خواتین کو ترقی کے بہت کم مواقع میسر ہیں،اداروں میں صنفی مسائل کا سامنا ہے

706

(رپورٹ/ قاضی سراج) خواتین کو ترقی کے بہت کم مواقع میسر ہیں‘ اداروں میں صنفی مسائل کا سامنا ہے‘ ملازمت پیشہ خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے‘ واش رومز، نماز اور کھانے کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے‘ زچگی کی چھٹیاں دینے کے بجائے نوکری سے نکال دیا جاتا ہے‘ اوورٹائم کا معاوضہ نہیں دیا جاتا‘ حکومت لیبر قوانین پر عملدرآمد کرائے۔ان خیالات کا اظہار نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان سے ملحقہ اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کارپوریشن لیبر یونیٹی کی ایسوسی ایٹ جنرل سیکرٹری اور ویمن ورکرز الائنس کی رکن زاہدہ پروین، ہوم بیسڈ ورکرز یونین اور ویمن ورکرز ایسوسی ایشن کراچی کی چیئرپرسن شہلا رضوان،انجمن فلاح و بہبود برائے خواتین کی چیئرپرسن بابرہ اسماعیل،دوا ساز ادارے سنوفی پاکستان کی اے بی سی یونین کی خزانچی مسرت تیموری، ہوم بیسڈ لیبر یونین حیدرآباد کی جنرل سیکرٹری عرفانہ جبار، سماجی کارکن زاہدہ فاروقی اور سماجی کارکن ڈاکٹر حمیرا خان نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل اور ان کا حل کیا ہے؟‘‘ زاہدہ پروین نے کہا کہ خواتین کے لییکام کی جگہ پر الگ واش رومز نہیں ہوتے‘ نماز اور کھانے کے لیے الگ کمرہ مہیا نہیں ہوتا‘ خواتین کو ترقی کے مواقع مردوں کے مقابلے میںبہت کم میسر آتے ہیں‘ یونینز کی سرگرمیوں میں مواقع فراہم نہیں کیے جاتے‘ صرف ووٹ لینے کی حد تک خواتین کو یونین ممبر بنایا جاتا ہے‘ کوئی خاتون مردوں کے مقابلے میں اگر کام کے معاملے میں زیادہ قابل ہو تو اس کو مختلف طریقوں سے ذہنی اذیتیں دی جاتی ہیں‘ زچگی کی چھٹیاں دینے کے بجائے پرائیویٹ اداروں میں ان کو نوکری سے ہی نکال دیا جاتا ہے‘ بیشتر نجی ملازمتوں میں خواتین سے زاید وقت کام تو لیا جاتا ہے مگر اوور ٹائم کا معاوضہ نہیں دیا جاتا‘ اگر دیا جاتا ہے تو اس میں کٹوتی کی جاتی ہے‘ یونینز میں خواتین لیڈر شپ کو فروغ نہیں دیا جاتا بلکہ حوصلہ شکنی کی جاتی ہے‘ ان تمام مسائل کے حل میں ان خواتین کی ہمت اور جدوجہد کا بڑا ہاتھ ہے جو مسائل کے حل کے لیے حکومتی سطح پر آواز بلند کر رہیہیں۔ انہوں نے کہا کہ لیبر قوانین عملدرآمد نہیں ہوتا‘ اس پر حکومت کو ہی کام کرنا ہے تاکہ خواتین کے روزگار کو باوقار بنایا جاسکے اور کافی مسائل تو یونینز کے حل طلب ہیں جس کے لیے یونینز خود احساس کریں اور خواتین کے مسائل کو اہمیت دیں اور چارٹر آف ڈیمانڈ کے ذریعے ان کو حل کراسکتی ہیں۔ شہلا رضوان نے کہا کہ خواتین زندگی کے ہر شعبے میں اپنی خدمت انجام دے رہی ہیں‘ وہ گھروں، دفتروں، فیکٹریوں، کھیتوں اور بھٹوں پر کام کر رہی ہیں‘ مختلف کام ہونے کے ساتھ ان کے مسائل ایک جیسے بھی ہیں اور مختلف بھی۔ ملازمت پیشہ خواتین کو گھر، بس اسٹاپ اور اداروں میں بری نظر سے دیکھا جاتا اور ان کی عزت نفس کو بری طرح مجروح کیا جاتا ہے‘ ان کی کردار کشی کی جاتی ہے‘ ان کو موت کے منہ میں ڈال دیا جاتا ہے‘ بچوں کے لیے ڈے کیئر سینٹر نہیں‘ کسی فیکٹری آفس میں خواتین اپنے چھوٹے بچوں کو ساتھ نہیں لاسکتیں‘ کوئی جگہ بچوں کے رکھنے کی نہیں ہے‘ مرد اور خواتین کے باتھ روم ایک ہی جگہ پر ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ یہ تمام مسائل کی نشاندہی ’’آئی ایل او‘‘ کرچکا ہے‘ قانوناً خواتین اس کی حق دار ہیں‘ ان کو یہ تمام سہولتیں ملنی چاہئیں۔ گھروں میں کام کرنے والی ورکرز کی کوئی چھٹی نہیں ہوتی ان کو بھی جنسی استحصال کا سامنا پڑتا ہے‘ بول نہیں سکتیں‘ قانون کا پتا نہیں‘ لیڈی ہیلتھ ورکرز گھر گھر جا کر صحت کی سہولتیں پہنچاتی ہیں‘ ان کو بھی صنفی جنسی استحصال کا سامنا ہے‘ ان کو بھی مار دیا جاتا ہے‘ خواتین کی مختلف تنظیمیں کام کر رہی ہیں‘ ان کا بھی ذرہ برابر اثر نہیں ہے‘ ملازم پیشہ خواتین کو خود اپنے حقوق کی جدوجہد کرنی ہوگی‘ خواتین کے لیے مناسب ٹرانسپورٹ موجود نہیں ہے‘ ان کو دفاتر اور فیکٹریوں میں جانے کے لیے دشواری ہوتی ہے‘ خاتون اور مرد کی اجرت برابر نہیں ہے‘ ان میں صنفی تفریق کی بنا پر مزدور سے آدھی اجرت ملتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تم مرد کے برابر نہیں ہو‘ خواتین کی شادی کے بعد بچوں کی پیدائش پر چھٹیوں اور میڈیکل کے حوالے سے بہت پریشانی اٹھانی پڑتی ہے جس کی وجہ سے یہ خواتین اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں‘ اداروں میں غیر شادی شدہ خواتین کو رکھا جاتا ہے۔ بابرہ اسماعیل نے کہا کہ ملازمت پیشہ خواتین کو گھریلو اور دفتری ذمے داریوں میں توازن رکھنا چاہیے تاکہ مزید کوئی مسائل پیدا نہ ہوسکیں‘ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کا انحصار ملازمت پیشہ خواتین پر ہے‘ حکومت کی ذمے داری ہے کہ خواتین کو سرکاری و نجی شعبے اور گھریلو دستکاری کے حوالے سے مختلف مواقع فراہم کرے‘ فیکٹریوں اور دفاتر میں خواتین کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں‘ فیکٹریوں میں ٹھیکے داری کا نظام ختم کیا جائے۔ مسرت تیموری نے کہا کہ کام کرنے والی خواتین اور ان کے حقوق کے حوالے سے قوانین میں اب بھی بہت خامیاں ہیںجنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے‘ خواتین کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے کہ ہراساں کرنا، زیادہ کام کرنا۔ تحفظ کی کمی اور ٹرپل شفٹ کا بوجھ بھی شامل ہے‘ یہ تمام مسائل مل کر ان کی زندگی کو مزید مصروف اور مایوس کن بنا دیتے ہیں‘ ہمارے معاشرے میں فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا جس کی وجہ سے پڑھی لکھی خواتین فیکٹریوں میں کام کرنے سے گریز کرتی ہیں‘خواتین میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے مختلف پروگرام ترتیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ذہنی طور پر یونین کا حصہ بننے کے لیے تیار ہوں۔ زاہدہ فاروقی نے کہا کہ آفس سربراہ اگر گندی نظر اور گندی سوچ کا مالک ہے تو نوکری کرنا محال ہوجاتا ہے‘ آفس کے اندر اگر گندی اور گھٹیا سوچ رکھنے والا عملہ موجود ہے تو مختلف بہانوں سے ہراساں کیا جاتا ہے‘ دیگر مسائل میں کنوینس، اوقات کار، ٹریفک اور گھریلو مسائل شامل ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ سب سے پہلے عورت کی عزت کرنا چاہیے، جس طرح نبی کریمؐ نے عورت کو عزت بخشی، یہ سبق ہمیں 14سو سال پہلے دیا گیا ہے۔ قرآن شریف کو ترجمے کے ساتھ پڑھیں اور اس پر عمل کریں‘ سارے مسائل کے حل اس میں واضح طور پر بتائے گئے ہیں۔ عرفانہ جبار نے کہا کہ ملازمت پیشہ خواتین میں علم کی کمی ہے جس کی وجہ سے انہیں اپنے حقوق کا علم نہیں ہوتا‘ خواتین منظم نہیں اور نہ ہی یونین سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں‘ ورکنگ ویمن کے بچے تعلیم و تربیت سے محروم رہتے ہیں‘ ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل حل کرنے کی ذمے داری ریاست، محکمہ محنت اور مالکان پر عاید ہوتی ہے جو اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتے۔ ڈاکٹر حمیرا خان نے کہا کہ ملازمت پیشہ خواتین زیادہ محنت اور کم آمدنی کی وجہ سے اپنی صحت خراب کر بیٹھی ہیں‘ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو کم آمدنی پر کام کرنا پڑتا ہے‘مردوں کی بلیک میلنگ کا شکار بھی ہوجاتی ہیں‘ دوپہر کو کھانا منگوانے کے مسائل ہوتے ہیں‘چھٹی پر تنخواہ میں کٹوتی ہوتی ہے۔