کووڈ 19 کی مصیبت حکمرانوں کی راحت

531

 

پاکستان کے حکمرانوں کے حال پر جس قدر افسوس کیا جانا تھا وہ تو کیا جاچکا۔ لوگ ماتم احتجاج، ہنگامے، عدالت کے چکر، اخبارات کے صفحات ہر جگہ چلے گئے، سوشل میڈیا استعمال کرلیا لیکن ڈھٹائی ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔ بے غیرتی کی حدوں کو عبور کرچکی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے حکمران مال و دولت لوٹنے کے لیے حوادث کے منتظر رہتے ہیں۔ اگر سابقہ مشرقی پاکستان سے شروع کریں تو جوں ہی سیلاب آتا فلڈ ریلیف فنڈ قائم کردیا جاتا۔ سینما کے ٹکٹ، ریل اور جہاز کے ٹکٹ پر تفریحی ٹکٹ پر فلڈ ریلیف فنڈ وصول کیا جاتا تھا۔ بہت ساری آسائشوں کی درآمد پر بھی یہ ٹیکس وصول کیا جاتا، بڑے ہوٹلوں کے بل میں بھی یہ رقم درج ہوتی تھی۔ لیکن مشرقی پاکستان کے لوگوں کو اس سے کوئی ریلیف نہیں ملتی تھی۔ معاملہ مشرق و مغرب کا نہیں ہے بلکہ مغربی پاکستان میں بھی کوئی حادثہ ہوجائے، خدائی آفت آجائے تو حکمرانوں میں پھرتی آجاتی ہے۔ فوراً بیرونی امداد کے مطالبات ہونے لگتے ہیں اور امداد ملنا بھی شروع ہوجاتی ہے۔ پھر یہ امداد کہیں غائب ہوجاتی ہے۔ پاکستان کے 2005ء کے زلزلے کے نام پر بڑی لوٹ مار کی گئی۔ یہ زلزلہ شاید مشرقی پاکستان کے سیلابوں اور 1977ء کے مغربی یا باقی پاکستان (جو بھٹو کا نیا پاکستان تھا) کے سیلابوں سے زیادہ بڑی آفت ثابت ہوا لیکن اس زلزلے سے حکمرانوں نے بلیسنگ اِن ڈس گائس کا اپنا ترجمہ کیا۔یعنی مصیبت میں راحت۔ یہ ترجمہ اسی طرح ہے جس طرح سرکاری افسران نے قائد اعظم کے فرمان سے اخذ کرکے خوب ترقی کی تھی۔ قائد نے سرکاری افسران سے خطاب میں کہا تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی چیز آپ کا ضمیر ہے۔ چناں چہ سرکاری افسران نے خوب کمائی کی ضمیر ہی بیچ ڈالا۔ اس طرح پاکستانی حکمرانوں نے ہر خرابی میں کمائی کا گُر ڈھونڈ لیا بلکہ اس کو دھندا بنا لیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ طویل دھندا کووڈ 19 کے نام پر چل رہا ہے۔ یہ بیماری پوری دنیا میں ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پوری دنیا کے دھندے باز اس بیماری سے اپنا دھندا چلا رہے ہیں تو پاکستانی کیوں پیچھے رہ جائیں۔ دنیا نے ویکسین، سینی ٹائزر، وینٹی لیٹر، آکسیجن، اور اب بوسٹر کے نام پر ہر پہلو سے کمائی کی ہے۔ اربوں روپے کے ماسک بنے اور فروخت ہوئے اور یہ دھندا جاری ہے۔ اس میں تو کچھ خرچ بھی ہوتا ہے لہٰذا یہ صرف دھندا نہیں ہے خدمات فراہم کی جارہی ہیں۔ لیکن لاک ڈائون کا کھیل سب سے زیادہ منافع بخش دھندا ثابت ہوا۔ اس کھیل کے ذریعے سندھ کی حکومت نے خاص طور پر اپنے ہی ملک کے عوام پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔ یہ الگ بحث ہے کہ کورونا سے کتنے لوگ مرے لیکن لاک ڈائون سے کراچی و حیدرآباد کے متوسط اور غریب طبقے کی معاشی موت واقع ہوگئی۔ لاک ڈائون کا کھیل یوں کھیلا جاتا ہے کہ ایک روز اچانک اعلان ہوتا ہے کہ فلاں فلاں علاقے خطرناک ہیں اور یہ علاقے بند کردیے جاتے ہیں۔ ان علاقوں میں دکانیں پھر بھی کھلی ہوتی ہیں۔ شام چھ بجے بند کرنے کا حکم ہوتا ہے لیکن رات 11 بجے تک کھلی رہتی ہیں۔ ٹھیلوں پر بن کباب، چھولے، جوس وغیرہ لائٹ مدھم کرکے فروخت کیے جاتے ہیں۔ پان والے سے پوچھا کیا بات ہے بلب پر لال کپڑا کیوں باندھ رکھا ہے۔ کیا پروانے آتے ہیں۔ جل کر بولا جی نہیں پولیس والے آتے ہیں۔ ابھی اتنی ہی بات ہوئی تھی کہ سائرن بجا دو جوان پولیس موبائل سے کود کر آگے آئے۔ ایک نے سگریٹ اور دوسرے نے چھالیہ وصول کی اور صاحب کے لیے سو روپے کا نوٹ۔ ان کے جانے پر ہم نے پوچھا کیوں بھائی یہ کیا تھا۔ غصے میں کہنے لگا۔ ہفتہ لے گئے ہیں پھر بھی رات کو الگ سے آجاتے ہیں۔ پھل والے سے پوچھا کہ تم کیسے پھل بیچ رہے ہو۔ اس نے بتایا کہ لاک ڈائون تو ہے لیکن ہر ٹھیلے والا 5 ہزار روپے فی ہفتہ دیتا ہے۔ اس لیے کوئی نہیں پوچھتا۔ جس علاقے کا ذکر ہے وہاں کم و بیش 100 ٹھیلے لگتے ہیں۔ گویا 5 لاکھ روپے فی ہفتہ صرف ایک چھوٹے سے علاقے سے وصول ہوتے ہیں تو کیا یہ صرف مقامی پولیس وصول کرتی ہے۔ اس کے بارے میں ایک پولیس والے کو اعتماد میں لیا اور پوچھا کہ اتنے پیسے کیوں لیتے ہو غریبوں سے۔ تو ہنس کر کہنے لگا ہم اپنے لیے تھوڑی لیتے ہیں یہ ہماری ڈیوٹی ہے، ان سے وصول کرکے صاحب تک پہنچانا۔ وہاں سے اوپر اور وہاں سے اور اوپر تک یہ پیسہ جاتا ہے۔ ہم تو بیچ میں سے ہزار پانچ سو مار لیتے ہیں ورنہ صاحب لوگوں کو پتا ہے کس علاقے میں کتنے ٹھیلے، کتنی دکانیں ہیں اور جناب ریٹ بھی فکس ہے۔ پیسے کم ملے تو پورے کرکے دو زیادہ وصول کرلیے تو آپ کے۔اس کے نتیجے میں پھل سبزی مہنگی ہو گئی تو بوجھ عوام پر۔ کووڈجو ہے۔
اچھا یہ تو کوئی کروڑہا بلکہ اربوں روپے بن جاتے ہیں لیکن ٹہریںکووڈ 19 کی مصیبت میں جو راحت ہمارے حکمرانوں کو ملی ہے اس کا سلسلہ بہت دور تک جاتا ہے۔ جیسا کہ زلزلے سے فوائد کا سلسلہ اور فیض جاری ہوا تھا۔ بین الاقوامی امداد کے خیمے، بہترین پنکھے، خوراک، مکھن، دودھ، دوائیں، کمبل، کپڑے سب وصول تو ہوئے لیکن متاثرین کو ایدھی، الخدمت اور دیگر این جی اوز کے حوالے کردیا اور این جی اوز میں کمائی کا دھندا کرنے والی بھی ہوتی ہیں۔ چناں چہ اس مصیبت سے بھی لوگوں نے خوب راحت سمیٹی۔ بڑا مرحلہ تو یہ ہوا کہ شاپنگ سینٹرز، فیکٹریاں، بازار وغیرہ بند کردیے گئے۔ یہ شکایت تو اخباروں میں بھی شائع ہوچکی کہ ایک ایک فیکٹری کھولنے کے لیے پچیس لاکھ روپے تک وصول کیے گئے۔ کراچی میں کتنی فیکٹریاں ہیں، اس سے اندازہ لگالیں کووڈ 19 کی مصیبت کی کتنی راحت حکمرانوں تک پہنچی ہوگی۔ عین رمضان میں، عیدالفطر کے قریب، عیدالاضحیٰ میں، ہر اہم موقع پر لاک ڈائون سخت اور لوگ منتیں کرتے رہے کہ بھائی کچھ کاروبار کرنے دو، لیکن مصیبت سے راحت کشید کرنے والوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ وہ اپنا دھندا جاری رکھے رہے۔ فیکٹریوں اور شاپنگ سینٹرز ہی کا حساب نہیں کیا جاسکتا۔ اگر فکس ریٹ پتا چل جائے تو کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ رقم اندازاً کراچی پیکیج کے لگ بھگ ہوجائے گی۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ دو نمبر دھندے میں ایمانداری سے رقوم تقسیم کی جاتی ہے۔ فکس ریٹ اور اہداف کو سامنے رکھ کر جمع تفریق کرکے حصے داروں کو ایمانداری سے رقوم ملتی ہیں۔ اور جو لوگ سرکار کو مصیبت میں راحت کے حصول میں مدد نہیں دیتے ان کے ساتھ تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ تاجر، اسکول والے، دکاندار، شاپنگ سینٹر والے سب دودھ کے دھلے ہوئے تو ہوتے نہیں ہر ایک کی کمزوریاں سرکار کے پاس ہوتی ہیں۔ ورنہ کسی بھی فیکٹری میں حادثہ تو کسی بھی وقت ہوسکتا ہے، آگ لگ سکتی ہے، کوئی خرابی پیدا ہوسکتی ہے، یہ سب تو کسی کی راحت میں رکاوٹ بننے کی مصیبت کا حصہ ہیں۔
(جاری ہے)