیٹ میں ہوا ہے۔ وہ یہ بھی بتادیں کہ سیمنٹ، سریا جن کے سستا ہونے کی نوید سنا رہے ہیں کیا وہ پہلے سے کم قیمت پر ملے گا۔ اسے سستا ہونا کہا جاتا ہے۔ سو روپے کی چیز دو سو روپے تک پہنچا کر 150 روپے کردینے کو سستا نہیں کہتے، اسے لوٹ مار کہتے ہیں۔ شوکت ترین صاحب بھی ڈرائنگ روم ہی میں بیٹھے ہیں، ذرا سڑک پر نکل کر خود دیکھیں غریب آدمی کون سا چاول خرید رہا ہے اور کون سا آٹا کھا رہا ہے۔ اسے گوشت میسر ہے یا نہیں، سبزی کیسے مل رہی ہے، آلو پیاز کے بھائو کیا ہیں، ابھی انصاف، عدالتوں، سرکاری دفاتر، تھانے اور بلدیاتی سہولتوں کا ذکر ہی نہیں کیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن میں بیٹھے ڈرائنگ روم ماہرین معاشیات ذرا 15 یا 20 ہزار میں چار بچوں کے خاندان کا ماہانہ نظام تو بتادیں۔ یہ باہر سے بنے بنائے آنے والے بجٹ پر گھنٹوں تقریر کرکے اسے بہترین قرار دے سکتے ہیں۔ لیکن ایک دن بھی عام پاکستانی کے معیار کے مطابق زندہ نہیں رہ سکتے۔ سارا مسئلہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور بھیک مانگنے کا ہے۔
شوکت ترین صاحب نے یہ جو فرمایا ہے کہ اگر شرائط نہیں مانیں گے تو قرضہ دے گا کون… تو بھائی آپ کو کس نے کہا ہے کہ قرضہ لینے جائیں، آپ قرض لیتے ہیں اور پٹرول، بجلی، گیس کے نرخ بڑھا دیتے ہیں۔ پنشن، سبسڈی وغیرہ روکنا شروع کردیتے ہیں۔ ملکی ٹیکسوں کی بھرمار کردیتے ہیں، تو پھر یہ رقم کہاں جاتی ہے۔ یقینا یہ رقم آئی ایم ایف کا قرضہ اتارنے کے لیے استعمال ہوتی ہے تو قرضہ لینے کے بجائے عوام کو اعتماد دیں اور ان کو آمادہ کریں کہ ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے ٹیکس اور دیگر قربانیں دیں۔ لیکن ساتھ ہی پیداوار بڑھائیں، برآمدات پر زور دیں۔ ڈرائنگ روم وزیر خزانہ بتا سکتے ہیں کہ پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود یہاں گندم، شکر، سبزی، ٹماٹر کی قلت کیوں ہوتی ہے۔ زراعت کو ملک کی قوت کیوں نہیں بنایا جاسکا۔ اب تو کپاس بھی درآمد کرنا پڑتی ہے، بہت سے ممالک قرض لیتے ہیں لیکن اس طرح منصوبہ بندی کرتے ہیں کہ قرض کی رقم سے ایسا کام کیا جائے جو اس رقم کی واپسی کا سبب بھی بنے اور ملکی معیشت میں اپنا حصہ بھی ڈالے۔ لیکن نامعلوم وجوہ اس کام میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی ڈرائنگ روم ماہر معیشت اپنے دور میں بجلی کے لیے قرض لے بجلی پیدا کرے اور عوام کو سستی بجلی فروخت کرے، بجلی گھر کی آمدنی سے قرض کی قسطیں اتارے اور اس کے بعد بجلی گھر آپ کا… ایسے معاہدے پہلے بھی ہوتے تھے اب بھی کیے جاسکتے ہیں۔ کیا پاکستان صرف رقم وصول کرکے ترقی کی شاہراہ پر دوڑ سکتا ہے۔ یہ ڈرائنگ روم ماہرین معیشت ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہیں اور وقت آنے پر خود شوروم ماہر معیشت بن کر وزارت کی کرسی پر براجمان ہوجاتے ہیں۔ شوکت ترین صاحب کا بیان کہ قرض لیں اور شرائط پوری نہ کریں تو قرض کون دے گا۔ اس قدر توہین آمیز اور معیار سے گرا ہوا ہے گویا سڑک پر کھڑے مزدور سے بھی زیادہ گھٹیا زبان ہے۔ کسی مزدور سے بھی آپ اپنی مرضی کی رقم دے کر دس شرائط کے ساتھ مزدوری کرائیں تو وہ کہہ دیتا ہے کہ یہ رکھی تیری رقم یہ گیا میں… بابو عزت کی روٹی کھاتے ہیں، یہاں تک کہ فقیر بھی آج دو روپے چار روپے لیتے وقت کڑوا سا منہ بناتے ہیں، چھوٹے ملازم بیچارے کبھی کبھی کہہ دیتے ہیں کہ نوکر کی… تے نخرا کی… یہ قوم کو کیا سمجھتے ہیں انہیں یہ بات کہتے ہوئے ذرا بھی شرمساری نہیں ہوئی۔ وہ اسے معیشت کہتے ہیں جا کر آئی ایم ایف سے جی سر۔ جی سر۔ جی سر کہہ کر قرض لے آئیں اور قوم کو مقروض کرتے چلے جائیں۔ آئی ایم ایف کی مہر لگے گی تو دوسرے قرض دیں گے۔ یعنی مستند بھکاری بنوارہے ہیں بلکہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ جو ڈرائنگ روم ماہرین معاشیات ہیں انہیں کسی ڈارک روم میں لے جا کر بند کردینا چاہیے تا کہ عوام کے لیے روشن مستقبل کے امکانات پیدا ہوسکیں۔