چودھری فواد کی دانشمندی اور اساتذہ کی دل شکنی

754

گزشتہ دنوں ہمارے وزیر اطلاعات فواد چودھری نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈی کے زیر انتظام تقریب سے اپنے خطاب میں ارشاد فرمایا کہ پاکستان صوفیوں کی سرزمین اور دررگاہوں کا مسکن تھا، یہاں ایک دوسرے کو مان کر چلنے والے لوگ تھے لیکن ماضی میں اسکولوں اور کالجوں میں ایسے اساتذہ بھرتی ہوگئے جنہوں نے انتہا پسندی کو فروغ دیا۔ تین سو سال پہلے کا پنجاب اور خیبر پختون خوا دیکھیں تو یہاں مذہبی انتہا پسندی تھی ہی نہیں، کچھ سیاسی وجوہ کی بناء پر یہاں ایسا عنصر تشکیل پایا جس کے نتیجے میں پاکستان اس بڑے خطرے سے دوچار ہے انہوں نے مزید کہا کہ ریاست کی رٹ قائم کیے بغیر انتہا پسندی سے چھٹکارا ممکن نہیں، قانون کی عمل داری یقینی بنانا ریاست کی ذمے داری ہے ساتھ ہی انہوں نے ارشاد کیا کہ لبیک کے معاملے میں ریاست کو پیچھے ہٹنا پڑا ریاست کا کنٹرول ختم ہو تو جتھے قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور جو ریاست قانون کی عمل داری نہ کرواسکے اس کی بقاء پر بہت جلد سوالات اٹھنے لگتے ہیں، انہوں نے مزید کہا شدت پسندی ہمارا اس وقت دوسرا بڑا مسئلہ ہے اور ہم نے شدت پسندی سے دنیا کو تباہ ہوتے دیکھا ہے۔
چودھری صاحب نے اپنے خطاب میں بہت سے اہم نکات اٹھائے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے یا تو وہ مغرب سے بہت زیادہ متاثر ہیں یا ان کی سوچ بڑی سطحی ہے انہیں یہ بات اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ اساتذہ کا تو کام ہی یہ ہے کہ اپنے شاگردوں کی بہترین خطوط پر تعلیم و تربیت کریں، اپنے طالب علموںکو اچھے اور برے کی تمیز سکھائیں، حق و سچ کی تعلیم دیں، نیکی اور بدی کو پرکھنا سکھائیں، مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے قابل بنائیں۔ اساتذہ جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی سے اپنے طالب علموں کو روشناس کراتے ہیں وہیں وہ طلبہ کو معیشت، معاشرت، تاریخ، جغرافیہ، اخلاقیات، اور مذہب کی تعلیم بھی دیتے ہیں طالب علموں کی فکری رہنمائی کے ساتھ شہری حقوق سے آگاہی کے لیے سیاسیات، سماجیات اور قانون کی تعلیم سے بھی نوازتے ہیں لیکن کیا آج تک کسی استاد نے اپنے شاگردوں کو قاتل، ڈاکو اور مجرم بنایا ہے جو اس طرح اساتذہ کے کردار کو متنازع بنانے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ چودھری صاحب یہ بھول گئے کہ انہیں بھی اساتذہ نے زیور علم سے مالا مال کیا ہے، اساتذہ نے تو کسب علم میں ان کی معاونت کر دی لیکن اب جو چودھری صاحب کا بھول پن ہے یا ان کی اپنی شخصیت کا اضطراب کیوں کہ وہ اکثر معاملہ کی گہرائی کو سمجھے بناء بیان دینا اپنا فرض جانتے ہیں تو اس کو کیا سمجھا اور جانا جائے جب چودھری صاحب کے اساتذہ انہیں شدت پسند نہیں بناسکے تو یہ کیسے فرض کر لیا جائے کہ اساتذہ طلبہ میں شدت پسندی اور انتہا پسندی کے جذبات کو فروغ دیتے ہیںبھلا حق و سچ کی تعلیم دینا نیکی اور بدی کا فرق سکھانا اور اللہ اور اس کے رسول ؐ کی اطاعت کا سبق دینا کیسے شدت پسندی ہو سکتا ہے۔
