طالبان پر لایعنی مشوروں کی بارش

542

ایک مرتبہ پھر مشوروں کی بارش ہورہی ہے۔ شکر ہے کہ جماعت اسلامی کی جان چھوٹ گئی۔ ورنہ جماعت اسلامی ایسا کرے اور ویسا کرے۔ اسے سب کو ملا کر چلنا چاہیے قیادت بھی کسی اور کو دے دینی چاہیے جیسے مشورے مل رہے تھے وہ تو بھلا ہو طالبان کا کہ ان کی بدولت جہاں امریکا افغانستان سے نکلا وہیں جماعت اسلامی کے بجائے سارے مشورے طالبان کو دیے جانے لگے۔ ایک صاحب تو کمال کی حد تک پوری افغان طالبان حکومت کی پالیسی پیش کر گئے ان کے مشورے امارت اسلامیہ کی معاشی پالیسی کے عنوان سے آپ کے اخبار جسارت میں شائع ہوئے۔ پڑھ کر مزا آیا۔ طالبان کو یہ مشورے ضرور پڑھنے چاہئیں خواہ ان پر عمل کریں یا نہ کریں۔ کیونکہ داخلہ، خارجہ، معاشی، تعلیمی، سماجی، میڈیا، غرض ایک ہی آدمی نے ہر چیز پر مشوروں کی بھرمار کردی ہے۔ رویہ یہاں بھی وہی ہے مفروضوں پر مبنی ہے۔ پتا نہیں یہ مشورے عمران خان کو کیوں نہیں دیے گئے۔ لیکن طالبان ضرور حیران رہ جائیں گے کہ ’’ایسی چنگاری بھی اپنے خاکستر میں تھی…!!!‘‘ جو بیک وقت تمام شعبہ ہائے زندگی کے معاملات پر عبور رکھے اور اسے ایک تباہ حال ملک کو تمام دنیا کے مقابلے میں خود کفیل معیشت بنانی ہو۔ اور اس تحریر کے مطابق افغانستان پانچ سال میں خود کفالت کی منزل حاصل کرلے گا۔
اس تحریر میں صاحب تحریر نے مفروضوں اور تضادات سے بھرپور باتیں کی ہیں۔ ایک جانب طالبان عام معافی دے رہے ہیں اور دوسری جانب یہ صاحب ریاستی نوکر شاہی کے سابق حکمرانوں کے تمام اہلکاروں کو برطرف کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ گویا وہ چاہتے ہیں کہ طالبان کا عام معافی کا اعلان جھوٹا یا منافقانہ ثابت ہوجائے۔ ان کا مشورہ ہے کہ تمام میڈیا اداروں کو کالعدم قرار دے کر قومی نشریاتی ادارہ قائم کیا جائے۔ قومی نشریاتی ادارہ قائم کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن تمام میڈیا اداروں کو کالعدم قرار دینا بھی طالبان کا چہرہ بگاڑنے کے مترادف ہے۔
موصوف کے مشوروں میں سے ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ طالبان انگریزی کی تعلیم غیر قانونی قرار دے دیں۔ گویا اس الزام پر مہر تصدیق ثبت کردیں کہ طالبان تعلیم دشمن ہیں۔ ایک مشورہ دیا گیا ہے کہ ہر افغان کے لیے فوج میں شرکت لازمی قرار دی جائے۔ لیکن طالبان نے تو بغیر فوجی تربیت دنیا کی 45 ملکی فوج کو شکست دی ہے۔ ایک اور تجویز ہے کہ افغانی کرنسی کو ممنوع کردیا جائے۔ اسلامی دینار متعارف کرایا جائے۔ اور فوج کے ذریعے غیر افغان کرنسی کے استعمال کو روکا جائے۔ اب متضاد مشورہ آگیا کہ ایران کے ساتھ کرنسی یونین بنائی جائے۔ کیا یہ ممکن ہوگا۔ ایران پاکستانی تاجروں کو بینک سہولت نہیں دیتا۔ تو طالبان کو کرنسی یونین بنانے میں مددگار کیونکر ہوگا۔ انہوں نے صنعتی اشتراک کے لیے بھی ایران اور ترکی کا نام لیا ہے جب کہ ترکی کو وہ اسی سامراجی نظام کا حصہ سمجھتے ہیں جس سے طالبان نے جنگ جیتی ہے۔ ان کے مشوروں میں بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کو سرکاری تحویل میں لینے کی بھی تجویز ہے۔ پہلے انہوں نے صنعتی تعاون کے لیے ترکی کا نام لیا اور آگے چل کر لکھا ہے کہ ترکی اور پاکستان امریکی حلیف ہیں اور رہیں گے۔ ان کا معاملہ مشتبہ ہے، پھر مشتبہ ملکوں سے معاملات کا مشورہ
