سید مودودی ؒ اور جانثارئ رسول ﷺ

166

سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان

محبت رسول ؐ اور حرمت رسول ؐ سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی فکر کا ایک اہم امتیاز ہے ۔انہوں نے اس معاملے میں نہ صرف علمی اور عملی بلکہ سیاسی ،آئینی اور قانونی مورچوں پر زبردست کام کیا ہے ۔ مولانا مودودی ؒ کے اس پورے کارنامے کو سمجھنا ہوتو ان کی محبت و اطاعت اور حرمت رسول ﷺ کے بارے میں جو فکر ہے وہ ان کی بے شمار کتابوں میںبکھری پڑی ہے ۔سیرت سرور عالم ﷺ تین جلدوں پر مشتمل کتاب کے علاوہ جگہ جگہ ان کی یہ محبت اور عقیدت سے بھری کتابیں ہمیں پڑھنے کو ملتی ہیں ۔ سید ابوالاعلی مودودی ؒ اس معاملے میں کس قدر حساس تھے اس کا اندازہ آپ اس واقعہ سے کرسکتے ہیں کہ 1926میں جب سید ؒ کی عمر محض 23برس تھی تو ہندوستان میں پنڈت کالی چرن شرما نے ایک کتاب لکھی جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ۔اس کتاب میں لکھا گیا تھا کہ’’ حضر ت محمد ﷺ نے نعوذ باللہ اسلام تلوار کی نوک پر پھیلایا‘‘ اس پر پورے ہندوستان میں احتجاج ہوااور بالا ٓخر انگریز حکومت کا اعلان کرنا پڑا کہ ہم اس مصنف پر مقدمہ قائم کریں گے ۔عدالتی کاروائی آگرہ میں شروع ہوئی۔سید ابوا لاعلیٰ مودودی ؒ نے اس عدالتی کاروائی میں حصہ لیا۔وہ خود اس عدالت کے اندر پہنچے اور شہادت دی اور جب انہوں نے وہاں پورا ماحول دیکھا کہ حکومت کی نیت کچھ بھی ہو لیکن عدالت کے اندر اس پنڈت کے وکلاء عدالتی اہلکاروں کے ساتھ (جو ہندوتھے اور اس مقدمہ میں سرکار کاجو وکیل مقرر کیا گیا تھا وہ بھی ہندو تھا )یہ سب ساز باز کرکے عدالت کو کنفیوژ کرچکے تھے ،یوں لگتا تھا کہ عدالت پنڈت کالی چرن شرما کے اوپر مقدمہ کرنے کی بجائے نعوذ با اللہ نبی مہربان حضرت محمد ﷺکے خلاف سوالات اٹھانے کی کوشش کررہی ہے ۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ سخت دل گرفتہ ہوئے اور انہوں نے اپنے خط میں اس پوری کیفیت کا اظہار کیا۔یہ خط حالیہ دنوں مولانا غلام رسول مہر ؒ صاحب کے ذاتی مکتبہ سے ان کے بیٹے نے ہمیں فراہم کیا ہے ۔مولانا ؒنے اس عدالتی کاروائی کا تجزیہ کرتے ہوئے اس خط میں لکھا ہے کہ۔
’’اس حالت کا علاج اس کے سوا میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ہم توہین عدالت کے قانون سے بالکل بے خوف ہو کرصفائی کے ساتھ عدالت کے اس طرز عمل کے خلاف احتجاج کریں‘‘۔انگریز کی حکمرانی اورہندو اکثریت کی بالادستی !مگر سید مودودیؒ کسی چیز سے خائف ہوئے بغیر عدالت کے خلاف احتجاج کی بات کرتے ہیں اور آگے مزید لکھتے ہیں’’ صاف صاف اعلان کردیں کہ اگر اس بیہودہ طرز عمل کی اصلاح نہ کی گئی تو نہ کوئی مسلمان گواہی دینے کیلئے تیار ہوگا اور نہ اخبارات میں اس عدالت کو نکتہ چینی سے بالا تر سمجھیں گے ۔ ایک متفقہ آواز سے حکومت پر اثر ڈالنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ضرورت ہے کہ اس معاملے پر جلد سے جلد آواز بلند کی جائے ۔‘‘
جیسے میں نے عرض کیا کہ سید مودودی ؒ اس عدالتی کاروائی سے دل گرفتہ ہوئے اور پھر انہوں نے ایک سال کے مختصر عرصہ میں ہی اس پنڈت کے مقابلے میں’’ الجہاد فی الاسلام‘‘کے نام سے ایک کتاب لکھی۔جو اعتراضات اٹھائے گئے تھے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے اور سیرت محمد ﷺ پر جس طرح کی گفتگو عدالت میں کی گئی تھی ایک برس کے اندر انہوں نے ایک معرکۃ الآرا کتاب لکھی جبکہ اس وقت ان کی عمر 24برس تھی ۔یہ کتاب جس کی تعریف نہ صرف اس دور کے تمام اکابر اہل علم نے کی بلکہ خود حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ نے اس کی تحسین کی۔
