ایکسپو 2020 دبئی اور پاکستانی پویلین

507

 

یوں تو ورلڈ ایکسپو کی تاریخ بہت پرانی ہے جو 170 سال پر محیط ہے پہلا ورلڈ ایکسپو 1851 میں لندن میں منعقد کیا گیا ہر ایکسپو ایک مخصوص تھیم اور مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے منعقد کیا جاتا ہے جس میں پوری دنیا کے ممالک کی ثقافت، سیاحت، کلچر اور انڈسٹریز کو متعارف کرانے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جاتا ہے جس میں شرکت کرنے والوں کے لیے پوری دنیا کو جاننے اور سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے اور اپنے سیاحتی اور تجارتی مفادات سے مستفید ہونے کے لیے ملکی طور پر چناؤ آسان ہو جاتا ہے متذکرہ نقطہ ِ نظر سے پاکستان نے دبئی میں ہونے والے تقریباً ہر ایکسپو میں شرکت کی۔ نتائج کیا نکلے، کہاں تک کامیابی ہوئی، کیا کھویا اور اس کھونے کے نتیجے میں کیا حاصل کیا اس کے متعلق تو حکومتی فائلیں ہی بتا سکتی ہیں جن تک رسائی ممکن نہیں لیکن اتنا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان ایک طویل عرصے سے سیاحتی اور تجارتی طور پر دوسرے ممالک سے بہت پیچھے ہے یہاں تک کہ ہم سے ہمیشہ پیچھے رہنے والے انڈیا اور بنگلا دیش ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور نکلتے جا رہے ہیں اور ہمارے حکمرانوں نے ایک طویل عرصے سے اپنے مفادات کو فارورڈ اور ملکی اور عوامی مفادات کو ریسورس گیئر لگایا ہوا ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری وساری ہے۔ جب تک جاری رہے گا اس پر تجزیہ پیش کرنا اب تک کے حالات کے مطابق بہت مشکل ہے، بات دوسری طرف نکل جائے گی داراصل ہمیں بات کرنی ہے۔ دبئی ایکسپو 2020 اور اس میں بنائے گئے پاکستانی پویلین کی۔
دبئی ایکسپو 2020 داراصل اکتوبر 2020 میں منعقد ہونا تھا لیکن کورونا کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوگئی دبئی کی حکومت کی قابل ستائش کوشش کے بعد یکم اکتوبر 2021 کو اس کا افتتاح کر دیا گیا جس میں اس مرتبہ پاکستان بڑے جوش وخروش سے حصہ لے رہا ہے کہ شاید اس مرتبہ تبدیلی سرکار کی حکومت میں کچھ بہتر نتائج حاصل کیے جا سکیں نتائج کیا نکلے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا بہر حال جوش وخروش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ذرائع کے مطابق پاکستان کے پویلین کی تعمیر پر اس مرتبہ کھلے دل کے ساتھ 30 ملین ڈالر کی رقم خرچ کی گئی ہے جو پاکستانی تقریباً 5.1 ارب روپے بنتے ہیں یہ پویلین 35000 مربع فٹ یعنی تقریباً 6.5 کنال کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور شاید دنیا کے دیگر ممالک کے پویلین کے مقابلے میں سب سے بڑا قرار دیا جا سکتا ہے اور تعمیرات کے اخراجات کے متعلق جوش و خروش کا اندازہ اس ہندسے سے لگایا جاسکتا ہے کہ محض 1 اسکوائر فٹ جگہ پر تقریباً 145715 روپے خرچ کیے گئے جو ممکن ہے تعمیرات کی دنیا میں بھی پہلے نمبر پر قرار پا جائے۔
میں ذاتی طور پر سابقہ ایکسپو میں شرکت کر چکا ہوں جو میں نے مشاہدہ کیا اس کے مطابق ایکسپو میں سب سے مشکل ہدف ہوتا ہے پوری دنیا کے سیاحوں کو اپنے پویلین کی طرف متوجہ کرنا اور راغب کرتے ہوئے پویلین کا مکمل دورہ کرنے پر نفسیاتی طور پر مجبور کرنا جس کے لیے پویلین کی انٹری پر ملکی ثقافت کو متعارف کرایا جاتا ہے یعنی کچھ ناچ گانے کے لائیو شو منعقد کیے جاتے ہیں بڑی اسکرین کے ذریعے صنعتی اور سیاحتی دستاویزی فلم چلائی جاتی ہیں زیادہ سے زیادہ مجمع اکٹھا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لوگ آگے بڑھتے ہیں تو ملکی اسٹالوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس میں ہر ملک کے روایتی کھانوں اور چٹخاروں سمیت مختلف صنعتوں دستکاری سمیت ہر اس چیز کے اسٹال موجود ہوتے ہیں جس کو آپ دوسری دنیا میں متعارف کرانا چاہتے ہیں۔ اس میں کامیابی اور مثبت نتائج کا دارومدار اداروں اور متعلقہ وزارتوں کی دلچسپی اور کی گئی محنت پر ہوتا ہے۔ جس میں خاص طور پر وزارت صنعت و تجارت اور وزارت سیاحت کی مخصوص ذمے داری ہوتی ہے۔
یہ ایکسپو 6 ماہ یعنی 31 مارچ 2022 تک جاری رہے گی اس لیے نتائج کے لیے انتظار کرنا پڑے گا۔ اللہ خیر کرے کیونکہ حکومت نے نتائج حاصل کرنے کے لیے عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ بڑے کھلے دل سے خرچ کیا ہے اگر اس رقم میں جاری اخراجات شامل نہیں ہیں تو مزید دل بڑا کرنا ہوگا جو لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کے مزید اخراجات کو ذہن میں رکھنا ہوگا ویسے روایتی کرپشن کی آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں لیکن اگر نتائج اچھے درآمد ہو جائیں اور عوام کی خوشحالی پر اثرات مرتب ہو جائیں تو سودا مہنگا نہیں ہے حسب سابق تھوڑا بہت ادھر اُدھر ہو جائے تو حسب عادت برداشت کرنا ہوگا تھوڑی بہت مزید مہنگائی بھی ہو جائے تو برداشت کرنا ہو گی۔ بس گھبرانا نہیں ہے۔