مجرم ہجوم

928

زندگی جو اتنی مختصر ہے سیالکوٹ جیسے واقعات اسے بہت لمبی بنادیتے ہیں جب ایک ایک لمحہ بوجھ بن جاتا ہے۔ زندگی دکھ سے بھر جاتی ہے۔ سانسیں شرم سے اٹکنے لگتی ہیں۔ ہم ایسے کب سے ہوگئے ہیں کہ بھیانک اور نہ ختم ہونے والی نفرتیں ہمارے سماج کا حصہ بن گئی ہیں۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے لیکن قدرت نے اس کا انتظام اس طرح کیا ہے جیسے ایک ایک پتی مرجھاتی ہے لیکن ایک مجرم ہجوم کے جنون اور وحشت کے ہاتھوں یوں زندگی کی پامالی۔ وحشی درندے بھی چیرنے پھاڑنے پر حد کرتے ہیں شکار کو زندہ نہیں جلاتے۔
اس طرح کے مناظر اور کردار ہمارے لیے اجنبی نہیں۔ ایسے واقعات سال دوسال میں ایک آدھ مرتبہ پیش نہیں آتے۔ ہیجان زدہ اور جنونی ہجوم اب ہماری زندگیوں کا حصہ ہیں۔ ناامیدی اور اندھیرے تنہا نہیں ہجوم کی صورت ہم پر حملہ آور ہیں۔ کراچی برس دوبرس نہیں کئی عشرے مجرم ہجوم کی تحویل میں رہا۔ لکڑیوں کی ٹالیں، رکشے، ٹیکسیاں، بسیں جلائی جاتی رہیں، بستیاں نذر آتش ہوتی رہیں۔ ایک ہجوم اپنے بھائی بندوں کے انتقام میں دوسرے ہجوم کے بھائی بندوں کو مارتا جلاتا رہا، کبھی صوبائی عصبیت کے نام پر کبھی لسانی عصبیت کے نام پر۔ بے رحمی اور شدید نفرت، گولیوں کی ٹھائیں ٹھائیں، بارود کی بو، مسخ شدہ لاشیں، بوری بند لاشیں، نہ ریاست اور اس کے اداروں اور ان کی رٹ کے لیے کسی پریشانی اور اذیت کا باعث تھیں اور نہ حکومتوں کے لیے کوئی چیلنج بلکہ ریاست، اس کے اداروں اور حکومتوں نے اس وحشی ہجوم کے ساتھ ایڈجسٹ ہوکر اپنے اقتدارکی طوالت کو یقینی بنایا۔
پر تشدد ہجوم میں موجود افراد کی سوچیں ایک دوسرے میں ضم ہوکر ایک مختلف فکر کو جنم دیتی ہیں۔ فرد ہپنا ٹائزڈ ہوکر اپنی فکر کی طاقت مجمع کے حوالے کردیتا ہے۔ یہ مختلف فکر اس معاشرے کی تہذیب وثقافت، مذہب اور رواداری کی عکاس نہیں ہوتی بلکہ گھٹن، زیادتیوں اور توہین زدہ زندگی کا اعتدال سے ہٹا ہوا ردعمل ہوتا ہے۔ انسان کا فطری رحجان انفرادی طور پر اپنے مکمل اظہار سے قاصر رہتا ہے لیکن ہجوم میں انسان وہ کام آزادی سے کرگزرتا ہے۔ انفرادی سطح پر انسان اپنے اندر کے وحشی جانور کو باندھے رکھتا ہے لیکن ایسے مجمع میں یہی درندہ قائدانہ کردار ادا کرتا نظر آتا ہے۔ فرد کے جذبات نہیں بلکہ ہجوم کا لیڈر افراد کی آواز بن جاتا ہے اور ہجوم اس لیڈر کے پیچھے شدت پسندی، غیرعقلی اور غیرانسانی رویوں، آمرانہ اور ظالمانہ کردار کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ قانون، انصاف، ریاست اور حکومت کی رٹ غرض ہر چیز کو ہجوم اپنے ہاتھ میں لے کر تشدد، جلانے مارنے اور لٹکانے کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔
ہجوم کی طاقت مثبت نتائج کو بھی جنم دے سکتی ہے اور منفی تبدیلیوں کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ دنیا میں رونما ہونے والے عظیم انقلاب ایسے ہی ہجوموں کی کوششوں کا نتیجہ تھے جب عوام کی طاقت یکجہتی کا باعث بنی۔ بد قسمتی سے بیسویں صدی میں صنعتی انقلاب کے بعد حکمران طبقے نے ہجوم کی نفسیات کو سمجھنے، اس سے کھیلنے اور اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کا گر سیکھ لیا۔ جس نے مغربی معاشرے میں اعتدال سے بڑھے ہوئے رحجانات اور رویوں کو فروغ دیا۔ ہر وہ برائی جو سرمایہ دارانہ نظام کے علمبرداروں کے فائدے میں تھی بڑی بڑی ریلیوں، جلسے، جلوسوں اور عوام کے ووٹوں کے ذریعے حاصل کرلی گئی لیکن یہی ہجوم جب عراق اور افغانستان پر حملوں کے خلاف لاکھوں کی تعداد میں لندن اور واشنگٹن کی سڑکوں پر احتجاج کرتا نظر آتا ہے تو اسے گھاس کی پتی کے برابر بھی وقعت نہیں دی جاتی۔
