وفاقی و سندھ حکومت سیاسی اختلافات کے باعث کراچی ترقی کیلئے مل کر کام نہیں کرسکتی

380

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) کراچی اتنا بدنصیب شہر ہے کہ کراچی کو کوئی اپنانے (اون) کرنے کے لیے تیار نہیں ہے‘ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف دونوں جماعتوں کو کراچی کے عوام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے‘ حکمران کراچی سے مختلف بھاری ٹیکسز وصول کرتے ہیں لیکن اسکو کچھ نہیں دیتے ‘ اس کے مسائل حل کرنے کے لیے وفاق اور سندھ حکومت کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے‘ کراچی کے نام پر وفاق اور سندھ حکومت سیاست تو کرسکتے ہیں لیکن مل کر کام نہیں کر سکتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار سابق بیوروکریٹ اور ایڈمنسٹریٹر کراچی فہیم الزمان، سینئر سیاستدان و پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر اورکریکٹر ایجوکیشن فائونڈیشن پاکستان کراچی کے ایمبیسیڈر، پاکستان ترکی بزنس فورم کے بانی و صدر معروف ماہر معاشیات محمد فاروق افضل نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا کراچی کی ترقی کے لیے وفاق اور سندھ مل کر کام کر سکتے ہیں؟۔ فہیم الزمان نے کہا کہ کراچی کی ترقی کے لیے وفاق اور سندھ حکومت مل کرکام کرسکتے ہیں لیکن ان دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی اختلافات اتنے زیادہ ہیں کہ مجھے نہیں لگتا کہ یہ دونوں مل کر کراچی کی ترقی کے لیے مل کر کام کرسکتے ہیں‘ وفاق میں تحریک انصاف اور سند ھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے لیکن یہدونوں جماعتیں کراچی سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں‘ جب تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم پاکستان نیشنل سیکورٹی کونسل کے اجلاس میں اپوزیشن کے ساتھ مل کر بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو وہ کس طرح سندھ حکومت کے ساتھ مل کر کام کرسکتے ہیں‘ کراچی اتنا بدنصیب شہر ہے کہ کراچی کو اپنانے (اون) کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی سے منتخب ہونے والے حکمران کراچی کے عوام کے ارمانوں کا خون کر رہے ہیں‘ کراچی کی تینوں حکمران جماعتیں عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ حکمران کراچی سے مختلف مدات میں بھاری ٹیکسز وصول کرتے ہیں لیکن کراچی کو کچھ نہیں دیتے ہیں‘ کراچی میں عوام کا استحصال کیا جا رہا ہے‘کراچی ملک کو 67 فیصد ریونیو اور41 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے‘ ان سب کے باوجود کراچی کو اس کا حق نہیں دیا جا رہا‘ تمام حکمران جماعتیں کراچی کو دودھ دینے والی گائے سمجھتی ہیں‘ کراچی کی ترقی صرف کراچی کی نہیں بلکہ پورے ملک کی ہے‘ کراچی کی ترقی پی ٹی آئی اور پی پی پی کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے مگر ان کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ مال کیسے بنانا ہے اور مال بنانے کا سلسلہ جاری کیسے رکھنا ہے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے وفاق اور سندھ حکومت کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے‘ بہت سے معاملات میں وفاقی حکومت اکیلے کچھ نہیں کر سکتی اور بہت سے معاملات میں صوبائی حکومت اکیلے کچھ نہیں کر سکتی ہے‘ ان حالات میں ہمیں سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ملک اور کراچی کی خاطر اکٹھے ہو کر چلنا پڑے گا‘ ہمارا المیہ یہی ہے کہسیاست دان ذاتی اختلافات میں اس حد تک آگے نکل جاتے ہیں کہ واپسی ممکن نہیں ہوتی‘ ملک میں سب سے زیادہ کمی احساس، تحفظ اور برداشت کی ہے‘ ہم کسی دوسرے کو برداشت نہیں کرنا چاہتے‘ نہ ہی کسی کو اہمیت دینا چاہتے ہیں‘ اکثر دونوں طرف سے بیانات اور الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور کئی کئی روز تک لوگ اس بیانات کی خوبیوں اور خامیوں پر بحث میں مصروف رہتے ہیں‘ کاش کہ ہم کم از کم قومی معاملات میں ہی قومی مفادات کو ہی ترجیح دیں لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے‘ بہرحال سیاسی جماعتوں کی لڑائی میں نقصان ملک کا اور کراچی کا ہوتا ہے‘ عام آدمی کا خون چوسا جاتا ہے‘ اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا‘ کوئی اس کے آنسو نہیں پونچھتا‘ کوئی اس کا خیال نہیں رکھتا‘ حکومتیں آتی ہیں اور جاتی ہیں لیکن عام آدمی کے مسائل کوئی نہیں حل کرتا ہے‘ وفاق اور سندھ حکومت مشترکہ طور پر کراچی کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے مل کر کام کرسکتے ہیں‘ سیاسی اختلافات پہلے بھی تھے اور آج بھی ہیں لیکن ملک اور کراچی کے ترقیاتی کام میں سیاسی مداخلت نہیں ہونی چاہیے‘ تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود تمام جماعتوں کو کراچی کی ترقی کے لیے مل کر کام کرنا چا ہیے۔ محمد فاروق افضل نے کہا کہ کراچی کے نام پر وفاق اور سندھ حکومت سیاست تو کرسکتے ہیں لیکن مل کر کام نہیں کر سکتے ہیں‘ وفاق میں تحریکِ انصاف کی حکومت ہے اور سندھ میں وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کا ہے‘ دونوں جماعتیں اتحادی نہیں ہیں‘ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی سیاسی حریف ہیں‘ ان حالات میں یہ دونوں اکٹھے مل کر کیسے چل سکتے ہیں‘ ان دونوں کو کراچی کے عوام کے لیے پہلے ذاتی و سیاسی اختلافات کو ختم کرنا چاہیے لیکن کیا ایسا ممکن ہے‘ پاکستان میں یہ روایت نہیں یہاں جب تک سیاسی مفادات نہ ہوں مخالفین ایک ساتھ کبھی نظر نہیں آتے ہیں‘ تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی موجودہ حالات میں ایک دوسرے سے تعاون نہیں کر سکتے‘ دونوں کے سیاسی نظریات بھی مختلف ہیں اور ویسے بھی اتنے شدید اختلافات ہیں کہ ان کے رہنما ایک دوسرے کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے‘ اتفاق رائے کے لیے لوگوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