عقیدہ ختم نبوت۔۔۔ایمان کا محافظ!

290

تخلیق کائنات کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو اپنا خلیفہ مقر ر کیا اور اس کی راہنمائی کیلئے علم و عقل، انبیاء کرام کی صورت میں قیادت سے اورقرآن کریم اور آسمانی کتابوں سے نوازا اور پھر کائنات میں ایسے آثار پیدا کئے جس کے نتیجہ میں ایک انسان اس حقیقت تک پہنچتا ہے کہ کائنات کا ایک خالق ہے اور ہم اس کی مخلوق ہیں۔نبی اکرم ﷺ کی بعثت سے پہلے جب کوئی نبی رحلت فرماتا تھا تو اللہ تعالیٰ دوسرا نبی بھیجتا تھا۔ خاتم النبیین والمرسلین حضرت محمد ﷺ کی بعثت کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل کی بعثت کا سلسلہ ختم کردیا۔قرآن کریم میں سومقامات پر بہت ہی واضح انداز میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی ختم نبوت کا اعلان فرمایا ہے۔
۔عقیدہ ختم نبوت ایمان کی بنیاد ہے۔حضرت محمد ﷺ کے آخری نبی ہونے پر غیر متزلزل ایمان اور ان کے بعد کسی نبی پیغمبر یا رسول کی آمدکا تصور بھی نہ کرنے کا عقیدہ ہی دراصل وہ بنیاد فراہم کرتا ہے جس پر ایمان کی عمارت کھڑی رہ سکتی ہے ”محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلہِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہےo“الاحزاب، 33: 40
ترمذی شریف کی ایک حدیث ہے جس کے راوی حضرت انس بن مالک ؓ ہیں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ”اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آ چکا ہے لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی۔“میرے بعد میرے نمائندے یعنی خلفاء ہونگے۔انبیا ء کرام کی انسانیت کی راہنمائی کی جو ذمہ داری تھی وہ ساری ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اب اس آخری امت پر ڈالی ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”تم میں ایک امت ایسی ہونی چاہئے جو بھلائی اور خیر کی طرف بلائے،نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔اللہ تعالیٰ ہر زمانے میں کوئی فرد یا تنظیم ایسی اٹھاتا ہے جو دین کے خوبصورت چہرے پر اگر کوئی گرد و غبار پڑی ہوتو اسے صاف کرتی ہے اور دوبارہ اس کو اسی طرح نکھارتی ہے جس طرح یہ دین رسول اللہ ﷺ نے ہمیں پہنچایا تھا۔
نبی اکرم ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ میرے بعد تیس کذاب اٹھیں گے جو نبوت کا دعوی کریں گے۔تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اسلامی دور حکومت میں، کسی نے ختم نبوت پر حملہ کیا اس کو واصل جہنم کردیاگیا؛ حضور ﷺ کی رحلت کے فورا بعد ہی مسیلمہ کذاب نے نبو ت کا دعویٰ کردیا،خلیفہ رسول ﷺحضرت ابوبکر صدیق ؓنے نا مساعد حالات اور حضور ﷺ کی رحلت کے صدمہ اور مشورہ کے باوجود بھی جھوٹے مدعی نبوت کو قتل کرنے کیلئے ایک لشکر بھیجا اور اسے واصل جہنم کیا۔مگر جب استعماری طاقتیں عالم اسلام پر غالب آگئیں اور اس طرح کے فتنوں نے سر اٹھایا، تو علماء قلم وکاغذ لے کر میدان کارزار میں کودپڑے اور الحمدللہ انھوں نے ختم نبوت کا بھرپور دفاع کیا، انگریز کے زمانہ میں عدالتوں میں اور کتابوں کے ذریعہ صرف غلام احمد قادیانی لعین کے رد میں لاکھوں صفحات اردو انگریز ی اور دیگر زبانوں میں تحریر کیے گئے،سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے مسئلہ قادیانیت تحریر کرکے بلاشبہ امت پر ایک عظیم احسان کیا۔ختم نبوت پر ایمان نہ رکھنے والوں کوکافر قرار دلوانے میں مسئلہ قادیانیت کا بنیادی کردار ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ مسئلہ امت مسلمہ کیلئے کتنی اہمیت کا حامل ہے۔زمانہ شاہد ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ کی ختم نبوت کے تحفظ کیلئے ہزاروں عاشقان رسول ﷺ نے اپنی جانیں نچھاور کیں اور شمع رسالت ﷺ کے پروانے آپ ﷺ کی ناموس پر قربان ہوکر ہمیشہ کیلئے زندہ و جاوید ہوگئے۔مسلیمہ کذاب کے خلاف جنگ میں سات ہزار حافظ قرآ ن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی شہادت اور پھر اس کے بعد کے آنے والے ادوار میں نبوت کے دعوے کرنے والے ملعونین اور گستاخان رسول ﷺ سے اللہ کی زمین کو پاک کرنے کیلئے جب بھی جان کا نذرانہ پیش کرنے کا وقت آیا کبھی کوئی مسلمان پیچھے نہیں رہا وہ غازی علم دین ہو،عامر چیمہ یا ممتاز قادری شہیدہو۔ ان شہداء جیسے ہزاروں ہیرے ناموس رسالت ﷺپر کٹ مرے مگر نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں سے اس زمین کو پاک کرکے چھوڑا۔حضور نبی محترم ﷺ کی حرمت جب تک ہمیں اپنے جانوں سے بھی زیادہ عزیز تر نہیں ہوجاتی،ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔
جب تک نہ کٹ مروں میں خواجہ بطحا کی حرمت پر۔۔۔خدا شاہد ہے کہ کامل میرا ایمان ہونہیں سکتا۔
امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ جھوٹے نبی کے پیروکار مرتد اور خارج ازاسلام ہوتے ہیں لیکن یہ مسئلہ اتنا حساس اور واضح ہے کہ اگر کوئی شخص جھوٹے مدعی نبوت سے کوئی دلیل طلب کرتا ہے تو وہ بھی اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔غلام احمد قادیانی مردود بھی مسیلمہ کذاب کا تسلسل ہے جسے انگریز نے پالا پوسا اور مسلمانوں میں فکر ی انتشار پیدا کرنے کیلئے اسے جھوٹا نبی بنا کر پیش کیا۔یہ کذاب اپنی شخصیت کے لحاظ سے ایک غیر متوازن اور مخبوط الحواس شخص تھا اسی لئے اس نے کبھی خود کو نبی کہا،کبھی مسیح موعود اور کبھی کہا کہ میں نبی کاسایہ ہوں۔اس کے بیانات میں مسلسل تضادات ہیں۔ برطانیہ کا لگایا ہوایہ پودا آج تک امت میں کانٹے بکھیر رہا ہے۔اللہ والوں نے ہمیشہ ان جعلی اور جھوٹے مدعیان نبوت کا مقابلہ کیااورماضی کی طرح برصغیر کے مسلمانوں نے بھی غلام احمد قادیانی کو جھوٹا ثابت کیا۔
الحمد اللہ اول روز سے مسلمان ختم نبوت کے مسئلہ پر اتنے یکسو ہیں کہ ایک خطاکار اور گنہگار انسان بھی جو عملی لحاظ سے کمزور ہوسکتا ہے لیکن ختم نبوت کے معاملے میں وہ ہر وقت اپنی جان نچھاور کرنے کیلئے تیار رہتا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو 1953 میں قادیانی مسئلہ لکھنے پر پھانسی کی سزا سنادی گئی جو بعد میں عالم اسلام کے پرزور احتجاج اور عالمی اسلامی تحریکوں کے قائدین کی اپیل پر عمر قید میں تبدیل کردی گئی۔ انہیں قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑابعد ازاں انہیں رہا کردیا گیا۔
اسلامی جمعیت طلبا نے ختم نبوت کے تحفظ کیلئے بے پناہ قربانیاں دیں۔22 مئی 1974ء نشتر میڈیکل کالج، ملتان کے کچھ طلبہ معلوماتی دورے پر پشاور جا رہے تھے۔ چناب نگر (ربوہ) ریلوے سٹیشن پر قادیانیوں نے اپنا کفریہ لٹریچر تقسیم کرنے کی کوشش کی، طلبہ نے اس لٹریچر کو لینے سے انکار کیا اور کچھ پکڑ کر پھاڑ کرپھینک دیا۔طلباء نے غیرت ایمانی کا ثبوت دیتے ہوئے ختم نبوت زندہ باد، قادیانی مردہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے۔ 29 مئی کو طلبہ کا یہ قافلہ واپس آیا توقادیانی اسٹیشن ماسٹر نے قادیانیوں کو اکٹھے کرلیااور طلبہ کی بوگی پر حملہ کردیا۔ خلافِ ضابطہ چناب نگر ریلوے سٹیشن پر گاڑی روک لی گئی۔سینکڑوں مسلح قادیانیوں نے لاٹھیوں، کلہاڑیوں اور برچھیوں سے حملہ کر کے 30 کے قریب نہتے طلبہ کو شدید زخمی دیا۔ تشدد سے نشتر میڈیکل کالج یونین کے صدر بے ہوش گئے۔ اِس واقعہ کا پورے ملک میں زبردست ردِعمل سامنے آیا۔اسلامی جمعیت طلبا نے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بھرپور احتجاج کیا۔پورے ملک میں قادیانیوں کی اس غنڈہ گردی نے اشتعال برپا کردیا۔جس سے یہ مسئلہ اقتدار کے ایوانوں تک جاپہنچا، طویل بحث کے بعد قادیانیوں کو کافر قرار دے دیا گیا اور آئین پاکستان کی رو سے گستاخ رسول کی سزا موت مقرر کی گئی۔
قادیانی جس طرح حضرت محمد ﷺ خاتم النبیین کے غدار اور منکر ہیں اسی طرح آئین پاکستان کے بھی غدار ہیں۔مگر اس کے باوجود ملک کے اہم عہدوں اور مناصب پر براجمان ہیں۔آئے روز آئین پاکستان کی توہین اور پامالی کے واقعات ہوتے ہیں مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی اور قادیانیوں کو لگام دینے کیلئے تیار نہیں،حکمرانوں کی طرف سے قادیانیوں کی سرپرستی کی جارہی ہے۔ انہیں وزیر اور مشیر بنایا جاتا ہے اور مختلف طریقوں سے انہیں نوازا جاتا ہے۔عالمی استعماری قوتوں کے کہنے پر حکومتوں کے اس رویے پر پوری قوم دل گرفتہ ہے۔پاکستان کی سلامتی اور اس کے اسلامی تشخص کے خلاف سازشوں میں مصروف قادیانیوں کے خلاف اگر حکومت نے رویہ نہ بدلا تو قوم اسے زیادہ دیر برداشت نہیں کرے گی۔