ملک میں مسلح نہیں نظریاتی دہشت گردی ہے ،عوام کویرغمال بنالیا گیا،سراج الحق

243
مٹیاری: امیر جماعت اسلامی سراج الحق، پیر غلام مجدد سرہندی کی جماعت اسلامی میں شمولیت کے موقع پر جلسے سے خطاب کررہے ہیں‘ چھوٹی تصویر میں امیر جماعت پیرغلام مجدد سرہندی کو جماعت اسلامی کا پرچم اوڑھارہے ہیں

حیدر آباد/ مٹیاری (نمائندہ جسارت+ مانیٹرنگ ڈیسک)جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ ملک میں مسلح نہیں بلکہ نظریاتی ، سیاسی اور اخلاقی دہشت گردی ہے، 22کروڑ عوام کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ اس وقت مظلوم کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں سب مظلوموں کی صف میں کھڑے ہیں۔حیدرآباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سراج الحق نے کہاکہ اس ملک میں آمریت ہے جمہوریت نہیں ، چند خاندانوں کی بادشاہت ہے،مارشل لاہو یا جمہوریت یہ ہمیشہ اقتدار میں رہتے ہیں۔ ملک میں چند خاندان ہیں جنہوں نے ماضی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا ساتھ دیا تھا اس کے بعد انگریزوں نے حکومت قائم کی تو یہ ان کے ساتھ مل گئے اور اب بھی انہوں نے اس نظام کو سینے سے لگایا ہواہے۔ ان ہی کی بداعمالیوں کی وجہ سے ملک دولخت ہوا اور اب بھی یہی اس ملک کو تباہ کررہے ہیں۔بعد ازاں امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے مٹیاری میں پیر غلام مجدد سرہندی کی جماعت اسلامی میں شمولیت کے موقع پر ہونے والے بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں جمہوریت نہیں بلکہ بادشاہت جیسا نظام چل رہا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے شہزادے شہزادیوں کو غریب کی نہ کوئی فکر ہے نہ ہو گی۔ سندھ کے عوام جاگیرداروں اور وڈیروں کے بتوں کو توڑیں اور ملک میں نظام مصطفیؐ کے نفاذکے لیے جماعت اسلامی کا ساتھ دیں۔ روایتی سیاسی پارٹیوں نے سندھ سمیت پورے ملک کو برباد کر دیا۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں اشیائے خورونوش، ادویات، پیٹرول، گیس کی قیمتوں میں 100 سے 200 فیصد اضافہ ہوا۔ ملک میں ظلم بڑھا، ناانصافی بڑھی اور کرپشن کو ٹاپ گیئر لگے۔ کہاں ہے وہ مدینے کی ریاست جس کے وزیراعظم دن رات وعدے کرتے تھے۔ یہ لوگ دھوکے باز ہیں، ان کو عوام کے مسائل کی کوئی فکر نہیں۔ اس ملک کے وی آئی پیز کے محلات بیرون ملک اور ان کا پینے کا پانی تک بھی باہر سے آتا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے ڈاکٹر عافیہ کو امریکا کے حوالے کیا۔ ان حکمرانوں نے کراچی جیسے روشنیوں کے شہر کو تاریکیوں میں ڈبو دیا۔ سندھ کے دیہات اور شہروں میں غربت ناچ رہی ہے۔ سندھی عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ملک کے لیے کھڑے ہوں۔ مرکزی اور صوبائی حکومت نے سندھ کو وسائل سے محروم رکھا۔ آئیے جماعت اسلامی کو آگے لائیں، وعدہ کرتا ہوں ہم آپ کی محرومیوں کا ازالہ کریں گے۔ نائب امیر جماعت اسلامی اسد اللہ بھٹو، امیر سندھ محمد حسین محنتی، علما و مشائخ رابطہ کونسل کے قائدین میاں مقصود احمد اور خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ بھی ان کے ساتھ تھے۔ قبل ازیں امیر جماعت نے حیدرآباد میں سردار زبیر خان سولنگی کے استقبالیہ میں شرکت کی۔ انھوں نے سابق ایم این اے سید شہاب الدین شاہ حسینی کے بھائی اور پیر محی الدین شاہ کے چچا سید فیروز شاہ کی وفات پر ان سے اظہار تعزیت کیا۔ امیر جماعت نے سکرنڈ میں درگاہ پیر ذاکری کے سجادہ نشین سید منیر شاہ ذاکری سے ملاقات کی اور درگاہ کی جامع مسجد میں خطبہ جمعہ دیا۔ مٹیاری میں شمولیتی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت نے اس امر پر انتہائی مسرت کا اظہار کیا کہ حضرت مجدد الف ثانی کے نواسے اپنی جماعت اور ساتھیوں سمیت جماعت اسلامی میں شامل ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ یہ مٹیاری نہیں بلکہ پورے سندھ کے عوام کے لیے خوش خبری ہے۔ انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ آنے والے دنوں میں سندھ کے غیور عوام کی بڑی تعداد جماعت اسلامی کا حصہ بنے گی اور اس ظالم نظام کو جو ملک میں دہائیوں سے رائج ہے کو چیلنج کر کے پاکستان میں نظام مصطفیؐکے قیام کی راہ ہموار کرے گی۔ امیر جماعت نے کہا کہ موجودہ اور سابقہ حکمرانوں نے بانیانِ پاکستان سے بے وفائی کی۔ انھوں نے شرکا سے سوال کیا کہ کیا ہم سب کے آباؤ اجداد نے قیام پاکستان کے لیے اس لیے قربانیاں دی تھیں کہ یہاں انگریز کے غلاموں کی حکومت قائم رہے، الیکشن چوری ہوں اور سیاسی پارٹیاں بادشاہت کے انداز میں حکمرانی کریں۔ امیر جماعت نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سب متحد ہو کر اس فرسودہ نظام کو چیلنج کریں اور ایک پرامن اور جمہوری طریقے سے اہل اور ایماندار لوگوں کو آگے لائیں۔ دربارعالیہ مجددیہ سرہندی مٹیاری شریف کے سجادہ نشین پیر غلام مجدد سرہندی نے جماعت اسلامی میں شمولیت کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے آباؤ اجداد نے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔ ہم تبدیلی چاہتے ہیں۔ لوگ محرومی و مایوسی کا شکار ہیں۔ مخلص و دیا نتدار قیادت ہی اس کا حل ہے۔ مجھے جماعت اسلامی سے بڑھ کر صاف و شفاف کوئی جماعت نظر نہیں آئی۔ مجھے اقتدار نہیں انقلاب چاہیے۔ جلسے سے جماعت اسلامی کے قائدین ، امیر ضلع فقیر محمد لاکھو اور حافظ نصراللہ چنا نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں نصاب تعلیم سے نظریاتی مضامین نکالنے کی مذمت کی گئی اور انھیں نصاب میں دوبارہ شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