تحریک ختم نبوت 1974ء

578

 

۔1974ء کی تحریک ختم نبو ت میں شمولیت پرہم اللہ رب العالمین کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس تحریک کے نتیجہ میں امت مسلمہ کا ایک دیرینہ مسئلہ حل کا عقیدہ ختم نبوت صرف جزوایمان ہی نہیں۔ اصل ایمان ہے۔ امت مسلمہ کی اساس ہے شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا روشن ترین باب ہے۔ جسد ملت میں دوڑتا ہوا پیغام زندگی ہے۔ یہ ایک عقیدہ ہے کہ اس پر ایمان نہ رکھنے والا یا شک و شبہ کا اظہار کرنے والا یا اس میں نقب لگانے والا ظلی و بروزی نبی ہونے کے چور دروازے ڈھونڈنے والا۔ حتیٰ کہ نبی کریمؐ کے بعد کسی …… سے دلیلیں مانگنے والا بھی۔ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
ستمبر 1974ء کو امت مسلمہ نے اپنے اس عقیدے کو دستوری شکل دی اور 1974ء کی ختم نبوت کے نتیجہ میں قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ ختم نبوت کے اظہارکو صدر، وزیراعظم و دیگر اہم عہدوں کے حلف کا حصہ بنایا۔ یہ ایک کامیابی تھی۔ جس پر پوری قوم نے اللہ کریم کا شکر ادا کیا اور ملک کے طول و عرض میں بے پناہ خوشی اور تفکر کا اظہار کیا گیا۔
قادیانی گروہ کی اسلام مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے امت مسلمہ میں پہلے ہی شدید غم و غصہ موجود تھا۔ مرزا غلام احمد کی جھوٹی نبوت انگریزوں نے قائم کی تھی۔ اس لیے مرزا غلام احمد قادیانی نے انگریزی سامراج کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے تھے۔ انگریزوں کے مقاصد کی تکمیل کے لیے جہاد کو حرام کہا۔ نعوذ باللہ نبی کریمؐ، صحابہ کرام، اہل بیت کی شان میں بدترین گستاخیاں کیں۔ مسلمانوں کو کافر کہا اور اپنے پیروکاروں کے ذریعہ انگریزوں اور یہودیوں کے لیے مسلمان ممالک کی جاسوسی کی۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے بڑے فخر سے اپنے آپ کو برطانیہ کا خود کاشتہ پودا کہا۔
ہر دور کے مفاد پرست اور لادین حکمرانوں نے قادیانیوں کی سرپرستی کی۔ اس لیے یہ مٹھی بھر گروہ مفادات و مراعات بھی حاصل کرتا رہا۔ ربوہ میں اپنی ریاست کے اندر ریاست بھی قائم کی۔ کلیدی اسامیوں پر بھی فائز رہا۔ سرکاری خزانوں سے مختلف بہانوں سے بھاری رقوم بھی حاصل کرتا رہا۔ قادیانی بڑے افسروں کے ذریعے نوکریاں دلانے کا جھانسہ دے کر بعض سادہ لوح مسلمان نوجوانوں کو گمراہ بھی کرتے رہے اور پھر ان کی دیدہ دلیری اتنی بڑھ گئی کہ انھوں نے پوری تیاری کر کے نشتر میڈیکل کالج ملتان کے ان طلبہ پر قاتلانہ حملہ کر دیا کہ جنھوں نے ٹور پر جاتے ہوئے ربوہ ریلوے اسٹیشن پر ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگائے تھے۔ ان طلبہ کو ختم نبوت کے حق میں نعرے لگانے کا مزا چکھانے کے لیے قادیانی خلیفہ مرزا ناصر احمد کی ہدایت پر ہزاروں قادیانی آتشیں اسلحہ، لاٹھیوں، ڈنڈوں، ہاکیوں، سریوں سمیت، ان طلبہ پر ٹور سے واپسی کے موقع پر پل پڑے۔ لٹا لٹا کر ایک ایک طالب علم کو بری طرح زدوکوب کیا گیا اور ان کو وحشیانہ تشدد کرتے ہوئے، شدید زخمی کر دیا گیا۔ ڈاکٹر ارباب عالم خان، نشتر میڈیکل کالج سٹوڈنٹس یونین کے صدر اور اسلامی جمعیت طلبہ کے اہم رہنما طلبہ کے اس گروپ کی قیادت کر رہے تھے۔ ان کا بھی سر پھاڑ دیا گیا۔ جب ان زخمی اور لہولہان طلبہ کی گاڑی فیصل آباد (اس وقت لائل پور) پہنچی، تو اطلاع ملنے پر وہاں کے اہم علمائے کرام کی قیادت میں سیکڑوں اہل ایمان اور ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئے۔ ان طلبہ کی مرہم پٹی کرائی گئی۔ شدید زخمیوں کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا اور پھر اس انتہائی اشتعال انگیز واقعہ پر پورے ملک میں شدید احتجاجی مظاہرے ہوئے، جو بعد میں ایک منظم تحریک ختم نبوت میں ڈھل گئے۔ میں اس وقت پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا منتخب صدر تھا۔ اطلاع ملتے ہی سیکڑوں طلبہ باہر نکل آئے۔ شدید غم و غصہ کا اظہار کیا گیا اور ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ یونیورسٹی سے نکل کر سڑکوں پر آیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان نے فوری طور پر اس تحریک کا ایک تیز رفتار پروگرام بنایا۔ اس وقت اکثر تعلیمی اداروں کی منتخب سٹوڈنٹس یونینز کا تعلق جمعیت سے تھا، چنانچہ پاکستان کے طول و عرض میں ہر تعلیمی ادارے سے بڑے بڑے پرامن جلوس نکلتے۔ مقررین کی کئی ٹیموں کو ملک کے شہروں دیہاتوں قصبوں کے دورے جلسے اور کانفرنسیں منعقد کرنے کا ہدف دیا گیا۔ ہر روز سیکڑوں کی تعداد میں جلسے ہوتے اور ہزاروں فرزندان توحید شرکت کرتے۔ میں نے وسطی پنجاب کا دورہ کیا۔ میرے ہمراہ محمد انور گوندل، نعیم سرویا، عبدالحفیظ احمد، حافظ وصی محمد، حافظ شفیق الرحمن اور راجہ شفقت حیات تھے۔ ہم نے لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، فیصل آباد، ساہیوال اور دیگر کئی اضلاع کے طوفانی دورے کیے۔ اس دوران گرفتاریاں بھی ہوئیں اور جلوسوں پر وحشیانہ تشدد بھی۔
انتظامیہ ہماری گرفتاری کے لیے پے در پے چھاپے مار رہی تھی، لیکن مقررہ تاریخ پر اسلام آباد اور راولپنڈی کے تعلیمی اداروں سے بڑے بڑے جلوس نکلے۔ ہم نے لال مسجد میں ختم نبوت کا نفرنس کا اعلان کر رکھا تھا۔ پولیس نے مسجد کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا، لیکن ہم تمام رکاوٹوں کو توڑ کر مسجد پہنچنے میں کامیاب ہوئے زور دار کانفرنس ہوئی۔
اگرچہ بعد میں کافی طلبہ گرفتار ہوئے، لیکن ہمارے لیے یہ اطمینان کافی تھا کہ الحمدللہ ہماری محنتیں رنگ لائیں ہیں۔ اسلامیان پاکستان کی جدوجہد، علمائے کرام کی عظیم الشان تگ و تاز۔ ممبران پارلیمنٹ کے قابل تعریف جذبہ ایمانی، اپوزیشن ممبران پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ حکومتی ممبران بالخصوص ذوالفقار علی بھٹو کے اس مسئلہ میں جرأت مندانہ فیصلہ اور خصوصاً پاکستان بھر کے طلبہ کی عظیم الشان اور تاریخی مہم کی وجہ سے تحریک ختم نبوت کامیاب ہوئی اور قادیانی غیر مسلم اقلیت قرار پائے۔
……٭……