امید کی ایک نئی کرن

689

افغانستان میں اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے بعد قائم کی جانے والی عبوری حکومت کے ذریعے طالبان نے کئی معاملات میں واضح موقف اختیار کرتے ہوئے دنیا کو یہ بتانا شروع کیا ہے کہ آئندہ ان کی باقاعدہ حکومت کن امور پر زیادہ توجہ دے گی اور انہیں کیسے لے کر چلے گی۔ ابھی تک ان کی طرف سے جو بیانات سامنے آئے ہیں وہ پاکستان کے لیے مثبت ہیں اور خطے میں موجود زیادہ تر ممالک طالبان کی حکومت کو افغانستان کی سابقہ حکومت سے بہتر سمجھ رہے ہیں۔ طالبان کے ان بیانات سے یہ بھی مترشح ہورہا ہے کہ وہ اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ چکے ہیں اور اب وہ ان امور پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں جو خطے میں افغانستان کو ایک ذمے دار ملک کے طور پر سامنے لائیں گے۔ طالبان کی عبوری حکومت نے اب تک جن معاملات میں دو ٹوک رائے دی ہے ان میں سے ایک مسئلہ کشمیر بھی ہے۔ بھارت پہلے ہی افغانستان میں امریکا کی طرف سے بٹھائے گئے کٹھ پتلی حکمرانوں کے جانے کی وجہ سے غم میں مبتلا تھا کیونکہ ان کے جانے سے بھارت کے افغانستان میں رہنے اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے امکانات ختم ہوگئے تھے، اب طالبان کے ایسے بیانات کی وجہ سے اس کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے اپنے ایک تازہ بیان میں افغان عبوری حکومت کے معاون وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم بند کرائے۔ کشمیر، میانمر اور فلسطینی بھائیوں کی سیاسی اور سفارتی حمایت کریں گے۔
طالبان کے کسی نمائندے کی طرف سے یہ اس نوعیت کا پہلا بیان نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی ان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر اور کشمیریوں کے حق میں بیانات جاری ہوتے رہے ہیں جن پر بھارتی میڈیا نے بہت شور مچایا۔ ایسے بیانات کے ردعمل میں بھارتی میڈیا جس بوکھلاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت پر ان بیانات کا کیا اثر ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک کھلا راز ہے کہ بھارتی میڈیا پوری طرح مودی سرکار کے اشاروں پر چلتا ہے اور میڈیا کی طرف سے جس بات کو اہم اور سنجیدہ ایشوز بنا کر پیش کیا جاتا ہے وہ درحقیقت حکومت کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے۔
طالبان کے مقبوضہ وادی اور اس کے مظلوم باسیوں کے حق میں بیانات ان کے اس عزم کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کے تحت وہ مسلسل یہ کہتے آئے ہیں کہ دنیا میں مسلمانوں پر جہاں بھی ظلم ہورہا ہے وہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔ ہماری سیاسی قیادت اور دفتر خارجہ کو طالبان کی طرف سے سامنے آنے والے ایسے بیانات کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔ یہ بیانات بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے موقف کو مضبوط کریں گے یوں وہ مقبوضہ کشمیر میں اپنی ان ظالمانہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو جائے گا جن کے تحت وہ گزشتہ 785 روز سے پوری وادی میں کرفیو نافذ کر کے کشمیریوں کے بنیادی حقوق غصب کیے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں، طالبان حکومت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کو اہمیت دینے سے یہ مسئلہ دنیا میں مزید اجاگر ہوگا اور بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کو اس بات کا احساس ہوگا کہ خطے میں مسئلہ کشمیر واقعی ایک ایسا ایشو ہے جس پر اگر سنجیدگی سے توجہ نہ دی گئی تو مستقبل میں یہ کچھ نئے مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔
پاکستان نے اقوام متحدہ کی 76 ویں جنرل اسمبلی کے موقع پر مقبوضہ کشمیر کے حق میں بھرپور آواز اٹھا کر دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ نہ تو پاکستان مظلوم کشمیریوں کا ساتھ چھوڑ سکتا ہے اور نہ ہی عالمی برادری کو اس مسئلے کے حل ہونے تک چین سے بیٹھنے دے گا۔ اس حوالے سے کئی دوست ممالک پاکستان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اب افغانستان میں بننے والی طالبان کی حکومت کے اس مسئلے حق میں بیان دینے سے اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگا جس سے بھارت کو اس بات کا احساس ہو جائے گا کہ کشمیری نہتے تو ہیں لیکن وہ اکیلے نہیں ہیں اور دنیا کے کئی ممالک پاکستان کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ 5 اگست 2019ء کو بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو کالعدم قرار دے کر اپنے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کی حیثیت ختم ہی اس لیے کی کیونکہ اسے اس بات کا یقین تھا کہ پاکستان اس مسئلے کو چاہے جتنا اجاگر کرلے، بین الاقوامی برادری اس سلسلے میں محض کھوکھلے بیانات جاری کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کرے گی اور اب تک ہوا بھی ایسا ہی ہے لیکن طالبان نے مقبوضہ وادی کے بارے میں جو واضح اور دو ٹوک موقف اختیار کیا ہے اس کے بعد ایک امید کی کرن پیدا ہوئی ہے کہ اس سے بھارت کی نیندیں اڑ جائیں گی۔