کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد میں کامیابی سوالیہ نشان ہے؟ – میاں منیر احمد

348

ملک بھر کے 41کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کا غیر حتمی اور غیر سرکاری نتیجہ سامنے آگیا ہے۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) جو چاہے کرشمہ سازی کریں، کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں آزاد امیدواروں کی کامیابی سیاسی جماعتوں سے بیزاری کی علامت سمجھی جارہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) دعویٰ کر رہی ہے کہ اس نے پنجاب میں میدا ن مار لیا، اور تحریک انصاف ڈھول پیٹ رہی ہے کہ کے پی کے اس کے ہاتھ میں رہا۔ یہ دونوں دعوے آزاد امیدواروں کی کامیابی کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ آزاد امیدواروں کے حوالے سے تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے بیشترتحریک انصاف سے تعلق رکھتے ہیں، انہیں چونکہ ٹکٹ نہیں ملا تھا اس لیے وہ آزاد کھڑے ہوگئے تھے۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ تحریک انصاف کے پارلیمانی بورڈز کے ارکان کی سیاسی بصیرت اور سوجھ بوجھ پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ ان کاہاتھ نبض پر نہیں ہے اور وہ بہتر امیدوار کی پہچان ہی نہیں کر سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو امیدوار پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کے باوجود الیکشن لڑتا ہے وہ ہارے یا جیتے، پارٹی کے لیے کوئی اثاثہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ ایسا پنچھی ہوتا ہے جو موسم اور ہوا کا رخ دیکھ کر کسی بھی چھتری پر بیٹھ سکتا ہے۔ یہ انتخابات اس لحاظ سے بھی اہمیت کے حامل تھے کہ تحریک انصاف اپنا تین سالہ پارلیمانی جشن منارہی تھی اور دعویٰ تھا کہ ملک میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ یہ انتخابات اپوزیشن جماعتوں کی عوام میں مقبولیت اور تحریک انصاف کی تین سالہ کارکردگی کا سیاسی حاصل بھی تھے، لہٰذا ان سب نے نتیجہ بھی دیکھ لیا۔ کنٹونمنٹ بورڈ، چھاؤنیوں میں بلدیاتی اداروں کا متبادل ہیں۔ یوں انہیںمنی بلدیاتی انتخابات بھی کہا جا سکتا ہے جس سے ووٹرزکا رجحان سامنے آیا ہے۔ یہ رجحان ابھی بھی اصل نہیں ہے۔

ہمارے ملک میں انتخابات کی شفافیت پر ہمیشہ سوال اٹھتے رہے ہیں، اور یہ سوالات بلا جواز بھی نہیں ہیں۔ کنٹونمنٹ بورڈ کے حالیہ انتخابات کے دوران بھی یہ خدشات رہے کہ شاید پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے کرکے ووٹ ڈلوائے جائیں، تاہم بہترین نگرانی کے باعث ملک بھر میں انتخابات پُرامن رہے۔ الیکشن کمیشن نے بجا طور پر نگرانی پر مامور عملے اور سیکورٹی فورسز کی تعریف کی ہے۔ باقی رہ گئی بات سیاسی جماعتوں کے اپنے تجزیوں کی… تو ہر سیاسی جماعت اب ان نتائج پر چوکس ہوکر تجزیہ کرے گی، اور کرنا بھی چاہیے۔

ان انتخابات کے نتائج سے فی الحال تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ خیبر پختون خوا تاحال تحریک انصاف کے سحر میں گرفتار ہے، اور پنجاب ابھی تک مسلم لیگ (ن) کے لیے اپنی محبت کم نہیں کرسکا۔ تحریک انصاف حکومت میں ہے، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس حکومت نے کچھ نہ کچھ اچھے کام ضرور کیے ہوں گے، لیکن پشاور کنٹونمنٹ سے آنے والا نتیجہ تحریک انصاف کے لیے لمحۂ فکر ہے۔ یہ پوش علاقہ کیونکر تحریک انصاف کے حلقۂ اثر سے نکل گیا، اس کا تجزیہ بہت ضروری ہے، اور مسلم لیگ(ن) کو بھی دیکھنا ہے کہ بلوچستان میں اسے کوئی کامیابی نہیں ملی، اور یہی حال تحریک انصاف کا ہے۔ یہاں سب سے زیادہ آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ نتیجہ بھی بلوچستان کے سیاسی مزاج کے عین مطابق ہے جہاں علاقائی جماعتیں مل کر حکومت بناتی ہیں اور وفاق کی حکمران جماعت اُن کے ساتھ شاملِ باجا ہوتی ہے۔ اس وقت بھی بلوچستان کی حکومت میں مقامی جماعتوں کی اکثریت ہے، اور تحریک انصاف کی نمائندگی محض اس لیے ہے کہ یہ وفاق میں حکمران ہے۔

