دہرے تعلیمی نظام کے باعث طلبہ کی شخصیت نا مکمل اور ادھوری جرہ جاتی ہے

436

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) طلبہ کی نامکمل اور ادھوری شخصیت کا ذمے دار بہت حد تک یہ دہرا تعلیمی نظام ہے‘ ہمارے تعلیمی نظام کی خرابی کی وجہ اس کا سماجی اور طبقاتی نظام کے ساتھ مطابقت نہ رکھنا ہے‘ یہی رویہ اور نظام کی کمزوریاں طلبہ کی شخصیت میں بے اعتمادی، انتشار اور کشمکش کو پروان چڑھاتی ہیں‘ ملک کا موجودہ تعلیمی نظام بہتر تعلیم کی فراہمی اور فلاحی کاموں میں مدد کرنے سے قاصر نظر آتا ہے‘ نجی تعلیمی نظام بہتر درس و تدریس کی فراہمی کے بجائے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے میں مصروف ہے‘ بہت سی ایسی طاقتیں موجود ہیں جو طلبہ و طالبات میں یکسانیت ختم کر کے ان کے مابین طبقاتی اور تفرقاتی فرق کو فروغ دے رہی ہیں‘ حکومت ملک میں طبقاتی درجہ بندی اور دہرے نظامِ تعلیم کے خاتمے کے لیے نصابِ تعلیم میں یکسانیت، لباس میں برابری، ذریعہ تعلیم میں ہم آہنگی اور سہولیات میں مساوات قائم کرے تاکہ نظام تعلیم اس نہج پر ترتیب دے کہ تعلیم و تربیت کے تمام تقاضے پورے ہوں‘ وسعت نظر اور ادراکِ حقیقت کے لیے تقابلی مطالعہ کا فروغ اہم ہے جو دنیاوی اور مذہبی تعلیم کے درمیان پیدا کردہ تفاوت دور کرنے کا ذریعہ ہو۔ ان خیالات کا اظہار وفاقی اردو یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ جیالوجی کی چیئرپرسن پروفیسر سیما ناز صدیقی، محمد علی جناح یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کی سربراہ مریم حنیف غازی، ضیا الدین یونیورسٹی فیکلٹی آف لا کے ڈائریکٹر سید معاذ شاہ اور سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچرار ایسوسی ایشن کے رہنما پروفیسر منور عباس نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا دہرا تعلیمی نظام طلبہ کی شخصیت متاثر کر رہا ہے؟‘‘ پروفیسر سیما ناز صدیقی کا کہنا تھا کہ اس سوال کا جواب میرے نزدیک صرف اور صرف ” ہاں” کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا کیونکہ میں خود بحیثیت طالب علم اور اب بحیثیت استاد اس کے اثرات محسوس کرتی رہی ہوں‘ سمجھ نہیں آتاوہ کون سے ارباب اختیار تھے جنہوں نے اس دہرے نظام کو رائج کرایا کیونکہ آج اسی نظام کی وجہ سے ہماری قوم میں ایک ڈگری یافتہ افراد کی بھیڑ تو تیار ہوگئی مگر اس بھیڑ میں صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ بڑی مشکل سے مل پاتے ہیں وجہ صرف یہ ہے کہ دہرا تعلیمی نظام طلبہ میں علم کے شوق کے بجائے علم سے بیزاری زیادہ پیدا کرتا ہے‘ ہمارے ملک کے نوجوانوں کی بڑی تعداد اسی دہرے نظام تعلیم کے باعث 4 نمایاں طبقات میں بٹ چکی ہے یعنی مدرسوں کے طلبہ، گورنمنٹ اسکولز کیطلبہ، انتہا غیر معیاری نام نہاد پرائیویٹ انگریزی میڈیم اسکولز کے طلبہ اور ایلیٹ کلاس کے بچوں کے لیے بنائے گئے انتہائی مہنگے فیسوں والے انگریزی میڈیم اسکولز کے طلبہ ہیں‘ ہم برصغیر میں انگریزوں سے آزاد ہونے کے باوجود آج تک ذہنی طور پر غلام ہیں‘ ہمارے طلبہ کے ذہینوں میں بھی یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ ہمارے یہاں وہی سب سے زیادہ قابل اور با علم ہے جو فر فر انگریزی بول سکتا ہے اگرچہ اس کو علم کے حوالے سے بنیادی معلومات نہ ہونے کے