کشمیر پر امریکا و اسرائیل کے قبضے کی سازش

866

شیطان کی چالیں ہوتی ہی ایسی ہیں کہ ان کو سمجھنا انسان کے بس کی بات نہیں اسی طرح یہ بات سمجھ سے بالا تھی کہ ’’ٹرمپ ابرہم ایکارڈ‘‘ جس کو عرب اسرائیل امن معاہدہ بھی کہا جاتا ہے کی پہلی سالگرہ کی تقریب کے موقع پر بھارت کی اسرائیل میں موجودگی کا کیا مقصد تھا؟ اس راز پر سے پردہ اس وقت ہٹا جب بھارتی بیان میں کہا گیا کہ دبئی کی مختلف کمپنیوں نے کشمیر میں سرمایہ کاری میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ اس سلسلے میں مودی کابینہ میں تجارتی امور کے وزیر پیوش گوئل کا کہنا تھا، ’’دنیا نے اُس رفتار کو پہچاننا شروع کر دیا ہے، جس رفتار سے جموں و کشمیر ترقی کی راہ پر گامزن ہے‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’متحدہ عرب امارات کے ساتھ یہ مفاہمت نامہ پوری دنیا کے لیے یہ اعلان ہے کہ جس طرح بھارت ایک عالمی طاقت میں تبدیل ہو رہا ہے، اس میں جموں و کشمیر کا بھی نمایاں کردار ہے‘‘۔ انڈین اخبارات کا کہنا ہے کہ اس ماہ کے اوائل میں جب بھارتی وزیر نے دبئی کا دورہ کیا تھا، تبھی اس سرمایہ کاری کے معاہدے کے اعلان کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا اور اسرائیل میں بھارت، امریکا، اسرائیل اور متحدہ عرب امارت کے اجلاس کے بعد سرینگر میں اس کا اعلان کیا گیا۔ اس پوری صورتحال سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ’’بھار ت متحدہ عرب امارات کے ساتھ مفاہمت کا اصل محرک اسرائیل اور امریکا ہے جو متحدہ عرب امارات کا کندھا استعمال کر کے پاکستان کو کنٹرول کرنے کے لیے کشمیر میں اپنے فضائی اڈے اور فوجی چھائونی قائم کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔
بھارتی حکومت کا یہ اعلان ایک ایسے وقت ہوا ہے جب خطے میں تشدد کی نئی لہر کا دور دورہ ہے۔ بھارتی حکومت نے 18 اکتوبر کی شام کو اعلان کیا کہ اس نے جموں و کشمیر میں سرمایہ کاری کے لیے خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی کے ساتھ مفاہمت کی ایک یاد داشت پر دستخط کیے ہیں۔ اس اعلان کے مطابق دبئی بھارت کے زیر انتظام خطے جموں و کشمیر میں رئیل اسٹیٹ، صنعتی پارکس اور جدید اسپتالوں سمیت کئی دیگر شعبوں کی ترقی کے لیے سرمایہ کاری کرے گا۔ دبئی کی طرف سے یاد داشت کی مفاہمت پر دستخط بھارتی زیر انتظام کشمیر جیسے حساس ترین علاقے میں کسی بھی بیرونی ملک کی جانب سرمایہ کاری کا یہ پہلا معاہدہ ہے۔ دبئی کشمیر میں کتنی مالیت کی سرمایہ کاری کرے گا اس بات کا اس معاہدے میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ لیکن بھارت نے تقریباً دو برس قبل جس انداز سے کشمیر کو آئین کے تحت حاصل اس کی نیم خود مختار حیثیت ختم اور مسلم اکثریتی علاقے کا ریاستی درجہ ختم کرتے ہوئے اسے دو حصوں میں منقسم کر دیا تھا، اس کے بعد اس طرح کی بیرونی سرمایہ کاری کا معاہدہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔ نئی سرمایہ کاری کے بارے میں مودی حکومت کا کہنا ہے کہ بھارتی کشمیر کی انتظامیہ اب مودی کی مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ معاہدے کے تحت دبئی کشمیر میں صنعتی پارکوں، آئی ٹی ٹاورز، ملٹی اسٹوری ٹاورز، لاجیسٹک سینٹرز، میڈیکل کالج اور ایک خصوصی اسپتال سمیت دیگر انفرا اسٹرکچر کی تعمیر انجام دے گا۔ جموں و کشمیر میں مرکزی حکومت کے نمائندہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ معاہدے کے تحت مرکز کے زیر انتظام علاقے کی صنعتی پائیدار ترقی حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے گی۔ آج مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے علاقوں کے ترقیاتی سفر کے لیے ایک اہم دن ہے‘‘۔