ہمارے ارباب اختیار اور اقتدار کو دہشت گردی اور شدت پسندی کی حقیقی تعریف سمجھنے کی ضرورت ہے، ایک طویل عرصے سے اسلام سے گہری وابستگی رکھنے والے اہل ایمان کو دین اسلام کی تعلیمات اور فلسفہ سے نا بلد افراد شدت پسند اور انتہا پسند قرار دینے سے نہیں چوکتے، فکر کی بات یہ ہے کہ آخر دین اسلام کی محبت سے سر شار افراد کے خلوص اور ایثار کو فخر کی نظر سے کیوں نہیں دیکھا جاتا! یہ اہل ایمان ہی تو تھے جنہوں نے ہر قسم کی متشددانہ انداز اختیار کرنے والوں کے ہر ظلم و ستم کا صبر کے ساتھ سامنا کیا اور کبھی ظلم کا جواب ظلم سے نہ دیا اور ایثار و قربانی کی وہ عظیم مثالیں قائم کیں جو تاریخ کا انمٹ حصہ ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات عام کرنے والوں کا فتح مکہ کے موقعے کا کردار دنیا کیوں فراموش کر دیتی ہے اسلام مخالف تمام قوتوں کے تمام تر ظلم و ستم سہنے کے باوجود بھی اللہ رب جلیل اور محمدؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوئے والوںکے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی اور عرب کے طول و ارض میں اسلام اپنے تمام تر اخلاق کے ساتھ غالب آگیا۔ یہ اسلام اور اس کی تعلیمات کا اعجاز ہے کہ وہ صبر اور استقامت کے ساتھ اسلام کی تعلیمات عام کرنے کا پیغام دیتا ہے، محمد عربیؐ اللہ کے آخری نبیؐ ہیں اور ان کی لائی ہوئی تعلیمات ان کی امت ہی کو اللہ کے بندوں تک پہنچانا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوا، ترجمہ: نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔ یعنی ہر مسلمان کی بنیادی ذمے داری ہے کہ معاشرے میں نیکی کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرے اور برائی کو روکنے میں اپنا حصہ ڈالے اسی طرح قرآن کریم میں ایک اور مقام پر ارشاد ہوا، تم بہترین امت ہو جو لوگوں کی اصلاح کے لیے پیدا کیے گئے ہو، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔ (سورہ آل عمران: ۱۱۰) ایک مقام پر اللہ کے حبیبؐ نے ارشاد کیا: تم ضرور نیکی کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسا عذاب مسلط فرما دینگے۔ پھر تم دعائیں بھی مانگو گے اور وہ قبول نہ ہو ں گی۔ (ترمذی) ان تمام تعلیمات کو جاننے اور سمجھنے کے بعد جب کوئی مسلمان اللہ اور اس کے رسول ؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتا ہے تو دنیا اس سے کیوں شاکی ہے اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات لوگوں تک پہنچانے والے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اللہ کے بندوں کو ان کی دنیا میں آمد کا مقصد بتاتے ہیں اور آخرت کی جزا وسزا سے آگاہی دیتے ہیں یہ دنیا دار قسم کے لوگ کیوں بے زار ہو جاتے ہیں اور جانے سمجھے بغیر دنیا کے سامنے اسلام کے شیدائیوںکی منفی تصویر پیش کرتے ہیں۔ ہاں یہ بات تو خاصی حد تک سمجھ میں آتی ہے کہ انا پرست، جاہ پسند اور اقتدار کے متوالے تو اکثر و بیش تر دین داروں کے بارے کچھ ایسا ہی رویہ اختیار کرتے رہے ہیں تاریخ شاہد ہے کہ ابوجہل اور ابولہب نے بھی دین اسلام سے رقابت اس لیے ہی اختیار کی کہ وہ سمجھتا تھا کہ دین اسلام قبول کر لیا تو ہماری سرداری چلی جائے گی۔
اسلام میں وی آئی پی کلچرکی گنجائش نہیں یہاں تو محمود وایاز، بادشاہ اور غلام ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر معبود برحق کی کبریائی کا اعلان کرتے ہیں اور حق آشنا ہو کر اسلامی تہذیب و ثقافت کے رنگ میں ڈھل جاتے ہیں اور جو لوگ تمام تر اصلاحی کوششوں کے بعد بھی اغیار کا سا انداز اختیار کیے رہتے ہیں تو ان کا حال کچھ اس طرح ہو جاتا ہے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، نہ یہاں کے رہے نہ وہاں کے رہے۔ روئے زمین پرخود کو با اختیار سمجھنے والے لوگ اکثر یہ بھول جاتے ہیںکہ وہ حاکم نہیں بلکہ کسی نہ کسی شکل میں اللہ کے بندوں کی خدمت پر مامور کیے گئے ہیں اور انہیں اپنے انداز و آہنگ میں وہی انداز اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ جس سے محسوس ہو کہ یہ قوم کے خدمت گزار ہیں اور رب کعبہ اور اس کے محبوب رسولؐ کی تعلیمات کو اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں اسی لیے سادگی، رحمدلی اور خدا ترسی، ایمانداری، خدا خوفی اور آخرت میں جواب دہی کا تصور انہیں ہر ایسے کام سے روکے رکھتا ہے جس سے اللہ کے بندوں کو کوئی تکلیف پہنچ سکتی ہو۔ لیکن اگر اس کے بر عکس اگر حکمران وقت اور ان کے مصاحبین خاص یہ سمجھنے لگیں کہ وہ اس خطہ زمین کے مالک اور مختار بن بیٹھیں ہیں اور اس کا نظام اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق تشکیل دے لیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔
ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری ہیں یہ مملکت خداداد دنیا کی دوسری اہم ترین ریاست ہے جو اسلامی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آئی، کیا اس مملکت میں رہنے اور بسنے والے اہل ایمان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے ملک کو دنیا کے لیے ایک عظیم اسلامی فلاحی ریاست کی شکل میں تبدیل کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں اور ایک ایسی ریاست کہ جس میں صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط قاعدے اور قوانین جاری کیے جائیں۔
چودھری فواد حسین اپنی دانش میں نا حق یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اساتذہ نے ہمارے ملک میں شدت پسندی کے جذبات کو پروان چڑھانے میں اپنا کرادا ادا کیا ہے مومن مسلمان تو وہی ہوتا ہے جو اپنے رب کی رضا کے لیے نہ صرف اپنی جان و مال وار دیتا ہے بلکہ دین اسلام کی خاطر اپنا گھر بار تک چھوڑ چھاڑ کر ہجرت تک اختیار کر لیتا ہے اور تاریخ پاکستان اس بات کی گواہ ہے کہ مسلمانان ہند نے مملکت پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست کا رنگ دینے کے لیے نہ صرف ایک کٹھن جد وجہد کی بلکہ اپنا گھر بار تک چھوڑ کر خالی ہاتھ سرزمین پاکستان میں آکر آباد ہوگئے ہمارے حکمران اور ان کے مصاحبین یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس مملکت کے قیام کے لیے برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں نے نعرہ لگایا تھا کہ لے کے رہیں پاکستان بٹ کے رہے گا ہندوستان پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ، ہر فرد کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ جب اس ریاست کی بنیاد ہی اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات کے لیے رکھی گئی تو کیسے ممکن ہے کہ اللہ اور اس کے پیارے رسولؐ کا نام لینے والے اور ان کی تعلیمات عام کرنے والے شدت پسند ہو سکتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان امن پسند ہیں لیکن دین کے معاملے پر امن پسندی کے مظاہرے کی امید رکھنا ہرگز ہرگز درست نہیں ایک مومن مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن اگر مسلم دشمن قوتیں اللہ اور اس کے رسولؐ کی حرمت اور عزت پر حملہ آور ہو جائیں تو کیسے مسلمانوں کے جذبات کو سرد کیا جا سکتا ہے ہماری حکومت کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ خود اسلام مخالف قوتوں کا ہر محاذ پر جواب دے اور اپنی صفوں میں موجود دین بے زار لوگوں سے اپنا دامن چھڑا لے اور اپنے وزراء کو بھی پابند کرے کہ دینی معاملات میں تدبر کی راہ اختیار کریں اور معاشرہ کے اہل علم افراد کی کردار کشی سے اجتناب کریں۔