کالا بلدیاتی ترمیمی ایکٹ

632

سندھ حکومت نے 26نومبر کو سندھ اسمبلی میں بلدیاتی نظام سے متعلق ترمیمی بل 2021 کو کثرت رائے سے منظور کر کے سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں ایک طوفان برپا کر دیا ہے۔ سندھ بھر کی تمام ہی سیاسی ومذہبی جماعتیں اس کالے قانون کے خلاف سراپا احتجاج بنی ہوئی ہیں اور پورے سندھ میں احتجاج جاری ہے۔ سندھ حکومت نے جس شرمناک طریقے سے یہ بل اسمبلی سے پاس کرایا ہے اس سے ان کی جمہوریت پسندی کی قلعی اُتر گئی ہے۔ یہ بل کراچی کے وسائل پر قبضہ کرنے اور کراچی کو مفلوج کرنے کی گھنائونی سازش ہے اور آئین کے آرٹیکل 32اور آرٹیکل A.140 کی بھی خلاف ورزی ہے جس میں بڑے واضح طور پر کہا گیا ہے کہ انتظامی مالیاتی اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنا چاہیے۔ لیکن پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے تمام اختیارات بالائی طبقے کو منتقل کر کے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ 18ترمیم کے ذریعے پیپلز پارٹی نے کراچی میں وفاق کے تحت چلنے والے اداروں کو تو اپنے قبضے میں کرلیا تھا لیکن جو ادارے لوکل گورنمنٹ کو منتقل ہونے تھے وہ انہیں واپس نہیں کیے اور وڈیرہ ازم قائم کر کے آمرانہ ذہنیت کی عکاسی کی گئی ہے اور اس سے اس بات کا بھی اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے قبل ہی دھاندلی کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
سندھ لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2021 کے ذریعے بلدیاتی نظام کے اختیارات کم ہوجائیں گے اور کراچی شہر میں بلدیہ کے تحت چلنے والے ادارے سوبھراج اسپتال، عباسی شہید اسپتال، سرفراز رفیقی اسپتال، لیپروسی سینٹر، میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کا انتظام صوبائی حکومت کے زیر انتظام ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ پیدائش، اموات کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے اور انفیکشنز ڈیزیز سمیت تعلیم اور صحت کے شعبوں پر لوکل گورنمنٹ کا اختیار ختم کر کے ان سب کو صوبائی حکومتوں کے زیرانتظام دے دیا جائے گا۔ بلدیاتی ترمیمی بل کے مطابق صوبائی دارالحکومت کراچی سمیت صوبے کے تمام بڑے شہروں حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، میرپورخاص، شہید بے نظیر آباد میں کارپوریشن لائی جا رہی ہیں اور ان شہروں میں تحصیل کے بجائے ٹائون سسٹم اور یونین کونسل کی جگہ یونین کمیٹیاں ہوں گی۔ ترمیمی بل کے مطابق 50لاکھ آبادی والے شہر میں میٹرو پولیٹن کارپوریشن قائم کی جائے گی۔ شہری اداروں کے تمام وسائل صوبائی حکومت کی جانب سے قبضہ لے لینے کے بعد میٹرو پولیٹن کارپوریشن کو جو اختیارات اور وسائل کے ادارے دیے گئے ہیں ان میں صرف خراب ڈرینیج نظام، سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ اور سیوریج فارمس کی منصوبہ بندی، ترقی اور مرمت، جانوروں کی ذبح والی کالونیوں کی منصوبہ بندی اور مرمت، ویکٹر کنٹرول کی منصوبہ بندی اور نظر داری، فوڈ لیبارٹیز کی منصوبہ بندی، ترقی اور مرمت، ہوا اور پانی کی منصوبہ بندی ترقی اور مرمت۔ اس کے علاوہ مذکورہ آرڈیننس کے شیڈول پانچ میں ٹیکسز، ریٹس اور فیس جو کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن، میونسپلٹی اور ڈسٹرکٹ کونسلوں کی طرف سے لگائے جائیں گے ان میں موٹر گاڑیوں اور کشتیوں پر ٹیکس، ڈرینج ٹیکس شامل ہے۔
