تقویٰ، علم اور مسلمان

998

اسلام دشمن عناصر کا دعویٰ ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا، لیکن اتنا بڑا دعویٰ کرنے والے اتنی سی بات نہیں سمجھتے کہ تلوار کے زور پر ملک اور جغرافیہ فتح کیا جاسکتا ہے، قلوب اور اذہان کو مسخر نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کی تاریخ یہ ہے کہ وہ جہاں گیا اس نے قلوب و اذہان کو مسخر کیا۔ بلاشبہ مسلمانوں نے تلوار کے زور پر جغرافیہ بھی فتح کیا لیکن اگر اسلام صرف جسمانی قوت کا مظہر ہوتا تو پھر مسلمان ہندوستان میں ایک ہزار سال اور اسپین میں چھے سو سال حکومت نہ کرتے۔ مسلمانوں نے صرف ہندوستان میں ایک ہزار سال حکومت ہی نہیں کی انہوں نے کروڑوں ہندوئوں کو مسلمان بھی کیا۔ یہی کام مسلمانوں نے دنیا کے دوسرے خطوں میں کیا۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یورپی طاقتوں نے پوری دنیا کو فتح کیا مگر وہ کہیں بھی سو ڈیڑھ سو سال سے زیادہ نہ ٹک سکیں۔ اسی طرح منگولوں نے وسیع سلطنت قائم کی مگر ان کا اقتدار اور غلبہ بھی ڈیڑھ سو سال میں ختم ہوگیا اور مسلم دنیا میں تو منگولوں کا یہ حال ہوا کہ اسلام کے حسن و جمال اور جلال نے انہیں مسخر کرلیا۔ چناں چہ فاتح منگولوں کی دوسری نسل مسلمان ہو گئی اور اقبال نے ایک شان کے ساتھ فرمایا۔
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسافے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
سوال یہ ہے کہ آخر مسلمانوں نے کروڑوں انسانوں کے قلوب و اذہان کو کس طرح مسخر کیا۔ یہ ایک ایسی بات ہے کہ جس کی طرف ہمیں بار بار پلٹ کر دیکھنا چاہیے۔ اس لیے کہ مسلمانوں کا اس وقت یہ حال ہوگیا ہے کہ وہ اپنے حال اور مستقبل ہی سے نہیں اپنے ماضی سے بھی بیگانہ ہوگئے ہیں۔ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے تاریخ کو بڑی اہمیت دی ہے اور اسے ایک آئینے کی طرح برتا ہے۔ چناں چہ مسلمانوںکو اپنی تاریخ کے آئینے میں اپنے ماضی اور حال کے عکس کو ملاحظہ کرتے رہنا چاہیے۔ اس کے بغیر مسلمانوں کے موجودہ زوال کا علاج ممکن نہیں۔
مسلمانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی ساری عظمت دو چیزوں پر منحصر ہے۔ ایک تقویٰ اور دوسرا علم۔ بدقسمتی سے ہمارے زمانے تک آتے آتے تقوے کا مفہوم ظواہر میں منحصر ہوگیا ہے۔ بلاشبہ اسلام ظاہر کو بھی بدلتا ہے مگر اس کا اصل تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنا باطن بدلے اور انسان کے باطن میں سب سے بڑا انقلاب اس وقت برپا ہوتا ہے جب انسان کی زندگی خدا مرکز یا God Centric
ہوجاتی ہے۔ جب خدا انسان کی ترجیح اول بن جاتا ہے۔ جب انسان کی زندگی خدا کی محبت اور خدا کے خوف کے درمیان بسر ہونے لگتی ہے۔ جب انسان کو ہر لمحے خدا کی موجودگی کا شعور ہوتا ہے۔ نماز دین کا ستون اور بندگی کی سب سے بڑی علامت ہے۔ مگر نماز کوئی عادت نہیں۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے: نماز اس طرح پڑھو گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو، ورنہ کم از کم اس طرح تو پڑھو گویا خدا تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ایک مسلمان سب سے زیادہ نماز کے ذریعے خدا کی موجودگی کے شعور کو پروان چڑھاتا ہے۔ خدا کی موجودگی کا شعور اور خدا کی محبت کا کمال یہ ہے کہ انسان کے لیے دین خارج سے ظاہر ہونے والا جبر نہیں رہتا بلکہ وہ سراسر ایک کارِ محبت بن جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسلمان کی زندگی خدا کا طواف کرتی ہوئی زندگی بن جاتی ہے۔ پھر بندہ خدا سے اور خدا بندے سے راضی ہوجاتا ہے۔ جب انسان کی زندگی خدا مرکز بن جاتی ہے تو پھر تقویٰ انسان کے اندر یہ خوبی پیدا کردیتا ہے کہ وہ قلوب کو فتح کرنے والا بن جاتا ہے۔ لاکھوں لوگ تھے جنہیں رسول اکرمؐ کے اسوئہ حسنہ نے فتح کیا۔ لاکھوں لوگ ہیں جو صحابہ کرام کے کردار سے متاثر ہو کے مسلمان ہوئے۔ لاکھوں لوگ ہیں جنہیں ہمارے عظیم علما اور عظیم صوفیا کی زندگیوں نے بدلا۔ مسلمانوں کے قلوب کو مسخر کرنے کا یہ پہلو اہم ہے کہ اسلام جہاں جہاں گیا اس کا مقابلہ دنیا میں پہلے سے موجود ادیان کے ساتھ ہوا۔ کہیں کے لوگ عیسائی تھے، کہیں کے لوگ یہودی تھے، کہیں کے لوگ ہندو تھے،
مگر مسلمانوں کا کردار ہر جگہ دوسری امت کے لوگوں کے کردار سے زیادہ بہتر ثابت ہوا۔ ایسا نہ ہوتا تو اسلام بھی صرف جغرافیہ فتح کرکے رہ جاتا اور وہ حقیقی معنوں میں ایک عالمگیر تہذیب اور ایک عالمگیر تاریخ پیدا کرنے کے قابل نہ ہوتا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ تقویٰ ٹھیک اس طرح قلوب کو مسخر کرتا ہے جس طرح سورج کی روشنی دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف پھیل جاتی ہے۔ سورج جب نکلتا ہے تو وہ کوئی پریس کانفرنس نہیں کرتا کہ میں اب نکل رہا ہوں ساری دنیا مطلع ہوجائے۔ وہ جب نکلتا ہے تو چند ہی منٹوں میں اس کی روشنی ہر طرف پھیل جاتی ہے اور سب کو معلوم ہوتا ہے کہ صبح ہوگئی ہے۔ سورج نکل آیا ہے۔ تقویٰ بھی سورج کی طرح ہر طرف اپنی روشنی پھیلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تقوے کو قلوب مسخر کرنے کی خاص اہلیت بخشی ہے۔ بلاشبہ اس وقت دنیا میں ڈاڑھیوں اور برقعے والیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ بلاشبہ نمازیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ بلاشبہ حاجیوں کی تعداد بھی روز افزوں ہے۔ مگر ہر طرف تقوے اور اس کی روشنی کا کال پڑا ہوا ہے۔ ہماری نمازیں تک ہماری زندگیوں کو خدا مرکز نہیں بنا پارہیں۔ ہماری نمازوں سے ہمارے شعور بندگی میں کوئی اضافہ نہیں ہورہا۔ ہماری نمازیں ہمیں بہتر انسان اور ایک بہتر مسلمان نہیں بنارہیں۔ ہم بیس سال تک نماز پڑھتے ہیں اور پھر بھی جھوٹ بولتے رہتے ہیں۔ سود کھاتے رہتے ہیں۔ دنیا کو اہمیت دیتے رہتے ہیں۔ دولت کی پوجا کرتے رہتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز ہمارے کردار کو نہیں بدل رہی۔ اسلام آج بھی لاکھوں لوگوں کو مسلمان کررہا ہے مگر مسلمانوں کا کردار کتنے لوگوں کو مسلمان کرنے کا سبب بن رہا ہے؟
مسلمانوں کی تاریخی عظمت کا دوسرا پہلو ان کی غیر معمولی علمیت یا ان کی علم سے محبت ہے۔ مسلمانوں کو علم سے محبت کیوں رہی ہے؟ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ قرآن میں ایمان کے بعد علم کو اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن کہتا ہے تم تفکر سے کام کیوں نہیں لیتے؟ تم تدبر بروئے کار کیوں نہیں لاتے؟ قرآن سوال اٹھاتا ہے کہ کیا علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے برابر ہوسکتے ہیں۔ فرشتوں پر انسان کی فضیلت بھی علم کی وجہ سے تھی۔ خدا نے فرشتوں سے چیزوں کے نام پوچھے اور وہ نہ بتاسکے۔ خدا نے سیدنا آدمؑ سے اشیا کے نام معلوم کیے اور چوں کہ انہیں اشیا کا علم ودیعت کیا گیا تھا اس لیے انہوں نے اشیا کے نام بتادیے۔ یہ تو قرآن کا معاملہ ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ اہل دنیا جب دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو وہ اپنے پیچھے مال اور جائداد چھوڑ کر جاتے ہیں۔ یہی ان کا ورثہ ہوتا ہے اور یہی ورثہ ان کے متعلقین میں تقسیم ہوتا ہے مگر رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ انبیا کا ورثہ علم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے علم سے محبت کی اور علم کے دریا خلق کر ڈالے۔ دنیا میں کئی آسمانی کتب آئیں۔ دنیا میں توریت آئی، زبور آئی، انجیل آئی۔ ہندوئوں کا دعویٰ بھی یہ ہے کہ وید بھی آسمانی کتاب ہے، لیکن مسلمانوں نے قرآن تشریح و تفسیر یا تفسیر کی جیسی روایت پیدا کی عیسائی، یہودی اور ہندو اس کا عشر عشیر بھی پیدا نہ کرسکے۔ قرآن کے ساتھ مسلمانوں کے تعلق کا معاملہ یہ ہے کہ رسول اکرمؐ کے زمانے سے قرآن کی تفسیر کا کام شروع ہوا اور آج بھی یہ کام جاری ہے۔ مسلمانوں کے علم تفسیر کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ مسلمان ڈیڑھ ہزار سال میں بھی قرآن کے معنی کو بیان نہیں کرپائے اور قرآن پر نجانے کب تک گفتگو جاری رہے گی۔ دنیا میں ایک لاکھ 24 ہزار انبیا آئے۔ ان میں اولی العزم انبیا بھی شامل ہیں مگر ہم تک سیدنا ابراہیمؑ، سیدنا موسیٰؑ اور سیدنا عیسیٰؑ کے چند اقوال پہنچے ہیں۔ لیکن مسلمانوں نے رسولؐ کے ایک ایک قول کو محفوظ کے علم حدیث کی صورت میں ایک عظیم الشان علم خلق کر ڈالا۔ اس علم کے مستند ہونے کا یہ عالم ہے کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو قرآن کے بعد دنیا کی سب سے مستند کتب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ رسول اکرمؐ کی احادیث پر بھی رسول اکرمؐ کے زمانے سے گفتگو شروع ہوئی تھی اور آج تک یہ گفتگو جاری ہے۔ مسلمانوں نے فقہ کی صورت ایک اور بہت ہی بڑا علم تخلیق کیا ہے۔ فقہ کا علم فقہا کی ’’ذاتی رائے‘‘ نہیں بلکہ یہ علم بھی قرآن و سنت سے ماخوذ ہے۔
ہمارے فقہا کی عظمت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ صرف امام ابوحنیفہؒ نے 12 لاکھ مسائل پر غور کیا اور ان کا اسلامی حل پیش فرمایا۔ اس علم میں امام شافعیؒ، امام مالکؒ اور امام حنبلؒ کے کام کو بھی شامل کرلیا جائے تو علم کا ایک سمندر ہمارے سامنے موجزن ہوجاتا ہے۔ کیا دنیا میں کوئی ایسی امت ہے جس کے پاس امام ابوحنیفہؒ ہوں؟ جن کے پاس امام شافعیؒ ہوں؟ جس کے پاس امام مالک ہوں؟ جس کے پاس امام حنبل ہوں؟ مسلمانوں نے شاعری کی اتنی بڑی روایت پیدا کی کہ اگر مولانا روم کی شاعری کو ترازو کے ایک پلڑے میں اور دوسری امتوں کے 100 بڑے شاعروں کو شاعری کو ترازو کے دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو مولانا کی شاعری کیفیت اور معنویت کے اعتبار سے دنیا کے سو شاعروں کی شاعری پر بھاری ہوگی۔ مسلمانوں نے داستان کی عظیم روایت پیدا کی۔ مسلمانوں نے جدید علوم مثلاً طبیعات، فلکیات، ریاضی، علم ہندسہ، کیمیا اور عمرانیات وغیرہ میں وہ لوگ پیدا کیے جو صدیوں تک پوری دنیا کی علمی قیادت کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح تقوے کو یہ صلاحیت عطا کی ہے کہ وہ قلوب کو مسخر کرتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے علم کو یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ اذہان کو مسخر کرتا ہے۔ مگر جس طرح ہم تقوے کا اعلیٰ معیار پیش کرنے سے قاصر ہیں اسی طرح ہم علم کے دائرے میں علم اور تخلیق کا بلند معیار پیش کرنے سے قاصر ہوگئے ہیں۔ سلیم احمد نے کہیں لکھا ہے کہ ہمارے معاشرے میں شعور ایک بن بلائے مہمان کی طرح ہے جس سے کوئی سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتا۔ بدقسمتی سے یہ صرف ہمارے معاشرے کا حال نہیں ہے یہ ہر مسلم معاشرے کا حال ہے۔