کیوں۔ کیا طالبان نے پانچ سال 1996ء سے 2001ء تک معیشت، صنعت، کاروبار، تجارت، تعلیم سب کچھ نہیں چلایا تھا؟ کسی پر پابندی نہیں لگائی تھی۔ اور کیا موصوف سے مشورے لیے تھے۔ طالبان کو مشورہ صرف ڈاکٹر صاحب نہیں دے رہے ہیں پاکستانی حکمران بھی دے رہے ہیں اور عالمی سامراج بھی دے رہا ہے ان سے لینے والے بھی دے رہے ہیں لیکن طالبان کو جو کرنا ہے وہ کریں گے۔ اگر ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری کے مشوروں پر عمل کرلیا گیا تو طالبان کی شکل یوں بنے گی۔ کہ یہ جھوٹے وعدے کرتے ہیں، یہ حقائق کی دنیا میں نہیں رہتے، طالبان اپنی قوم کو انگریزی سے دور رکھنا چاہتے ہیں، یہ میڈیا کی آواز دبانا چاہتے ہیں۔ عام معافی کا اعلان کرکے مکر جانے والے ہیں۔ افغان کرنسی جو پہلے سے متعارف ہے اور عالمی مارکیٹ کا حصہ ہے اسے ختم کرکے نئی کرنسی جاری کریں گے تو نقصان صرف افغان عوام کا ہوگا۔ پھر ان کی کرنسی صرف افغانستان میں چلے گی۔ اصل معاملہ تو یہ ہے کہ جب طالبان کا دبائو ہوگا ان کا رعب ہوگا تو ان کی کرنسی افغانی میں بھی کاروبار ہوگا اور ان کی شرائط پر ہوگا۔ غلام حکمران خواہ پاکستان کے ہوں یا کسی اور عرب ملک کے ان کی کرنسی کی قدر ہو ہی نہیں سکتی۔
سب سے زیادہ اہم بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب کی زیادہ تر باتیں مفروضوں پر مشتمل ہیں۔ اسلامی بلاک، مشترکہ کرنسی، ایران، ترکی، پاکستان، افغانستان کا تعاون وغیرہ اور متضاد بھی ہیں کہ جن ممالک سے تعاون کی بات کررہے ہیں ان ممالک کو مشتبہ بھی قرار دے رہے ہیں۔ ایک اسلامی ریاست میں بینک اور انشورنس کمپنیوں کے بارے میں انہوں نے یہ نہیں کہا کہ انہیں ختم کردیا جائے۔ بلکہ حکومتی تحویل میں لینے کی بات کی ہے۔ کیا حکومت اسلامک بینکنگ اور اسلامک انشورنس کرے گی۔ پھر اس کے بارے میں بھی مشورے دے دیئے کہ اسلامک بینکنگ کیسے کی جائے اس سارے عمل میں سب سے زیادہ امن وامان میں آج کل جماعت اسلامی ہے ورنہ اسے تو پوری تنظیم کا ڈھانچہ بدلنے سے لے کر جدوجہد کا طرز اور ہر کس و ناکس کو ساتھ لے کر چلنے کا مشورہ اور اس کو لیڈر بنانے کا مشورہ دیا جارہا تھا۔ جیسا کہ پہلے خادم رضوی صاحب کو ساتھ چلانے اور مولانا فضل الرحمن کو قیادت دے کر جماعت اسلامی پچھلی صف میں جا بیٹھے۔ ڈاکٹر صاحب کے علم میں ہوگا کہ مفتی محمود اور مولانا فضل الرحمن میں بہت بڑا فرق ہے۔ اور جماعت اسلامی یہ کام برسوں کرچکی ہے لیکن شکر ہے اب ان کے مشوروں کا رخ تبدیل ہوگیا ہے اور طالبان کو مشورے دینے لگے ہیں۔ اس میں بڑی زبردست بات ہے کہ طالبان ان کے مشورے پڑھیں گے ہی نہیں اور پڑھیں گے تو عمل نہیں کریں گے۔ ان کا اپنا مشاورت کا نظام ہے اور جو لوگ ان کی مشاورت میں ہیں وہ محض چند کتابوں کا مطالعہ کرنے والے نہیں گہری تحقیق اور علمی کاوشیں کرنے والے لوگ ہیں۔ برسہا برس خود تعلیم دینے والے لوگ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے طالبان تحریک کی تاریخ کے بارے میں بھی خلط ملط کردیا ہے لیکن ایسا ہوجاتا ہے۔ اگر ان کے مشوروں پر عمل کیا جائے تو زیادہ دن نہیں لگیں گے کہ دنیا کو پھر یہ یقین دلا دیا جائے گا کہ افغانستان میں وحشی لوگ آگئے ہیں۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ خاموش رہا جائے طالبان کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔ 20 برس میں تو طالبان کی حمایت میں کہیں سے ایک لفظ سنائی نہیں دیتا تھا۔ اب فتح کے بعد مشوروں کی بارش ہے۔