قربانی کے احکام و مسائل

301

مسئلہ نمبر1۔ جس شخص پر صدقہ فطر واجب ہے اس پر قربانی بھی واجب ہے۔
یعنی قربانی کے تین ایام (10/11/12/ذوالحج) کے دوران اپنی ضرورت سے زائد اتنا حلال مال یا اشیا جمع ہوجائیں کہ جن کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو تو اس پر قربانی لازم ہے، مثلاً رہائشی مکان کے علاوہ کوئی مکان ہو خواہ تجارت کے لیے ہو یا نہ ہو اسی طرح ضروری سواری کے طور پر استعمال ہونے والی گاڑی کے علاوہ گاڑی ہو تو ایسے شخص پر بھی قربانی لازم ہے۔
مسئلہ نمبر2: مسافر پر قربانی واجب نہیں۔
مسئلہ نمبر3: قربانی کا وقت دسویں تاریخ سے لے کر بارہویں تاریخ کی شام تک ہے، بارہویں تاریخ کا سورج غروب ہوجانے کے بعد درست نہیں۔ قربانی کا جانور دن کو ذبح کرنا افضل ہے اگرچہ رات کو بھی ذبح کرسکتے ہیں لیکن افضل بقر عید کا دن پھر گیارہویں اور پھر بارہویں تاریخ ہے۔
مسئلہ نمبر4: اگر مسافر مالدار ہو اور کسی جگہ پندرہ دن قیام کی نیت کرے، یا بارہویں تاریخ کو سورج غروب ہونے سے پہلے گھر پہنچ جائے، یا کسی نادار آدمی کے پاس بارہویں تاریخ کو غروب شمس سے پہلے اتنا مال آجائے کہ صاحب نصاب ہوجائے تو ان تمام صورتوں میں اس پر قربانی واجب ہوجاتی ہے۔
نیز اگر مسافر مالدار ہو دوران سفر قربانی کے لیے رقم بھی ہو اور وہ پندرہ دن سے کم عرصے کے لیے رہائش پذیر ہونے کے باوجود بآسانی قربانی کرسکتا ہو تو قربانی کرلینا بہتر ہے۔
مسئلہ نمبر5: قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا زیادہ اچھا ہے اگر خود ذبح نہ کرسکتا ہو تو کسی اور سے بھی ذبح کراسکتا ہے۔ بعض لوگ قصاب سے ذبح کراتے وقت ابتدائً خود بھی چھری پر ہاتھ رکھ لیا کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ قصاب اور قربانی والے دونوں مستقل طور پر تکبیر پڑھیں، اگر دونوں میں سے ایک نے نہ پڑھی تو قربانی صحیح نہ ہوگی۔ (شامی)
مسئلہ نمبر6: قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت زبان سے نیت پڑھنا ضروری نہیں دل میں بھی پڑھ سکتا ہے۔
مسئلہ نمبر7: قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت اس کو قبلہ رخ لٹائے اور اس کے بعد دعا پڑھے۔
اِنِّی وَجَّھتْ وَجھِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰواتِ وَالاَرضَ حَنِیفًا وَّمَا اَنَا مِنَ المْشرِکِینَo اِنَّ صَلَا تِی وَنْسْکِی وَمَحیَایَ وَمَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِینَo لَاشَرِیکَ لَہ وَبِذٰلِکَ اْمِرتْ وَاَنَا اَوَّلْ المْسلِمِینَ اَللّٰھْمَّ مِنکَ وَلَکَ اس کے بعد بِسمِ اللِہ اَللہْ اَکبَر ْکہہ کر ذبح کرے۔ (سنن ابی داؤد)
ذبح کرنے کے بعد یہ دعاء پڑھے:
اَللّٰھْمَّ تَقَبَّلہْ مِنِّی کَمَا تَقَبَّلتَ مِن حَبِیبِکَ مْحَمَّدٍ وَخَلِیلِکَ اِبرَاہِیمَ عَلَیہِمَا الصَّلَوٰۃْ وَالسَّلَامْ
مسئلہ نمبر8: قربانی صرف اپنی طرف سے کرنا واجب ہے۔ اولاد کی طرف سے نہیں۔ اولاد چاہے بالغ ہو یا نابالغ، مالدار ہو یا غیر مالدار۔