ملک بھر کے 41کنٹونمنٹ بورڈز کے 218 وارڈز میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کی قوت تقریباً وہی ہے جو 2018ء کے انتخابات کے وقت تھی۔ ان کے ووٹ بینک میں کوئی بڑی کمی بیشی واقع نہیں ہوئی۔ یہ زمینی حقائق سروے کرنے والے اداروں کے بتائے ہوئے نتائج پر بھی بہت بڑا سوال کھڑا کر گئے ہیں جو بتاتے رہے ہیں کہ فلاں مقبول ہوگیا اور فلاں غیر مقبول۔ یہ انتخابی نتائج اس بات کا پتا دے رہے ہیں کہ حکمران پارٹی کو اپنے ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں کا کوئی بڑا فائدہ پہنچا، نہ اپوزیشن کو حکومتی الزامات اور مقدمات کا زیادہ نقصان ہوا۔ کنٹونمنٹ انتخابات میں مجموعی طور پر تحریک انصاف کے 63، مسلم لیگ (ن) کے 59، جبکہ پیپلز پارٹی کے 17امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی نے کراچی اور راولپنڈی میں بہترین کم بیک کیا، اور اسے 7 نشستیں ملی ہیں۔

لیکن جس طرح پیپلزپارٹی دعویٰ کررہی ہے کہ وہ انتخابات جیت جائے گی اور وفاق میں حکومت بنائے گی، اس کی قیادت آج کل پنجاب فتح کرنے نکلی ہوئی ہے، اسے سوچنا ہے کہ وہ اصل میں کہاں کھڑی ہے، اور کس قیمت پر عوام سے وفاق مانگ رہی ہے! پنجاب میں تو مسلم لیگ(ن) فتح مند ہوئی ہے، اور 113میں سے 51 نشستوں کے ساتھ وہ پہلا نمبر حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے، اور تحریک انصاف اقتدار میں ہونے کے باوجود آزاد امیدواروں سے بھی نیچے ہے اور اسے 28 نشستیں ملی ہیں، جس کا یہ مطلب بھی لیا جا سکتا ہے کہ بڑی پارٹیوں پر اعتماد کی کمی کی وجہ سے ووٹروں نے اپنی نمائندگی کے لیے ایسا آپشن اختیار کیا ہے جس کا کسی پارٹی سے بظاہر کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر جگہ مقابلے کانٹے دار ہوئے، کئی جگہوں پر ہار جیت کا فیصلہ ووٹوں کی معمولی تعداد سے ہوا۔ تحریک انصاف خیبر پختون خوا میں بازی لے گئی مگر سندھ میں اس کے کامیاب امیدواروں کی تعداد پیپلزپارٹی کے جیتنے والے امیدواروں کے مساوی ہے، ہاں یہ ضرور ہوا کہ چاروں صوبوں سے تحریک انصاف کو ووٹ ملے ہیں، مگر وفاق اور صوبے کی حکمران پارٹی ہونے کی وجہ سے پنجاب میں اس کی ناکامی سوالیہ نشان ہے۔ اسے دیکھنا ہوگا کہ یہ ناکامی صوبائی حکومت کے کھاتے میں ڈالنی چاہیے یا پارٹی کی مجموعی پالیسیوں کے پلڑے میں؟ اگرچہ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابی نتائج قومی انتخابات پر منطبق نہیں کیے جا سکتے، مگر ووٹروں کے عمومی رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ووٹ بینک کے اعتبار سے وہ کہاں کھڑی ہیں۔ انہیں اپنے اپنے منشور اور پالیسیوں کو عوامی خواہشات کا آئینہ دار بنانے کے لیے مزید سوچ بچار کرنی چاہیے اور رائے عامہ کو مثبت انداز میں اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے مزید محنت کرنی چاہیے۔ کوئی تسلیم کرے نہ کرے کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کے نتائج نے تحریک انصاف کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اس کی گورننس مایوس کن ہے، ثابت ہوگیا ہے کہ یہ بھی تبدیلی نہیں بلکہ ’سپر اسٹیٹس کو‘ کی حامی جماعت ہے۔ تحریک انصاف حکومت میں ہے اور مزید پانچ سال مانگ رہی ہے، مگر انتخابی نتائج نے اس کے پہلے تین سالوں کا حساب اس کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