افغانستان: یقینی صورت حال

757

فیض آباد، تالقان،قندوز، پل خمری، ایبک، سرائے پل، شبرغان، قلعہ نو، فیروز کوہ، ہرات، فرح، لشکر گاہ،زرنج، قندھار، پل عالم، غزنی، اور مزار شریف، پکے ہوئے پھل کی طرح طالبان کے گود میں گرے۔ اتوار کو کابل بھی طالبان کے قبضے میں آ گیا۔شمالی، جنوبی، اور مغربی افغانستان اب مکمل طور پر طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔
امریکا اور ناٹو نے افغان فوج کی نہ صرف20 سال تک تربیت کی ہے، بلکہ ان کے ساتھ مل کر طالبان سے لڑے بھی ہیں۔ افغان فوج کو جدید ترین اسلحہ فراہم کیا گیا تھا، آخر آخر تک امریکا فضائی بمباری سے ان افغان فوجیوں کی مدد کرتا رہا ہے۔ لیکن چند دنوں کے اندر اندر افغان فوج کا بھرکس نکل گیا۔ دوسری طرف عبداللہ عبداللہ نے دوحہ، قطر میں طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کیا۔ اس کے پاس بھی مذاکرات کے لیے کچھ نہ تھا۔ اس کے دماغ میں، اس کے ذہن میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ ٹیبل پر رکھ سکے۔ وہ خالی الذہن تھا۔
افغانستان کی ایک صدی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس کے زیادہ تر حکمراں یا تو مارے گئے ہیں یا جلاوطنی میں مرے ہیں۔ کیا افغانستان میں کوئی ایسا نہیں کہ اشرف غنی کو اس کے انجام بد سے بچائے۔ جب حکمراں کی تباہی لکھ دی جاتی ہے تو اس کی عقل خراب کر دی جاتی ہے۔ جنگ، سیاست، اور سفارت ہر میدان میں ملت فروش، امریکی وفادار افغانیوں نے ہزیمت اٹھائی ہے۔ اب ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچا ہے۔ شکست اور برا انجام ان کا مقدر ہے۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی تو لاکھوں افغانیوں کے قاتل ہیں، افغانستان کو امریکی غلامی میں ڈالنے میں مددگار ہیں۔ ان کی حکومت انتہائی کرپٹ بھی تھی۔ ترقیاتی کاموں کے لیے فراہم کیے جانے والی ساری بیرونی امداد، بلین آف ڈالرز صفا چٹ کر گئے۔ ان کے ساتھ طالبان کا حکومت بنانا ناممکن تھا اور ناممکن ہے۔ پتا نہیں پاکستان کے صحافی حضرات اور میڈیا اینکرز ان سے مل کر حکومت بنانے کی بات کیوں اور کہاں سے کر رہے ہیں۔
کیا طالبان اور امریکا کے درمیان معاہدہ کی دستاویز ان لوگوں نے نہیں پڑھی ہے؟ طالبان نے اس کی پہلی شِقّ ہی یہ رکھی تھی کہ وہ افغانستان میں شریعت کا نفاذ کریں گے۔ کیا افغانستان کا سیکولر، لبرل، اور نیشنلسٹ طبقہ شریعت لے کر آئے گا؟ کیا بالغ رائے دہی اور ہجومیت (جمہوریت) سے شریعت نافذ ہوتی ہے؟ ہاں البتہ طالبان نے یہ پالیسی بیان ضرور دیا ہے کہ وہ 1996کی طرح حکومت نہیں بنائیں گے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہوگا اور یہی ہونا چاہیے کہ افغانستان کے علمائے حق اور اسلام پسند عناصر سے مل کر وہ حکومت بنائیں گے، نہ کہ غداروں کے ساتھ۔
جب امریکی صدر جوبائیڈن نے بالآخر اس سال اگست کے آخر تک افغانستان سے فوجی واپسی کا فیصلہ کیا تو اس کے بعد وہ سرعت کے ساتھ نکل رہے ہیں۔ تمام قیمتی جدید اسلحہ، بہت مہنگی گاڑیاں، اور اپنے تمام ساز وسامان کو جلا کر امریکی فوجی بھاگ رہے تھے۔ یہ وہی منظر تھا جب مدینہ کی یہودی آبادی بنونضیر اپنے گھروں کو توڑ پھوڑ کر، اور جمع شدہ وسائل و ذرائع کو جلا کر بھاگ رہے تھے۔ پہلے اعلان ہوا کہ چند ہزار امریکی فوجی امریکی سفارت خانہ کی حفاظت کے لیے وہاں برقرار رہیں گے۔ لیکن اب جب کہ طالبان کابل میں پہنچ چکے ہیں، امریکا نے 5 ہزار کا فوجی دستہ بھیج کر تیزی سے تمام امریکیوں کو وہاں سے نکالنے کا بندوبست کیا ہے۔
