‘میرے لیے 9/11 جیل میں ضائع شدہ 15 سالوں کی ایک یاد دہانی ہے’

526

شمالی عراق کا کرد علاقہ، چمچمال کے رہنے والے یاسین ایم عارف کے لیے 9/11 کے حملوں کی 20 ویں برسی امریکی جیل میں ضائع ہوئے 15 سالوں کی ایک یاد دہانی ہے۔

51 سالہ عارف ، ایک کرد ہیں اور نیویارک ریاست کے دارالحکومت البانی میں مسجد السلام کے سابق رہنما بھی ہیں۔ 2004 میں ایف بی آئی کی جانب سے ایک ’’ اسٹنگ آپریشن ‘‘ شروع کیا گیا جس کے تحت عارف کو خفیہ شواہد کی بنیاد پر دہشت گردی میں معاونت کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

عارف 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد اسلامو فوبیا اور مغربی دنیا کے نفرت انگیز رویوں کا شکار ہونے والے مسلمانوں میں سے ایک ہیں۔ اس حملے میں تقریبا 3،000 افراد ہلاک ہوئے تھے جسے بعد میں جارج ڈبلیو بش انتظامیہ نے افغانستان اور عراق پر حملہ کرنے کا بہانہ بنایا۔

2004 کی گرفتاری کے بعد عارف کو 2019 میں ٹھوس ثبوت نہ ہونے کے باعث رہائی ملی۔ اور انہیں شمالی عراق کے کرد علاقے میں جلاوطن کیا گیا۔ الجزیرہ نے عارف کے ساتھ صوبہ سلیمانیہ کے مغرب میں گارمیان کے علاقے چمچمال میں ان کے چھوٹے سے گھر میں بات کی۔ عارف اور ان کی بیوی ظہور ایک ساتھ رہتے ہیں جبکہ ان کے چار بچے ، دو لڑکے اور دو لڑکیاں امریکہ میں زیرِ تعلیم ہیں۔

انہوں نے 1000 سے زائد صفحات پر مشتمل اپنی کتاب ‘Son of Mountains’ (پہاڑوں کا بیٹا) بھی شائع کی جس میں انہوں نے اپنی گرفتاری، جیل کے حالات اور اس حوالے سے تفصیلات تحریر کی ہیں۔ یہ کتاب انہوں نے اپنی زبان کردش میں تحریر کی تھی جس کا انگریزی ترجمہ 2008 میں امریکہ میں شائع ہوا۔

عارف کہتے ہیں، “میں 34 سال کا تھا جب مجھے گرفتار کیا گیا اور 49 سال کی عمر میں مجھے جیل سے رہائی ملی۔ ان 15 سالوں کے دوران جو میں نے جیل میں گزارے ، میں نے زندگی کے تمام مقاصد کو کھودیا ہے جس میں پی ایچ ڈی مکمل کرنا اور خود کو ثقافتی اور مالی طور پر مضبوط کرنا شامل ہے۔”