عالمی برادری کی منافقت

377

بھارت چیخ رہا ہے۔ امریکا بغلیں جھانک رہا ہے۔ برطانیہ اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے بیان بازی میں مصروف ہے اور اقوام متحدہ نے 13 ستمبر کو افغانستان امدادی کانفرنس طلب کرلی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں انسانی تباہی روکنے کے لیے یہ کانفرنس مددگار ثابت ہوگی۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں لاکھوں افراد خشک سالی سے بھوک کا شکار ہیں۔ سیکرٹری جنرل نے بڑی زبردست بات کہی ہے کہ عالمی برادری کو ایک ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ افغانوں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔ برطانیہ کا کہنا ہے کہ طالبان کو تسلیم نہیں کرتے، باقی ممالک بھی ایسا ہی کریں، ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہ بننے دیا جائے۔ طالبان کا ہر قدم پر جائزہ لیں گے۔ برطانوی وزیر خارجہ نے اپنے دورئہ پاکستان کے موقع پر یہ باتیں کی ہیں اور بہت خوب بات یہ ہے کہ موصوف نے طورخم پر سرحد پار کرنے والوں اور مستقبل کے چیلنجز کا جائزہ لیا۔ موصوف کو یاد ہوگا کہ برطانیہ بھی افغانستان کا جغرافیہ درست کرنے کی کوشش کرچکا ہے اور وہ پہلا ناکام ملک ہے بلکہ وہ بھولے نہیں بس اپنے عوام کو اس حقیقت تک پہنچنے نہیں دینا چاہتے کہ ہم سب سے پہلے پٹے تھے۔ اب اقوام متحدہ نے جو وعدہ کیا ہے وہ اعلان بڑا خوشنما ہے۔ عالمی برادری کو افغانستان کے عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ اور لوگ بھوک کا شکار ہیں وغیرہ وغیرہ۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل افغان امدادی کانفرنس میں اس قدر عجلت کیوں کررہے ہیں۔ ساری دنیا کل تک جس ملک کو تورا بورا کرنا چاہتی تھی آج اس کی تعمیر نو کے لیے بے چینی کیوں بڑھ گئی ہے۔ سوال بڑا اہم ہے کہ اقوام متحدہ عالمی برادری کو افغانستان کی تباہی کے لیے بھی تو ایک ساتھ کھڑا کرکے لائی تھی۔ 20 سال تک یہ عالمی برادری ایک ساتھ ہی تو کھڑی تھی۔ ان 20 برسوں میں اقوام متحدہ نے عالمی برادری کو اُکسایا کہ افغانستان کو تباہ کرنے کے لیے امداد دی جائے۔ 20 سال اقوام متحدہ کی چھتری تلے عالمی برادری افغانستان کی تباہی میں بھرپور کردار ادا کرتی رہی۔ اور اب انسانی تباہی سے دل بھر گیا تو انسانی تباہی روکنے کے نام پر فنڈ قائم کیا جارہا ہے۔ گویا یہ ادارہ اور عالمی برادری خود ہی افغانستان کو تباہ کرنے، انسانی تباہی کے ذمے دار ہونے اور وہاں بھوک و افلاس پھیلانے کے مجرم ہیں پھر بھی بڑے بھلے مانس بن کر کہا جارہا ہے کہ افغانستان میں انسانی تباہی روکی جائے گی۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پہلے بھی فنڈز ہڑپ کیے گئے اور اب بھی ایسا ہی ہوگا ۔عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی اس منافقت پر اسے تو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے تھا۔ اب کسی نئے فنڈ کی جگہ اقوام متحدہ امریکا اور ناٹو اتحادیوں سے سوال کرے کہ عالمی برادری کو غلط اطلاعات کیوں دی گئی تھیں۔ اور افغانستان میں انسانی تباہی پر ان ممالک کی گرفت کی جائے۔ مزید یہ کہ اب افغانستان کی تعمیر نو کے لیے کسی نئی کانفرنس کی ضرورت نہیں بلکہ جس ملک کی جتنی فوج افغانستان میں تھی اس ملک سے اسی شرح سے ہرجانہ وصول کیا جائے۔ ساری تباہی تو ان ملکوں ہی نے پھیلائی ہے۔ اور اقوام متحدہ اپنے فنڈز سے یہ نقصان پورا کرے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ذرا یہ تو معلوم کریں کہ لاکھوں افراد افغانستان میں خشک سالی سے بھوک کا شکار کیوں ہیں، یہ خشک سالی کیوں ہے۔ ڈیزی کٹر اور اتنے بڑے بڑے بم استعمال کیے گئے ہیں کہ پہاڑ بھی ٹوٹ گئے اور دریائوں کے رخ بھی بمباری سے بدل گئے۔ پھر کہا جارہا ہے کہ لوگ خشک سالی کا شکار ہیں۔ افغانستان میں ساری خرابی ہی نام نہاد عالمی برادری نے پیدا کی ہے۔