اللہ نے مومنوں سے کیا گیا وعدہ پورا کر دیا۔ ’’بے شک ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں دنیا کی زندگی میں اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے‘‘۔ (سورہ غافر آیت 51:)
مغربی میڈیا میں کیا شائع ہو رہا ہے، اس سے ہمیں تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن پاکستانی میڈیا میں اور اپنے کو اسلامی جتانے والے صحافی بھی جب ایسا تجزیہ کرتے ہیں جو مغربی مرعوبیت سے بھر پور ہوتا ہے تو تکلیف ہوتی ہے۔ کیا پاکستان کے صحافیوں کو یہ معلوم نہیں کہ افغانستان میں امریکی کٹھ پتلی حکومت کی رِٹ کابل سے باہر کہیں اور کبھی نہیں تھی۔ کیا انہیں نہیں معلوم کہ وقت کے ساتھ طالبان کی ملٹری پاور اور حملہ آور ہونے کی صلاحیت بڑھتی گئی تھی۔ اسی بڑھتی ہوئی صلاحیت سے خائف ہو کر امریکا کی اوباما حکومت نے 10 ہزار مزید فوج بھیجے تھے۔ لیکن 2014 میں بارک اوباما نے معاملات کو افغانستان کی اپنی کٹھ پتلی حکومت کے حوالے کر کے امریکی فوجی کے واپسی کا اعلان کر دیا تھا۔ لیکن طالبان اور اسلام مخالف عالمی طاقتیں اور خصوصی مفادات کے نگہباں امریکی قوتوں نے امریکی موجودگی کو مزید طول دے دیا۔
کیا انہیں نہیں معلوم کہ اب جب افغانستان کے تین لاکھ فوجی طالبان سے جنگ لڑنے آئے تو ان کا چھٹا حصہ ہی نظر آیا۔ یعنی اکثریت ابتدا ہی میں بھاگ گئی یا سرنڈر کر گئی یا طالبان سے مل گئی۔ افغان پولیس اور فوج کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اشرف غنی کے لیے قربانی دینا جان کا ضیاع ہے۔ طالبان کی دعوتی اور تبلیغی قوت بھی کام کر رہی تھی۔ طالبان کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ افغان پولیس، فوج اور بیوروکریسی سے ایک بڑی تعداد کا نکل کر تحریک طالبان میں شامل ہونا بھی ہے۔
انیسویں صدی میں افغانستان میں برطانیہ شکست کھا گیا۔ بیسویں صدی میں سویت یونین افغانستان سے ٹکرا کر پارَہ پارَہ ہو گیا۔ اکیسویں صدی میں امریکا افغانستان میں ذلیل و رسوا ہوا۔ اس کی طاقت اور سپر پاور ہونے، اس کی ٹیکنالوجی، اس کی فضائی برتری، اس کے الیکٹرونک وار فیئر سب کا بھرم ٹوٹ گیا۔ وہ اہل باطل کے یہاں بھی بے وقعت اور ناقابل بھروسا ہوگیا۔
فَاعتَبِرْوا یٰاْولِی الاَبصَار(پس اے آنکھوں والو! عبرت حاصل کرو: سورہ حشر، آیت 2)
افغانستان کی صورت حال اب یقینی ہے۔ جو اسے غیر یقینی بتا رہے ہیں ان سے عرض ہے کہ ’’یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب ِ گْماں تو ہے‘‘۔ جس طرح بغیر کسی مدد کے نصف صد ممالک کے اتحاد سے طالبان ٹکرائے اور فاتح بنے۔ اسی طرح بغیر کسی مدد کے حکومت کرنی پڑے تو وہ کر سکتے ہیں، اور ایسا پہلے بھی کر چکے ہیں۔ دنیا کے تمام کمزور، غلام بنائی ہوئی قوموں، سامراج کے چنگل میں پھنسی ہوئی ملتوں کے لیے تحریک طالبان میں ایک سبق ہے، ایک نمونہ ہے، ایک رول ماڈل ہے۔ جس طرح وہ کھڑے ہوئے، اسی طرح وہ بھی کھڑے ہو سکتے ہیں، جس طرح انہوں نے اللہ کی طاقت پر بھروسا کیا، وہ بھی کر سکتے ہیں، جس طرح وہ اللہ کے دین کے لیے لڑے، وہ بھی لڑ سکتے ہیں۔ جس طرح کی اجتماعیت انہوں نے بنائی، امیر بنایا، اطاعت امر سیکھا اور سکھایا، شوریٰ بنائی، اور مشورہ کرنا سیکھا اور سکھایا، سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اپنی جمعیت بنائی، پوری دنیا طالبان کے خلاف تھی۔ انہوں نے بھی کسی سے مدد نہیں مانگی، وہ تنہا ایک جماعت لڑی۔ شریعت کے نفاذ کا عہد کیا، جہاد کا راستہ اختیار کیا۔ کیا ان میں کوئی بھی چیز ایسی ہے جو دوسروں کے لیے ناقابل عمل ہو؟