سفارش اور ابن آدم

468

ہمارے معاشرے میں علمیت اور تعلیم کی اہمیت روز بروز کم ہوتی جارہی ہے۔ سفارش، اقربا پروری اور رشوت کے سارے کام ہورہے ہیں۔ جب تک آپ کے تعلقات بڑے لوگوں یا اُن کے رشتے داروں سے نہیں ہیں آپ کو نہ کوئی نوکری ملے گی اور نہ ہی آپ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرسکیں گے۔ پہلے میں آپ کو ماضی میں لے جا کر اپنے ملک کا سفارشی کلچر بیان کروں گا اور بعد میں جو کچھ ہوا اور اس وقت جو ہورہا ہے خاص طور پر سندھ حکومت میں اس کا حال بھی بیان کروں گا۔ ضیا الحق مرحوم کا دور حکومت آیا ہی تھا کہ کسٹمز میں preventive offers کی 100 ملازمتوں کے لیے اخبارات میں اشتہارات دیے گئے۔ آج سے پہلے یہ کوئی ایسی غیر معمولی اور اہم نوکری تصور نہیں کی جاتی تھی۔ اس کے لیے کراچی کا کلکٹر کسٹمز ان عہدوں پر ملازمت دینے کا مجاز افسر تھا۔ چھوٹی موٹی سفارشیں آتی تھیں تو وہ سن سنا کر کام کردیا کرتے تھے۔ یہ اس کی صوابدید پر تھا۔ وقت بدل گیا، فوجی حکومت آگئی، اخبار میں اشتہار کے بعد عرضیاں جب کسٹم ہائوس میں آئیں تو اُن پر سفارشی رقعے دیکھ کر کلکٹر کسٹمز کے پاس لے گیا۔ اس نے کہا کہ یہ میرے بس کی بات نہیں، میں چیئرمین سی بی آر سے بات کرتا ہوں، چیئرمین صاحب نے جب سفارش رقعے دیکھے تو انہوں نے بھی کہا کہ میں بے بس ہوں، سیکرٹری خزانہ سے بات کرتا ہوں، یہ سب حالات دیکھ کر وزیر خزانہ نے یہ رائے دی کہ یہ فیصلہ تو صرف صدر مملکت ہی کریں گے کہ کسی کی سفارش سنیں اور کس کی نہ سنیں، کس کے بیٹے، بھتیجے، بھانجے، سالے یا داماد کو رکھیں اور کس کو منع کریں۔ صدر جنرل ضیا الحق کے پاس جب یہ کیس آیا تو انہوں نے کہا کہ سفارش کرنے والوں کی لسٹ بنا کر ان کو دے دی جائے پھر وہ فیصلہ کریں گے۔ سی بی آر نے حکم کی تعمیل کی اور تمام سفارشوں کی فہرست بنا کر صدر مملکت کو دے دی۔ جو ایک نامور ادیب ہیں ان کے صاحبزادے کا کام تھا محمد محسن کا شمار ایماندار افسران میں ہوتا تھا وہ رشوت سے نفرت کرتے ہیں جب انہوں نے اپنے بیٹے کے کیس کا ذکر کیا تو مجھے اپنے دو ایماندار دوست جو اے جی سندھ میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں ایک کامران شمیم اور دوسرے طیب غوری ہیں کیس ان کے پاس لے کر گیا طیب غوری نے فوری کام کروا اور باقاعدہ چائے بسکٹ مٹھائی بھی پیش کی۔ بات یہ ہے کہ اے جی سندھ کے دفتر میں بھی بغیر رشوت کے کوئی کام نہیں ہوتا مگر میں نے یہ بھی کہا کہ کام کرنے والے 3 سے 4 ہی نظر آتے ہیں۔ 100 ملازمین میں سے 5 ایماندار نظر آتے ہیں۔ جن کی وجہ سے ادارہ چل رہا ہوتا ہے۔ آپ عدالتوں میں چلے جائیں چھوٹے سے چھوٹے کام کی بھی رشوت دینی پڑتی ہے مگر وہاں بھی چند لوگ ایماندار نظر آتے ہیں جو رشوت تو دور وہ کسی کی چائے پینا بھی گواراہ نہیں کرتے۔ بلدیہ کے دفتر چلے جائیں قدم قدم پر رشوت کا بازار گرم، کے ڈی اے، ایس بی سی اے، ایم ڈی اے اگر آپ کا کوئی کام یہاں پھنس جائے تو بغیر رشوت کے ناممکن ہے۔ ہمارے ایک صحافی بھائی ان افسران سے کام کروانے میں
