لاک ڈائون کا نفاذ اور ملکی معیشت

221

حکومت سندھ نے کرونا وائرس کی بڑھتی ہوئی شرح کو دیکھتے ہوئے 31 جولائی سے 8 اگست ، یعنی نو دن کیلئے پورے سندھ میں سخت لاک ڈائون نافذ کردیا ہے جس میں اس پورے عرصے میں سرکاری دفاتر بند رہیں گے ۔ ضروری اشیاء مثلا سبزی ، گوشت ، دودھ، دھی کی دکانیں بھی شام چھ بجے سے صبح چھ بجے تک بند رہیں گی ویکسینیشنن نہ کرانے والوں کو 31 اگست کے بعد تنخواہ نہیں ملے گی شہروں کے درمیان ٹرانسپورٹ بند رہے گی البتہ برآمدی صنعت سے وابستہ کار خانے اور فیکٹریاں کھلی رہیں گی ۔ حکومت سندھ نے یہ فیصلہ کراچی میں کرونا کے مثبت کیسز کی شرح 30 فیصد ہونے پر کیاجبکہ ملک میں یہ شرح 7 فیصد اس وقت پورے ملک میں کرونا کے مجموعی کیسز 10 لاکھ اور ہلاکتیں 23 ہزار ہوچکی ہیں ۔
صوبہ سندھ کی شہری آبادی ابھی تک پچھلے لاک ڈائون کے اثر سے نہ نکل پائی تھی کہ دوسرا لاک ڈائون نافذ کردیا گیا جو ملک کی مجموعی معیشت اور افراد دکاندار کے مالی اور معاشی حالات پر انتہائی منفی اثر ڈالتا ہے ۔ پچھلے لاک ڈائون کے تناظر میں جو رپورٹیں سامنے آئی ہیں ان کے مطابق ملک میں روزگار کا حجم 13 فیصد سکڑ گیا ہے جسکے نتیجے میں تقریبا دوکروڑ ملازمتیں ختم ہوگئیں ہیں اور روزگار کا جو غیر سرکاری اور غیر دستاویزی (un intornel) سیکٹر ہے ان میں چار میں سے تین روزگار ، ختم ہوگئے ہیں یہ وہ سیکٹر ہے جسمیں ناخواندہ اور نیم خواندہ افراد چھوٹا موٹا کام کرکے زندگی کی گاڑی چلارہے ہوتے ہیں اور یہ ہمارا روزمرہ کا ہے کہ چھوٹے اور مبانی سطح کے اسکول جو کرائے کی عمارتوں میں چل رہے تھے کرایہ نہ ادا کرنے کی وجہ سے بند ہوگئے اور ان میں کام کرنے والے دس ، پندرہ ، یا بیس افراد بشمول اساتذہ وعملہ بے روزگار ہوگئے ۔ اسی طرح وہ کاروباری ادارے جو کسی بلند بالا عمارت کے دو یاتین فلور لے کر اپنا کام چلارہے تھے اب ورک فرام کے نتیجے میں صرف ایک فلور سے کام چلارہے ہیں گویا باقی فلور کا امدادی عملہ بے روزگار ہوگیا ہے اور تازہ ترین ریسرچ کے مطابق ایسی ملازمتیں بھی ختم ہوئی ہیں جو کرونا کے خاتمے کے بعد بھی بحال نہیں ہوں گی ۔
کراچی جو ملک کا معاشی جب ہے اور وفاقی ٹیکسوں میں 80 سے 90 فیصد تک حصہ لیتا ہے ایک ہفتے کی کاروباری بندش سے ٹیکسوں کی وصولی میں کتنی کمی آئے گی وفاقی حکومت جو پہلے ہی بجٹ خسارہ کا شکار ہے اس میں مزید اضافہ ہوگا اور غریب عوام کو جو تھوڑی بہت سبسڈی میسر ہے وہ بھی ختم ہوجائے گی ۔ حال ہی میں حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز پر کوکنگ آئل ، چینی اور آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کردیاہے ایک طرف لوگ بے روزگار ہورہے ہیں دوسری طرف کھانے پینے کی اشیاء کو مہنگا کیا جارہا ہے ۔
اسٹیٹ بینک کی حالیہ ذری پالیسی کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح 9 سے 60 فیصد رہے گی اور مستقبل قریب میں کسی کا کوئی امکان نہیں اور اسکی جومات اشیاء کی فراہمی میں گڑ بڑ ، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور غیر یقینی صورتحال ہے معیشت ، کاروبار ، مالیات وتجارت کیلئے حالات کی غیر یقینی سخت مضر اثرات رکھتی ہے اور یہاں یہ غیر یقینی ڈیڑھ سال سے ہے اور آئندہ کا بھی کچھ پتہ نہیں ۔ لیکن پاکستان کے عوام کا بھی حال کچھ اچھا نہیں ، بے ایمانی، جھوٹ ، دھوکہ ، چور بازاری ، ملاوٹ ، کرپشن کونسی برائی ہے جو بیان نہیں ۔ ابھی ابھی اس قوم نے سنت ابراہیمی کا فریضہ ادا کیا ہے لیکن جانوروں کی قربانی میں کتنا دکھاوا، نمائش، کھیل تماشا ، دولت وامارت کا اظہار تھا اور کتنا نیکی اور قربانی کا جذبہ تھا اسکا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔
ہمیں اپنے اعمال وافعال کا جائزہ لینا چاہئے اور گناہوں اور کوتاہیوں سے معافی مانگتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا کر دعا مانگنی چاہئے کہ اے اللہ ہمیں کرونا وائس کی وباء سے جلد ازجلد نجات دے ۔