اس پوری صورتحال سے مودی حکومت کشمیر میں یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ 5اگست 1919ء کو کشمیر کو آئین کے تحت حاصل اس کی نیم خود مختار حیثیت ختم کو کرنے کے بعد دنیا کے دیگر ممالک بھی کشمیر کا رخ کررہے ہیں، جن کی سرمایہ کاری سے کشمیر میں ترقی کا کام آسان ہو جائے گا۔ مودی حکومت کو اس بات کی توقع ہے کہ دبئی کی یہ سرمایہ کاری ایک سنگ میل ہو سکتی ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ کشمیر میں دبئی کی سرمایہ کاری سے بھارت اس متنازع خطے کے حوالے سے بعض دیگر مسلم ممالک کی حمایت بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے کیونکہ متحدہ عرب امارت کا دیگر اسلامی ممالک میں بھی اچھا خاصا اثر رسوخ ہے۔ لیکن بھارت اور متحدہ عرب امارات کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کشمیر میں یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں ہے، جہاں جمہوری نظام کی کمزروی کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالی اور تشدد ایک عام بات ہے۔ بھارتی حکومت کے سخت اقدامات کے بعد سے کشمیریوں میں بھارت سے بد اعتمادی میں بہت حد تک اضافہ ہوا ہے اور کشمیری عوام قریب آنے کے بجائے بھارت سے مزید دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ گزشتہ 15دنوں کے دوران بھارتی افواج اور کشمیری مجاہدین کے درمیان سخت جھڑپوں کے دوران بھاتی افواج کا بھاری جانی نقصان ہو چکا ہے۔
مودی حکومت کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد ہی سے اس کوشش میں رہی ہے کہ وہاں بھارتی کمپنیاں سرمایہ کاری کریں۔ اس کے لیے بھارت نے کمپنیوں کو زمین بھی مہیا تھی اور مزید سبسڈی کے وعدے کیے تاہم تشدد اور کشیدگی کے سبب ابھی تک کسی بھارتی کمپنی نے سرمایہ کاری کی ہمت نہیں کی ہے۔ گزشتہ دوہفتے کے دوران کشمیر میں دو درجن سے بھی زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ پونچھ سیکٹر میں مجاہدین کے ساتھ ہونے والے مسلح تصادم میں 14 فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ بھارتی فورسز نے وادی کشمیر میں متعدد مجاہدین کو بھی ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن مجاہدین بھی کامیابیوں کا دعویٰ کررہے ہیں۔ بھارتی فوج نے اس دوران ہدف بنا کر گیارہ عام شہریوں کو بھی قتل کیا ہے۔ قتل کی ان واردات میں کشمیری پنڈتوں سمیت دیگر غیر مقامی لوگ شامل ہیں اور اس وقت خوف کا عالم یہ ہے کہ غیر مقامی افراد کا وادی کشمیر چھوڑ کر اپنے آبائی علاقوں کی جانب ہجرت کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بہت سے سرکاری ملازم کشمیری پنڈت بھی وادی کشمیر سے نکلنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کشمیری مجاہدین بھارتی فوج کے ظلم کے سامنے جھکنے کے لیے تیا ر نہیں ہیں۔
گزشتہ چند دنوں میں سیکورٹی فورسز نے ایسے بہت سے لوگوں کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کا انتظام کیا جہاں بہت سارے لوگوں کو منتقل کر دیا گیا ہے۔ کشمیر میں ہر جانب بھارتی فوج کا پہرہ ہے، شاہراہوں، گلی کوچوں میں فوجی تعینات ہیں، اور بھارتی فوج نے تشدد کا بازار گرم کر رکھا ہے اس پوری صورتحال کے باوجود بھارتی فوج کے لیے کشمیر میں ہر طرف خوف کا ماحول ہے۔ ایسی صورت میں بیرونی سرمایہ کاری مودی حکومت کے لیے کتنی سود مند ثابت ہوگی، یہ وقت بتائے گا۔ لیکن متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کو یہ بات معلوم ہونا چاہیے کہ برے وقت میں بھارت، اسرائیل اور امریکا اس کو اکیلاچھوڑ کر واپس چلے جائیں گے۔ اس لیے کہ اسرائیل امریکا کی دبئی کے رستے کشمیر پر قبضے کی سازش کر رہے ہیں۔