جس انداز میں اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل افغانستان سے محبت کا اظہار کررہے ہیں اس سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی اور معاملہ بھی ہے۔ طالبان کے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے دو دن بعد سلامتی کونسل نے طالبان کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دیا۔ اس سے قبل کے سنگین الزامات بڑی آسانی سے واپس لے لیے، جب کہ بھارت صدارت کررہا تھا۔ اسی طرح اب ایک ہفتے بعد ہی افغانستان کی تعمیر نو کے لیے کانفرنس کا اعلان کیا اور وہ بھی نہایت مختصر نوٹس پر 13 ستمبر کو۔ اتنی تیزی سے تو عراق کی تعمیر نو کے لیے بھی اقوام متحدہ کو بے چینی نہیں ہوئی تھی اور غزہ، شام، فلسطین کے دیگر علاقے میانمر کے روہنگیائوں کی بھوک اور فاقوں کی جانب بھی اقوام متحدہ کی توجہ نہیں گئی۔ کشمیر کے دو سالہ لاک ڈائون پر بھی تشویش نہیں ہوئی تو پھر 20 سال جس کو دہشت گرد قرار دیا اس کی حکومت بننے سے قبل ہی ڈونرز کانفرنس کیا معنی ہیں۔ برطانیہ حکومت تسلیم نہ کرنے کا اعلان کررہا ہے تو پھر برطانیہ کے فنڈز کیسے استعمال ہوں گے۔ اقوام متحدہ کی پھرتیاں شکوک و شبہات پیدا کررہی ہیں۔
برطانیہ کی بھی بات کرلی جائے اس کے وزیرخارجہ کا کہنا ہے کہ چوں کہ ہم طالبان حکومت تسلیم نہیں کرتے اس لیے دنیا کے دیگر ممالک بھی تسلیم نہیں کریں۔ انہیں خدشہ ہے کہ افغانستان دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہ بن جائے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ افغانستان 20 برس سے دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنا ہوا تھا اس کا گواہ پاکستان سے زیادہ کون ہوگا جس نے افغانستان کی جانب سے ہونے والی دہشت گردیوں کو بھگتا ہے۔ برطانوی وزیرخارجہ نے یہ خوب کہا ہے کہ طالبان کو ہر قدم پر جانچیں گے۔ لیکن برطانیہ کون ہوتا ہے طالبان کے ہر قدم کو جانچنے والا، پہلے وہ اپنے 20 سالہ گناہوں پر تو دنیا اور افغانوں سے معافی مانگیں پھر کسی کو جانچنے کی بات کریں۔ وہ یہ بات بھول گئے کہ یہ طالبان ہی تھے جنہوں نے 1996ء سے 2001ء تک کامیاب حکمرانی کی تھی۔ پوست کی کاشت ختم کردی تھی۔ جرائم کا خاتمہ کردیا تھا اور کسی ملک کے خلاف افغان سرزمین استعمال نہیں ہورہی تھی۔ امریکا کے قبضے کے ساتھ ہی پاکستان لپیٹ میں آگیا اور
چین اور ایران بھی متاثر ہونے لگے۔ دنیا کو پوست سے نجات والا ہی اتنا بڑا کام ہے کہ برطانیہ کو اس اقدام پر طالبان کا ممنون ہونا چاہیے اور اب پھر اطلاع ہے کہ طالبان نے پوست کی کاشت پر پابندی لگادی ہے۔ ایک سوال اور بھی ہے۔ پاکستان اور دنیا بھر کے دانشور، حکمران اور ادارے طالبان کو جانچ رہے ہیں وہ جو کہہ رہے ہیں کریں گے یا نہیں۔ ان کو کھل کر سامنے آنے دیں پھر ان کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔ ابھی دیکھا جائے گا کہ طالبان اپنے وعدوں پر عمل کرتے ہیں یا نہیں، لیکن بھارت میں مودی سرکار جمہوریت کا راگ الاپ رہی ہے اور پورا بھارت اقلیتوں کے لیے عذاب بنا ہوا ہے۔ بھارت عملاً ہندو اسٹیٹ بن چکا ہے، کشمیر میں طویل مظالم ہیں، انصاف، مساوات، انسانی حقوق، جمہوری اقدار کچھ نہیں ہے۔ یہی کچھ اسرائیل میں ہے یہی کچھ دیگر ممالک میں ہورہا ہے تو پھر طالبان ہی کو مشورے کیوں۔ انہیں ایسا ہونا چاہیے ویسا ہونا چاہیے، ان کا سب جائزہ لے رہے ہیں، وہ بھی جو اپنا کوئی وعدہ پورا نہ کرسکے۔ ایک کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ گھروں کا وعدہ بھی شروع نہیں کیا تو پورا کیا کریں گے۔ ارے بھائیو طالبان جو بھی ہیں جیسے بھی ہیں ان کو اپنے ملک کے معاملات سنبھالنے دو۔ اپنے ملک کی فکر کرو بتائو تو اپنے اپنے عوام کو کیا دیا۔