مولاناسید مودودیؒکا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے پاکستان کے اندر ان تمام لوگوں کا توڑ کیا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ احادیث اور سنت رسول ﷺ قابل تقلید نہیں ہے اور احادیث ہمارے اجتماعی معاملات کے لئے قابل عمل نہیں ہیں اور بس قرآن ہی ہمارے لئے کافی ہے ۔سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نے’’ سنت کی آئینی حیثیت ‘‘ لکھ کر ان تمام لوگوں کو منہ توڑ جواب دیا اور بالکل دو ٹوک طریقے سے واضح کردیا کہ سنت صرف ایک شخص ہی کیلئے نہیں بلکہ ایک قوم ایک ملک اورآئین کیلئے بھی ایک ایسی حیثیت رکھتی ہے کہ جس کے خلاف ہم کوئی اور قانون سازی نہیں کرسکتے ۔اس کے ساتھ ساتھ قدرت کو مولانا مودودیؒ کا ابھی ایک اور امتحان بھی مقصود تھااور وہ امتحان جانثاری رسول ﷺ کا تھا کہ وہ کس طرح سے فدا کاری کا نمونہ اور ثبوت فراہم کرتے ہیں۔یہ 28مارچ 1953کی بات ہے جس سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کو گرفتار کیا گیا ۔مولانا ایک ماہ اور سات دن لاہور کے شاہی قلعہ میںقید رہے اور انہیں تفتیش کے عمل سے گزارا گیا۔3مئی کو جب گورنر جنرل غلام محمد لاہور پہنچے تو حکومت نے اعلان کیاکہ مولانا مودودی ؒپر قادیانی مسئلہ لکھنے کی پاداش میں مقدمہ چلایا جائے گا۔قادیا نی مسئلہ اور قادیانی پرابلم،اردو اور انگریزی میں تحریر کئے گئے مولانا ؒ کے وہ دو کتابچے جن پر فوجی عدالت نے ایک چارج شیٹ دیتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ قائم کردیا ۔میجر شوکت سلطان نے اس کتاب کے حوالے سے فرد جرم پیش کی اور مولانا ؒ کے خلاف چالان جمع کروا دیا گیا۔ یہ مقدمہ 5مئی سے 9مئی تک گویا صرف چار دن چلااورپھر مقدمہ کی کاروائی ختم کردی گئی۔11مئی کو اس فوجی عدالت کے سربراہ میجر اے جیلانی نے کیمپ جیل میں پہنچ کر مولانا مودودیؒ کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں موت کی سزا سنائی ۔ان کے دیگر ساتھی جو اس جیل میں موجود تھے۔ اس کتابچے کے پرنٹراور ناشرین کوبھی قید و بند کی سزائیں سنائی گئیں۔سزا سناتے وقت اس میجر نے بڑی رعونت کے ساتھ کہا کہ اگر چہ فوجی عدالت کی سزائوں کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہوسکتی لیکن مولانا مودودیؒ کو سات دن کی مہلت دی جاسکتی ہے کہ وہ کمانڈر انچیف سے رحم کی اپیل کرسکتے ہیں۔مولانا مودودیؒ نے اس میجر کی طرف دیکھتے یہ تاریخی الفاظ کہے کہ’’مجھے کسی سے کوئی رحم کی اپیل نہیں کرنی ،میں یہ سمجھتا ہوں کہ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں،آسمان پر ہوتے ہیں ،اگر آسمان پر میری موت کا فیصلہ ہوچکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے زندہ نہیں رکھ سکتی ،اور اگر آسمان پر میری موت کا فیصلہ ابھی نہیں ہواتو یہ الٹے بھی لٹک جائیں میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے ۔‘‘یہ تھا ان کا ایمان اور اعتقاد!
دنیا بھر میں احتجاج ہوا جس کے بعد مولانا مودودیؒ کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیااور پھر کچھ عرصہ بعد مارشل کے خاتمہ کے ساتھ ہی مولانا مودودیؒ بھی رہا ہوگئے ۔
قومی تاریخ کے اندر 29مئی 1974کا وہ واقعہ بھی یاد آتا ہے کہ جب ربوہ ریلوے اسٹیشن پر مولانا مودودیؒ کی فکر سے متاثر اور وابستہ اسلامی جمعیت طلباکے نوجوانوں نے ختم نبوت کے نعرے بلند کئے تو قادیانیوں نے ریل کے اس ڈبے پر خونخوار غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا۔لوگ زخمی ہوئے ،جمعیت کے کارکنا ن ارباب عالم اور طاہر نعیم ہسپتالوں اور گھروں میں جانے کی بجائے تعلیمی افق پر چھا گئے ۔جمعیت کے ناظم اعلیٰ ظفر جمال بلوچ ،پنجاب یونیورسٹی طلبایونین کے صدر جاوید ہاشمی ،فرید احمد پراچہ ،لیاقت بلوچ ،محمدانور گوندل اور ان کے دیگر بہت سے ساتھی ،جنہوں نے ربوہ ریلوے اسٹیشن پر قادیانیوں کی اس غنڈہ گردی کے خلاف ملک گیر تحریک کا آغاز کیا۔جلسے جلوس اور احتجاج ہوئے ۔تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کیا گیا۔پورے ملک میں ہڑتالیں ہوئیں اور کاروبار بند رہے ۔پہیہ بند ہڑتالیں ہوئیں۔اس طرح پورے ملک میں وہ تحریک شروع ہوگئی جس میں مسجد اور منبر و محراب کی قیادت بھی شامل ہوگئی جس سے یہ ایک عوامی تحریک بن گئی۔قومی اسمبلی میں اس کی گونج پہنچی اور بالآخر قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردیا ۔