مسئلہ نمبر 9: درج ذیل جانوروں کی قربانی ہوسکتی ہے:
اونٹ، اونٹنی، بکرا، بکری، بھیڑ، دنبہ، گائے، بیل، بھینس، بھینسا۔
بکرا، بکری، بھیڑ اور دنبہ کے علاوہ باقی جانوروں میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں بشرطیکہ کسی شریک کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو اور سب قربانی کی نیت سے شریک ہوں یا عقیقہ کی نیت سے، صرف گوشت کی نیت سے شریک نہ ہوں۔
گائے بھینس اور اْونٹ وغیرہ میں سات سے کم افراد بھی شریک ہو سکتے ہیں اس طور پر کہ مثلاً چار آدمی ہوں تو تین افراد کے دو دو حصے اور ایک کا ایک حصہ ہوجائے نیز اگر پورے جانورکو چار حصوں میں تقسیم کرلیں یہ بھی درست ہے۔ یا یہ کہ دو آدمی موجود ہوں تو نصف نصف بھی تقسیم کرسکتے ہیں۔
اسی طرح اگر کئی افراد مل کر ایک حصہ ایصال ثواب کے طور پر کرنا چاہیں تو یہ بھی جائز ہے، البتہ ضروری ہے کہ سارے شرکا اپنی اپنی رقم جمع کرکے ایک شریک کو ہبہ کردیں اور وہ اپنی طرف سے قربانی کردے اس طرح قربانی کا حصہ ایک کی طرف سے ہوجائے گا اور ثواب سب کو ملے گا۔
مسئلہ نمبر10: اگر قربانی کا جانور اس نیت سے خریدا کہ بعد میں کوئی مل گیا تو شریک کرلوں گا اور بعد میں کسی اور کو قربانی یا عقیقہ کی نیت سے شریک کیا تو قربانی درست ہے اور اگر خریدتے وقت کسی اور کو شریک کرنے کی نیت نہ تھی بلکہ پورا جانور اپنی طرف سے قربانی کرنے کی نیت سے خریدا تھا تو اب اگر شریک کرنے والا غریب ہے تو کسی اور کو شریک نہیں کرسکتا اور اگر مالدار ہے تو شریک کرسکتا ہے البتہ بہتر نہیں۔
ایک جانور قربانی کرنے کے لیے خریدا، اگر اس کے بدلے دوسرا حیوان دینا چاہے تو جائز ہے مگر یہ لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ دوسرا حیوان کم ازکم اسی قیمت کا ہو اگر اس سے کم قیمت کا ہو تو زائد رقم اپنے پاس رکھنا جائز نہیں بلکہ صدقہ کرنا ضروری ہے، ہاں اگر زبانی طور پر جانور کو متعین نہ کیا ہو بلکہ یہ ارادہ کیا ہوکہ اگر اچھی قیمت میں فروخت ہو رہا ہو تو فروخت کردیں گے اس صورت میں اصل قیمت سے زائد رقم اپنے پاس رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
مسئلہ نمبر11: اگر کسی آدمی نے قربانی کے لیے جانور خریدا اور خریدنے کے بعد وہ جانور قربانی کرنے سے پہلے گم ہوجائے تو صاحب حیثیت آدمی پر قربانی کے لیے دوسرا جانور خریدنا ضروری ہے کیونکہ اس پر قربانی شرعا واجب تھی اور واجب ادا نہیں ہوا جبکہ فقیر آدمی پر دوسرا جانور خریدنا اور قربانی کرنا لازم نہیں تھا اس کے باوجود غریب نے دوسرا جانور بھی خرید لیا اب اگر مالدا ر اور غریب ہر دو کا پہلا گم شدہ جانور مل جائے تو امیر پر صرف شرعی واجب (قربانی) کا ادا کرنا لازم ہے۔ جس جانور کو ذبح کردے کافی ہے جب کہ غریب پر خود سے واجب کردہ دونوں جانوروں کی قربانی کرنا لازم ہے۔