بے حد مشہور ہیں وہ جو کام ہاتھ میں لے لیں تو ناں تو ہو ہی نہیں سکتی۔ آج سے چند سال پہلے بھی ان کو جانتا تھا اور آج ان کے پاس دولت بھرپور آرہی ہے۔ موٹر سائیکل والا صحافی 35 لاکھ کی گاڑی میں گھومتا ہے، بس آپ کو اپنا ضمیر کا سودا کرنا پڑتا ہے۔ جو لوگ سفارش اور رشوت دے کر نوکری حاصل کرتے ہیں وہ دراصل کسی کا حق مار رہے ہوتے ہیں۔ صدر صاحب نے فیصلہ کیا کہ 80 فی صد آدمی سفارش پر لے لیے جائیں۔ اس کے لیے ان بڑے بڑے افسروں، جرنیلوں، سیاست دانوں اور صنعت کاروں کے نام کے آگے نشان لگادیا۔ پھر سیکرٹری خزانہ اور وزیر خزانہ، چیئرمین سی بی آر، پھر سی بی آر سے کہا کہ اگر آپ کی بھی کوئی سفارش ہے تو ابھی بتادیں وہ بھی میں کردیتا ہوں، لیکن کے بعد کے الفاظ پر آپ نے بھرپور توجہ دینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 20 فی صد آدمی میرٹ اور صرف میرٹ پر لیے جائیں کیوں کہ ہمیں کسٹمز ہائوس بھی چلانا ہے اور اس میرٹ میں کوئی کوتاہی نہ کی جائے۔ اس طرح سے ایک اصول وضع ہوگیا کہ 80 فی صد سفارشی اور 20 فی صد میرٹ، کیوں کہ بقول صدر مملکت یہ 20 فی صد میرٹ کے گھوڑے ان 80 فی صد گدھے سفارشیوں کو گھسیٹ لیں گے اور سرکار کے دفتر چلتے رہیں گے۔ یہ تو 1980-1970 کی دہائی تھی اب 2021 ہے جہاں میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہے، نوکری کے لیے سو فی صد اعلیٰ درجے کی سفارش یا پھر بھاری رشوت درکار ہے۔
میں جب سرکاری اداروں میں جاتا ہوں اور وہاں جو حال دیکھتا ہوں بس رونا آتا ہے، پورے دفتر میں 3 یا 4 کام کرنے والے ہی نظر آتے ہیں۔ اِدھر اُدھر گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ اے جی سندھ کے دفتر جانے کا کئی بار اتفاق ہوا، میرے استاد محترم محمد محسن نے اپنے کالموں میں بہت کچھ لکھا مگر کسی نے کبھی توجہ نہیں دی، تھانوں میں اللہ کسی کو نہ لے کر جائے، جائز کام کی بھی رشوت دینی پڑتی ہے، علاقے کے تمام مافیا باقاعدہ تھانے کو حصہ پہنچاتے ہیں، گٹکے پر پابندی ہے مگر پورے شہر میں فروخت ہورہا ہے، پولیس والے بھی اس کام میں ملوث ہیں، اگر آپ ایک ایس ایچ او کی آمدنی دیکھ لیں تو آپ کو حیرت ہوگی، ہر نیا آنے والا آئی جی یہ کہتا ہے کہ میں تھانوں سے رشوت کا خاتمہ کرکے دم لوں گا۔ خواجہ اجمیر نگری تھانے جانے کا اتفاق ہوا، نور جہاں تھانے اور سرسید ٹائون تھانے بھی گیا، ایک کیس میں ایس ایچ او صاحب فرما رہے تھے مجھے خریدنا آسان کام نہیں، میری قیمت تو 50 لاکھ سے شروع ہوتی ہے۔ کاش میرے پاس اختیار ہوتا میں نیب کا آئی بی کا ایف آئی اے کا کوئی اعلیٰ افسر ہوتا تو اُس کو اُس کی قیمت بتادیتا مگر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے بعد بھی بے اختیار ہوں، اگر میرے پاس سفارش ہوتی تو میں بھی کوئی اعلیٰ بااختیار افسر ہوتا اور اپنے وطن سے کرپشن کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرتا۔
سفارش حضرات سے مجھے بات کرنی ہے کہ ایک بیوہ خاتون کی 2 بیٹیاں ہیں، تعلیم میں لاجواب، باپ کے مرنے کے بعد اُس فیملی کو سہارے کی ضرورت ہے تا کہ ان لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہے اور یہ بے آسرا فیملی عزت کے ساتھ گزارہ کرسکے، اگر کوئی اللہ والا مدد کرنا چاہتا ہو تو مجھے ای میل کرے، میں تفصیل اور رابطہ اس کو بھیج دوں گا۔