مغرب میں اٹھارویں صدی میں پرتشدد ہجوم کا جادو گر قرار دے کر حملے کرنے، انہیں جلانے، اور مذ ہبی عقائد کی بنا پر مشتعل گروہوں کا ایک دوسرے پر حملہ کرنے کا صدیوں سے جاری سلسلہ ختم ہوگیا۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں نسلی فسادات نے اس کی جگہ لے لی۔ برصغیر میں انگریزوں کی آمد سے پہلے شاید ہی کبھی مذ ہبی جذبات کی آڑ میں مشتعل ہجوم کے پرتشدد حملوں کا ذکر ملتا ہو۔ 1809 میں غالباً پہلی مرتبہ بنارس میں ہندئوں اور مسلمانوں کے پرتشدد گروہوں نے ایک دوسرے پر حملے کیے۔ پاکستان میں 1980میں فرقہ وارانہ تنائو کو جواز بناکر مشتعل ہجوموں کے پر تشدد واقعات میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 1980 کی دہائی ہی میں توہین سے متعلق قوانین کو مضبوط کیا گیا۔ لیکن اس قانون سازی کے باوجود توہین رسالت کے واقعات پر پُرہجوم ردعمل میں اضافہ ہوا۔ اس دور ہی میں ہجوم کی طاقت کو حکومت نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے کھل کر استعمال کرنا شروع کردیا۔ کراچی میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء پاکستان جیسی پرامن مذ ہبی اور قومی سیاسی جماعتوں کو کچلنے کے لیے ایم کیوایم کو میدان میں اُتا را گیا۔
نواز شریف کے پچھلے دور تک آتے آتے اس ملک کو چلانے والوں نے ایک چلتی ہوئی حکومت کو گھر بھیجنے اور اپنی من پسند جماعت کو اقتدار میں لانے کے لیے ہجوم کی طاقت کو، اسٹریٹ پاورکو بے دریغ استعمال کرنا شروع کردیا۔ ایک طرف عمران خان کے دھرنے کو 126دن تک چلنے دیا گیا تو دوسری طرف نوازحکومت کی دانستہ اور نادانستہ غلطیوں کو ایک عظیم کائناتی تقدس کے معاملے سے جوڑتے ہوئے تحریک لبیک کو گرین سگنل دیا گیا۔ اس کے دھرنوں کی نہ صرف کھل کر پزیرائی کی بلکہ قانونی طور پر بھی چھوٹ فراہم کی گئی۔ مخالفین کی ایسی تیسی کرنے کی یہ وہ عظیم حکمت عملی تھی جس کے نتیجے میں ہجوموں نے نہایت شدت سے اظہار کرنا شروع کردیا۔ کئی دن پہلے چارسدہ میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا جس میں ہجوم نے جلائو گھیرائو کیا تھانوں اور ریاستی املاک پر حملہ کیا۔ ہجوم کی طاقت کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے کرتے ریاستی طاقت اب خود پسپائی پر مجبور ہورہی ہے۔ عمران حکومت کی عوام دشمن پا لیسیوں کی وجہ سے عوام میں اس قدر غصہ اور نفرت بھر چکا ہے کہ کوئی دن جاتا ہے جب عوام ایسے ہی ہجوموں کی شکل میں ان لو گوں کی گردنیں کاٹنے اور انہیں جلانے مارنے کے لیے ڈھونڈتے پھررہے ہوں گے جنہوں نے اس ملک کو تماشا اور عوام کی زندگیوں کو جہنم بنا کررکھ دیا ہے۔
سری لنکن شہری کے قتل کے ذمے دار مجرم ہجوم کے علاوہ عمران حکومت اور اس نظام کو چلانے والے بھی ہیں جو اسلام سے مخلص ہیں اور نہ ناموس رسالت کے لیے بنائے گئے قوانین کے نفاذ سے۔ لوگ چوروں، ڈاکوئوں اور دیگر جرائم میں ملوث مجرموں کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیتے ہیں لیکن اگر توہین رسالت کے معاملے میں از خود فیصلے کرتے ہیں تو وہ بھی مجرم ہیں اور یہ حکمران بھی جنہیں لوگوں کے مذ ہبی جذبات کی ذرہ بھر پروا نہیں ہے۔ یہ حکمران چاہے سول ہوں یا فوجی اس ملک میں اسلام نافذ کرنے پر تیار نہیں۔ سیکو لرازم کے علمبرداروں کے پرتشدد واقعات کو کبھی سیکولر ازم پر لعن طعن کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا لیکن سیالکوٹ جیسے واقعات کو جن کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں اسلام کو بدنام کرنے کے لیے بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات اسلام کے خلاف بڑی سازشوں میں سے ایک سازش ہیں۔ اس ملک میں معیشت سود پر استوار ہے، سرمایہ دارانہ مغربی نظام طرز حکومت ہے، شریعت کے نفاذ کا دور دور تک پتا نہیں، اسلام اس دھرتی کا نظام نہیں لیکن لوگوں کو الجھا کر رکھ دیا گیا ہے۔ انہیں اصل معاملات کی طرف آنے ہی نہیں دیا جارہا ہے۔ توہین مذہب ایک بہت حساس معاملہ ہے جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن اس مسئلے کا حل اس مغربی سودی سرمایہ دارانہ نظام میں نہیں ہے۔ اس مسئلے کا حل صرف اسلامی نظام حکومت میں ہے جس میں اسلامی عقائداور ایمان کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ ریاست کے شہریوں کے جان ومال کی حفاظت کا یقینی بندوبست کیا گیا ہے اورکسی کافر کو بھی جسے دارالسلام میں پناہ دی گئی ہو قتل کرنے والے کو جنت کی خوشبو سے بھی محروم قرار دیا گیا ہے۔