اس کی تفصیل یوں ہے کہ امیر آدمی پر نصاب کی وجہ سے قربانی واجب تھی اس نے وہ ادا کردی اس کے حق میں جانور متعین نہیں ہوا تھا اسے اختیار ہے کہ جس جانور کو چاہے ذبح کردے جبکہ غریب آدمی پر قربانی لازم نہیں تھی غریب نے از خود جانور خرید کر اپنے پر قربانی کو لازم کرلیا اور جو جانور اس نے خریدا وہ بھی متعین ہوگیا اب پہلا جانورجو غریب کے حق میں قربانی کے نام سے متعین ہوچکا اگر وہ گم ہوجائے تو اس کے بدلے دوسری قربانی لازم نہ تھی اس کے باوجود غریب نے دوسرا جانور خرید کر اپنے پر قربانی لازم کرلی اس بناء پر فقیر آدمی پر دوسری قربانی بھی لازم ہوئی لہذا غریب آدمی دونوں جانوروں کی قربانی کرے گا بخلاف مالدار کے کہ اس پر صرف قربانی لازم ہے جانور متعین نہیں ہے۔ دونوں جانوروں میں سے کسی ایک کی قربانی کردے تو کافی ہے۔
مسئلہ نمبر12: قربانی کے جانور میں اگر کئی شرکا ہیں تو گوشت وزن کرکے تقسیم کریں۔
مسئلہ نمبر13: بھیڑبکری جب ایک سال کی ہوجائے، گائے، بھینس دوسال کی اور اونٹ پانچ سال کا تو اس کی قربانی جائز ہے اگر اس سے کم ہے تو جائز نہیں۔ ہاں دنبہ اور بھیڑ (نہ کہ بکرا) اگر اتنا موٹا تازہ ہو کہ سال بھر کا معلوم ہو تو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔
موجودہ دور میں جانوروں کو تول کر (وزن کرکے) خرید وفروخت کرنا بھی جائز ہے ایسی قربانی بلاشبہ درست ہے۔
مسئلہ نمبر14: قربانی کا جانور اگر اندھا ہو، یا ایک آنکھ کی ایک تہائی یا اس سے زائد روشنی جاتی رہی ہو۔ یا ایک کان ایک تہائی یا اس سے زیادہ کٹ گیا ہو، یا دم ایک تہائی یا اس سے زیادہ کٹ گئی ہو تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔
گائے اور بھینس کے دو تھن یا بکری کا ایک تھن خشک ہوچکا ہو یا پیدائشی طور پر نہ ہو ں تو ایسے جانور کی قربانی بھی درست نہیں۔
مسئلہ نمبر15: اسی طرح اگر جانور ایک پاؤں سے لنگڑا ہے یعنی تین پاؤں سے چلتا ہے چوتھے پاؤں کا سہارا نہیں لیتا تو ایسے جانور کی قربانی بھی جائز نہیں، ہاں اگر وہ چوتھے پاؤں سے سہارا لیتا ہے لیکن لنگڑا کے چلتا ہے تو ایسے جانور کی قربانی درست ہے۔
مسئلہ نمبر16: قربانی کا جانور خوب موٹا تازہ ہونا چاہیے، اگر جانور اس قدر کمزور ہو کہ ہڈیو ں میں گودا بالکل نہ رہا ہو، تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔
بعض لوگ موٹا تازہ جانور محض دکھلاوے یا ریا ونمود کے لیے خریدتے ہیں ایسے لوگ قربانی کے ثواب سے محروم ہوتے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ موٹا تازہ جانور تلاش کرتے ہوئے محض ثواب کی نیت کریں۔
مسئلہ نمبر17: اگر کسی جانور کے تمام دانت گرگئے ہوں تو اس کی قربانی جائز نہیں ہے اور اگر اکثر دانت باقی ہوں کچھ گر گئے ہوں تو قربانی جائز ہے۔
اگر کسی جانور کی عمر پوری ہو اور دانت نہ نکلے ہوں تو بھی قربانی ہوسکتی ہے تاہم اس سلسلے میں صرف جانوروں کے عام سوداگروں کی بات معتبر نہیں ہے بلکہ یقین سے معلوم ہونا ضروری ہے یا یہ کہ خود گھر میں پالا ہوا جانور ہو تو اس کی قربانی کی جاسکتی ہے۔
