جبری تبدیلی مذہب پر اعتراضات

1004

جمعرات 23 ستمبر کی سہ پہر وزارت مذہبی امور کی جانب سے بیان جاری ہوا جس کے مطابق پیر نور الحق قادری، وفاقی وزیر مذہبی امورو بین المذاہب ہم آہنگی نے جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کا مجوزہ بل وزارت انسانی حقوق کو اعتراضات کے ساتھ واپس بھیج دیا۔ وزارت ِ انسانی حقوق کے مجوزہ بل میں موجود 18 سال عمر کی شرط، جج کے سامنے پیشی اور 90 دن انتظار کو غیر شرعی، غیر قانونی اور بنیادی آئینی حقوق کے منافی قرار دیا گیا ہے۔ پیرنورالحق قادری نے مزید کہا ہے کہ مجوزہ بل پر وزارت ِ مذہبی امور میں علماء کرام کے ساتھ متعدد مشاورتی اجلاسوں کی صدارت اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے بعد مجوزہ بل متعدد اعتراضات کے ساتھ وزارت انسانی حقوق کو واپس بھیج دیا گیا ہے۔ مجوزہ قانون اپنی موجودہ کیفیت میں شریعت اسلامی اور بنیادی انسانی و آئینی حقوق سے متصادم ہے۔ اس بل کو اسلام قبول کرنے کی ممانعت کے لیے استعمال ہونے کا خدشہ ہے۔ مجوزہ بل مسلم اور غیر مسلم کمیونٹی میں منافرت کا باعث بنے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ مذہب کی جبری تبدیلی کی اسلام میں ہرگز گنجائش نہیں اور اس کی روک تھام بہر حال ضروری ہے۔ پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب کے واقعات بہت کم ہیں لیکن بدنامی کا باعث ہیں۔ یاد رہے وزرات انسانی حقوق کی جانب سے جبری تبدیلی مذہب کے نام سے ایک بل متعارف کروایا گیا جس کے مطابق پاکستان کے کسی شہری خصوصاً غیر مسلم فرد کو مذہب اسلام اختیار کرنے لیے کم از کم 18 سال کا ہونا ضروری ہے۔ اور مذہب اختیار کرنے کے لیے جج کے سامنے پیش ہونا ہوگا اور 90 دن تک انتظار کرنا ہوگا اور اس کے بعد پھر جج کے سامنے پیش ہوکر دوبارہ یہ یقین دہانی کروانی ہوگی کہ وہ واقعی اپنی مرضی سے دوسرا مذہب قبول کررہا ہے۔ یہ مجوزہ بل منظر عام آنے کی دیر تھی پورے ملک میں ایک ہیجانی کیفیت طاری ہوگئی، پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہوگیا۔ سماجی، مذہبی حلقوں میں اس بل کے خلاف بہت کچھ پڑھنے دیکھنے سننے کو ملا۔ پاکستان کے تمام مکاتب فکر خصوصاً مذہبی حلقوں کی جانب سے اس بل کے خلاف شدید ترین ردعمل دیکھنے کو ملا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کے آئین کے آرٹیکل نمبر 2 میں واضح طور پر درج ہے کہ: ’’اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہوگا‘‘، مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ وقتاً فوقتاً جانے انجانے میں پاکستان کی اکثریتی آبادی یعنی مسلمانوں کے بنیادی حقوق اور عقائد کے برخلاف الٹے سیدھے قوانین لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ رہی بات جبری تبدیلی مذہب کی تو آئین پاکستان میں درج ذیل آرٹیکلز بہت واضح ہیں۔ جن میں بلاامتیاز اور بلا تفریق تمام افراد کو مذہبی آزادی حاصل ہے، چاہے وہ مسلم ہوں یا پھر غیر مسلم۔ آرٹیکل نمبر 20۔ قانون، امن عامہ اور اخلاقیات کے تابع: (a) ہر شہری کو اپنے مذہب کا دعویٰ کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کا حق حاصل ہوگا۔ اور (b) ہر مذہبی فرقہ اور اس کے ہر فرقے کو اپنے مذہبی اداروں کے قیام، دیکھ بھال اور انتظام کا حق حاصل ہوگا۔ آرٹیکل نمبر21۔ کوئی شخص کسی خاص ٹیکس کی ادائیگی پر مجبور نہیں ہوگا جس کی آمدنی اپنے مذہب کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی تبلیغ یا دیکھ بھال پر خرچ کی جائے۔ آرٹیکل نمبر 22۔ (1) کسی بھی تعلیمی ادارے میں شرکت کرنے والے کسی شخص کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے، یا کسی مذہبی تقریب میں حصہ لینے، یا مذہبی عبادت میں شرکت کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، اگر ایسی ہدایات، تقریب یا عبادت کا تعلق اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب سے ہو۔ (2) کسی بھی مذہبی ادارے کے حوالے سے، ٹیکس کے سلسلے میں چھوٹ یا رعایت دینے میں کسی بھی کمیونٹی کے خلاف کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوگا۔ آئین پاکستان میں درج بالا واضح آرٹیکلز کی موجودگی میں مزید کسی قانون کی گنجائش باقی نہیں بچتی۔
اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ اسلام دین حق اور عین دین فطرت ہے اور نبی کریمؐ کی ذات پر نازل ہونے والی کتاب قرآن مجید باقی آسمانی کتابوں میں سب سے زیادہ محفوظ اور ترامیم کے بغیر ہے۔ اگر دین اسلام کی حقانیت کو جاننے کے بعد کوئی غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہونا چاہے تو پاکستان کا آئین اور مذہب اسلام اس غیر مسلم فرد پر کوئی قدغن نہیں لگاتے بلکہ ایسے افراد کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اسلام کی تاریخ میں کم عمر افراد کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی بہت سی مثالیں ہیں۔ کم عمر افراد کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کو نبی کریمؐ نے نہ صرف قبول فرمایا بلکہ مسرت کا اظہار بھی فرمایا۔ ہمارے سامنے کم عمر افراد کے اسلام لانے کی سب سے بڑی مثال سیدنا علی کرم اللہ وجہؓ کی ہے۔ یہ بات بھی بر حق ہے کہ دین اسلام میں کوئی جبر نہیں ہے۔ اوراگر واقعی کوئی فرد زور زبردستی کسی فرد کو اس کا مذہب بدلنے کی کوشش کرے تو اس کو قرار واقعی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ بہرحال وزارت مذہبی امور کی جانب سے مجوزہ بل کو اعتراضات لگا کر واپس کرنا واقعی خوش آئند بات ہے۔ ورنہ اس بل کے پارلیمنٹ میں پیش ہونے کی صورت میں وطن عزیز میں سیاسی، سماجی اور مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آنے کا خطرہ لاحق تھا۔