سندھ لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2021 ایک کالا قانون ہے جو جاگیردارانہ ذہنیت کی کھلی عکاسی کرتا ہے اور یہ بل آئین کے آرٹیکل 7,8,32 اور A140 کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ سندھ کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس کالے قانون کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ جماعت اسلامی نے اول روز سے اس کالے قانون کے خلاف آواز بلند کی اور شہر بھر میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے دیے گئے اس کے علاوہ 12دسمبر بروز اتوار کو مزار قائد تا کے ایم سی بلڈنگ احتجاجی مارچ منعقد ہوگا۔ ایم کیو ایم، پی ایس پی، ایم کیو ایم حقیقی بھی اس مسئلے میں ایک پیج پر جمع ہورہی ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ گورنر سندھ اس کالے قانون پر دستخط نہیں کریں گے اور سندھ کے شہری علاقوں کو وڈیروں جاگیرداروں کی لوٹ مار سے بچائیں گے۔
پیپلز پارٹی گزشتہ کئی دہائیوں سے صوبے سندھ کے سیاہ وسفید کی مکمل طور پر مالک بنی ہوئی ہے ان کے دور میں ان کے اپنے علاقے اور شہر لاڑکانہ، نواب شاہ، سکھر، حیدرآباد تباہی وبربادی کا شکار ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ شہر بھی کراچی کی طرح ترقی کرتے اور یہاں کے لوگوں کو بنیادی سہولتیں مہیا کی جاتیں لیکن پیپلز پارٹی کی وڈیرہ اور جاگیر دارانہ ذہنیت بجائے اس کے کہ وہ ان تباہ حال شہروں کی حالت زار کو درست کرتی اور وہاں تعمیر وترقی کے منصوبے کاغذات کے بجائے عملی طور پر بنائے جاتے لیکن یہ ظالم لوگ کراچی کو بھی لاڑکانہ، نواب شاہ، سکھر، حیدرآباد جیسا تباہ حال بنانا چاہتے ہیں۔ سندھ حکومت نے گزشتہ دنوں سندھ کے پانچ ہزار سے زائد سرکاری اسکول بند کرنے کے احکامات صادر کرکے اندرون سندھ کے لاکھوں طالب علموں پر تعلیم کے دروازے بند کر دیے ہیں اور صوبے میں جہالت کا اضافہ کیا جارہا ہے۔ گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے محنت
کشوں کی کم از کم اجرت 25ہزار روپے مقرر کرنے کا اعلان کیا جو مثبت اقدام تھا لیکن سندھ کی نااہل حکومت نے ویج بورڈکی منظوری اور انہیں پیش کیے بغیر اسمبلی سے یہ بل پاس کیا لیکن سرمایہ داروں اور آجروں کی تنظیم کی جانب سے چیلنج کیے جانے پر عدالت نے اسے ویج بورڈ سے منظور کرانے کا حکم دیا ہے۔ اگر سندھ حکومت کو محنت کشوں سے ذرا بھی ہمدردی ہوتی تو وہ اسے ویج بورڈ سے پاس کراتے لیکن جان بوجھ کر اس کو اٹکایا گیا اور یہی وجہ ہے کہ اب تک فیکٹری اور کارخانوں میں محنت کشوں کو کم از کم اجرت ادا نہیں کی جارہی ہے جو غریب محنت کشوں کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔
پیپلز پارٹی کا کراچی کے تمام وسائل پر قبضہ کرنے کا خواب بہت پرانا ہے۔ انہوں نے پہلے کراچی سولڈ ویسٹ پر قبضہ کیا، کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بنایا جس کی وجہ سے ان اداروں میں کرپشن بڑھی۔ کراچی کے جعلی ڈومیسائل پر جعلی بھرتیاں کر کے کراچی کے نوجوانوں کا حق مارا گیا اور کراچی کا پڑھا لکھا نوجوان آج شہر کراچی میں چنگ چی رکشہ چلانے پر مجبور ہے ان پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور تحریک انصاف تینوں حکمراں جماعتیں اپنی موج مستیوں میں مگن ہیں۔ سندھ کے غریب دیہاتیوں کو اجرک ٹوپی کے چکر میں لگا دیا گیا ہے اور وہ بے چارے بھوکے پیٹ سڑکوں پر دھمال مارتے پھر رہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ سندھ کے اصل حاکم وڈیرہ شاہی جاگیر دار سب لڑائو اور حکومت کرو کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ جماعت اسلامی سندھ کے امیر محمد حسین محنتی سندھ بھر میں اور کراچی کے جرأت مند بہادر سپوت حافظ نعیم الرحمن اپنی ولولہ انگیز قیادت کے ذریعے سندھ اور کراچی کا مقدمہ دلیری کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ ان شاء اللہ عوامی طاقت اور قوت کے ذریعے یہ کالا قانون سندھ حکومت واپس لینے پر مجبور ہوجائے گی۔ پیپلز پارٹی کے پاس بھی اب کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ اس کالے قانوں کو فوری طور پر واپس لے ورنہ نفرت کی سیاست کا یہ بیج ان کی گھنائونی سیاست کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردے گی۔