مسئلہ نمبر18: جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔
مسئلہ نمبر19: اگر کسی جانور کے سینگ بالکل جڑ سے ٹوٹ چکے ہوں اس طور پر کہ دماغ اس سے متاثر ہوا ہو تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں اور اگر معمولی ٹوٹے ہوں یا سرے سے سینگ ہی نہ ہوں جیسے اونٹ تو بلا کراہت جائز ہے۔
اسی طر ح گائے بکری وغیرہ کے اگر پیدائشی سینگ نہ ہوں تو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔

مسئلہ نمبر20: خارش زدہ جانور کی قربانی جائز ہے، البتہ اگر خارش کی وجہ سے بے حد کمزور ہوگیا ہو تو پھر جائز نہیں۔
مسئلہ نمبر22: اگر قربانی کے جانور میں کوئی ایسا عیب پیدا ہوا جس کے ہوتے ہوئے قربانی درست نہ ہو تو مالدار شخص کے لیے یہ ضروری ہے کہ دوسرا جانور اس کے بدلے خرید کر قربانی کرے، غریب ہے تو اسی جانور کی قربانی کرسکتا ہے۔
اگر قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کے لیے گراتے ہوئے کوئی عیب پیدا ہوجائے مثلاً ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ جائے یا سینگ وغیرہ ٹوٹ جائے تو اس سے قربانی پر اثر نہیں پڑے گا البتہ جانور کو گراتے وقت احتیاط کرنا چاہیے۔
مسئلہ نمبر22: قربانی کے گوشت میں بہتر یہ ہے کہ تین حصے کرے، ایک حصہ اپنے لیے رکھے، ایک حصہ اپنے رشتے داروں کو دے، اور ایک حصہ فقرا ومساکین کو دے، لیکن اگر سارے کا سارا اپنے لیے رکھے تب بھی جائز ہے۔
مسئلہ نمبر23: قربانی کی کھال کسی کو خیرات کے طور پر دے یا فروخت کرکے اس کی قیمت فقرا کو دے۔ البتہ اگر کسی دینی تعلیم کے مدرسے اور جامعہ کو دے دے تو سب سے بہتر ہے کیونکہ علم دین کا احیا سب سے بہتر ہے۔
مسئلہ نمبر24: قربانی کی کھال کو اپنے مصرف میں بھی لایا جاسکتا ہے اس طور پر کہ اس کا عین باقی رہے مثلاً مصلیٰ بنائے یا رسی یا چھلنی بنائے تو درست ہے۔
مسئلہ نمبر25: قربانی کی کھال کی قیمت مسجد کی مرمت یا امام و مؤذن یا مدرس یا خادم کی تنخواہ میں نہیں دی جاسکتی نہ اس سے مدارس کی تعمیر ہوسکتی ہے اور نہ شفا خانوں یا دیگر رفاہی اداروں کی۔
مسئلہ نمبر26: قربانی کی کھال قصائی کو اجرت میں دینا جائز نہیں۔
اگر کسی کی قربانی کی کھال چوری ہوگئی یا چھن گئی تو اسے چاہیے کہ وہ کھال کی رقم صدقہ کردے اگر استطاعت نہ ہو توکوئی حرج نہیں قربانی پر فرق نہیں پڑے گا۔
مسئلہ نمبر27: اگر قربانی کے تین دن گزر گئے اور قربانی نہیں کی تو اب ایک بکری یا بھیڑ کی قیمت خیرات کردے، اور اگر جانور خریدا تھا مگر قربانی نہیں کی، تو بعینہ وہی جانور خیرات کردے۔
مسئلہ نمبر28: ایصال ثواب کے لیے قربانی کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے اور دوسروں کو بھی کھلا سکتا ہے۔
مسئلہ نمبر29: اگر کسی شخص کے حکم کے بغیر اس کی طرف سے قربانی کی تو قربانی نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو اس کے حکم واجازت کے بغیر قربانی میں شریک کیا تو کسی کی بھی قربانی نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر حصے داروں میں سے کوئی ایک صرف گوشت کی نیت سے شریک ہے تو کسی کی قربانی صحیح نہ ہوگی۔
مسئلہ نمبر30: قربانی کا گوشت غیر مسلم کو بھی دے سکتا ہے البتہ کسی کو اجرت میں نہیں دے سکتا۔
مسئلہ نمبر31: گابھن جانور کی قربانی صحیح ہے اگر بچہ زندہ نکلے تو اس کو بھی ذبح کردے۔ اور گوشت آپس میں تقسیم کرنے کے بجائے صدقہ کردیا جائے۔
قربانی کے جانور کے بال کاٹنا یا دودھ دوھنا درست نہیں ہے اگر کسی نے ایسا کیا تو اسے صدقہ کرے اگر بیچ دیا تو اس کی رقم کو صدقہ کرنا واجب ہے۔
مسئلہ نمبر32: جو شخص قربانی کرنا چاہے اس کے لیے مستحب یہ ہے کہ یکم ذی الحجہ سے قربانی کا جانور ذبح ہونے تک نہ اپنے جسم کے بال کاٹے اور نہ ناخن۔ (ابوداؤد)
البتہ اگر زیر ناف اور بغل کے بالوں پر چالیس روز کا عرصہ گزر چکا ہو تو ان بالوں کی صفائی کرنا بہتر ہے۔
مسئلہ نمبر33: قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ تک بھی رکھ سکتا ہے۔ (ابوداؤد)
مسئلہ نمبر34: جانور ذبح کرنے کے لیے چھری خوب تیز ہونی چاہیے تاکہ جانور کو تکلیف نہ ہو۔ (ابوداؤد)
مسئلہ نمبر35: اگر کوئی شخص اپنی قربانی کا گوشت سارا کا سارا کسی اور کو کھلادے خود کچھ بھی نہ کھائے تو ایسا کر سکتا ہے۔ (کتاب الآثار)
مسئلہ نمبر36: ذبح کرتے وقت تکبیر کے علاوہ کچھ اور نہیں کہنا چاہیے، مثلاً باسم اللہ تقبل من فلان۔ (کتاب الاثار)
مسئلہ نمبر37: اگر کسی نے قربانی کی نذر مانی اور وہ کام ہوجائے تو قربانی واجب ہے اس کے گوشت سے خود نہیں کھا سکتا سارا فقرا و مساکین کو کھلا دے۔
مسئلہ نمبر38: اگر کسی شخص کی ساری یا اکثر آمدنی حرام کی ہو تو اس کو اپنے ساتھ قربانی میں شریک نہیں کرنا چاہیے۔ اگر شریک کیا تو کسی کی قربانی نہیں ہوگی۔
ایسا شخص جس کی ساری کمائی حرام کی ہو اس پر قربانی لازم نہیں کیوں کہ اس کا سارا مال واجب التصدق (بلانیت ثواب صدقہ کرنا ضروری) ہے دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ حرام مال سے کسی کا صدقہ قبول نہیں فرماتے بلکہ وہاں صرف پاکیزہ مال سے کیا ہوا صدقہ وخیرات قبول ہوتا ہے۔
مسئلہ نمبر39: بکری کے علاوہ دوسرے کسی جانور میں تمام شرکا اپنا اپنا حصہ تقسیم کیے بغیر فقرا کو دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔
البتہ اگر نذر کی قربانی ہو یا مرحوم کی وصیت کے تحت قربانی کر رہے ہیں تو پھر تقسیم سے پہلے کسی فقیر کو دینا درست نہیں۔
مسئلہ نمبر40: کسی نے مرتے وقت وصیت کی کہ میرے مال سے قربانی کی جائے تو اس قربانی کا سارا گوشت خیرات کرنا ضروری ہے، خود کچھ بھی نہ کھائے۔
اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو قربانی کی روح اور حقیقت سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری یہ ظاہری قربانی حقیقی قربانی کے لیے پیش خیمہ ہو اور ہم اس ظاہری و مادی قربانی کی طرح اللہ کے حکم پر اپنی جان کی قربانی کے لیے بھی ہمیشہ تیار رہیں۔
(بشکریہ ماہنامہ بینات، کراچی)
OOO