برابر ہی کیوں نہ ہوں‘ یہی وجہ ہے ایک طویل عرصے سے ہم میں کوئی نمایاں سائنسدان، مصنف، ڈاکٹر اور انجینئر حتی کہ ایک مکمل اچھا انسان بھی سامنے نہیں آسکا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم ان کی اپنی مادری زبان اور ساتھ ساتھ قومی زبان میں دی جاتی جن میں وہ اپنے ماحول سے بنیادی آگاہی حاصل کرتے اور اخلاقیات کی تعلیم سے بھی بہرہ مند ہوتے اور ان کی ذہن کی نشونما بھی شروع ہو جاتی پھر قومی زبان میں ان کی تعلیم مزید آگے بڑھائی جاتی۔ علم کے بنیادی نظریات و تصورات اس کی اپنی قومی زبان اردو میں اگر معیاری نصاب اور معیاری اساتذہ کے ذریعے سکھائے جاتے تو طلبہ میں مزید سیکھنے اور جاننے کی جستجو پروان چڑھتی‘ آج صرف انگریزی جاننے کے چکر میں اساتذہ اور طلبہ دونوں ہی اردو سے بھی نا بلد ہوتے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی وہ اصل علم کی روح سے بھی آگاہی حاصل کرنے سے محروم ہیں اور مزے کی بات یہ کہ انگریزی کی قابلیت بھی ان کی ناگفتہ بہ ہے‘انگریزی ایک بین الاقوامی زبان ہے مگر اسے ایک زبان کا درجہ دے کر سکھایا جاتا تو زیادہ مناسب ہوتا جیسا تقسیم ہند سے قبل جامعہ عثمانیہ میں ہوتا تھا وہاں سے طلبہ بڑے بڑے نمایاں قسم کے سائنسدان ڈاکٹرز، انجینئرز مصور مصنف شاعر اردو ذریعہ تعلیم کے ذریعے فارغ التحصیل ہوکر انگریزی کا امتحان بحثیت ایک زبان کے کامیاب کرتے اور ملک و قوم کی خدمت میں پیش پیش ہوتے۔ ہمارے یہاں بھی یہی سب ہوسکتا تھا مگر ایک سازش کے تحت کیا نہ جاسکا ہمیں تو طلبہ کو انگریزی کے ساتھ ساتھ عربی کو بھی بحیثیت زبان طلبہ کو سکھانا چاہیے تھا تاکہ ہمارے طلبہ کی اکثریت نہ صرف قرآن کو سمجھ سکتی بلکہ نوکریوں کے حوالے سے عرب ممالک میں بھی کھپ جاتی بہرحال آج سوائے ایلیٹ کلاس کے انگریزی میڈیم کے طلباء کے جن کی تعداد محض کچھ فیصد ہی ہے وہی حکمرانی کے مزے لوٹ رہی ہے‘ باقی سب انتہا فریسٹریشن کا شکار ہیں اسی وجہ سے ملک میں شرح خواندگی نہیں بڑھ سکی۔ مریم حنیف غازی کا کہنا تھا کہ ہمارے تعلیمی نظام کی خرابی کی وجہ اس کا سماجی اور طبقاتی نظام کے ساتھ مطابقت نہ رکھنا ہے‘ طلبہ کشمکش کا شکار ہوتے ہیں‘ ان کا انتخاب ہمیشہ مشکل رہتا ہے‘ ہر نظام کی اپنی خرابیاں اور اچھائیاں ہیں جوکہ طلبہ کو فیصلہ کرنے میں دشواری پیدا کرتی ہیں‘ یہی رویہ اور نظام کی کمزرویاں طلبہ کی شخصیت میں بے اعتمادی، انتشار اور کشمکش کو پروان چڑھاتی ہیں‘ ہمارا نظام ہاتھی اور مچھلی کو ایک ہی طرح زندگی گزارنے کی تربیت دیتا ہے جوکہ فطرت کے برعکس ہے‘ ہمارے طلبہ اپنے اصل رجحان اور قابلیت کو پہنچاننے سے قاصر رہتے ہیں اس لیے ان کی آنے والی زندگی میں کسی بھی کیرئیر کا انتخاب ان کے لیے مشکل ترین کام بن جاتا ہے‘ طلبہ کی نامکمل اور ادھوری شخصیت کا ذمہ دار بہت حد تک یہ دہرا تعلیمی نظام ہے‘ جسے بدلنے اور سب کے لیے یکساں تعلیمی نظام کو متعارف کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ پروفیسر منور عباس کا کہنا تھا کہ کسی بھی فلاحی ریاست کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری تعلیم بھی ہے‘ تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کا عروج و زوال تعلیم و تربیت سے جڑ اہوتا ہے‘ وہی قومیں دنیا میں اپنا سکہ منوا سکی ہیں جنہوں نے بحرِ علم سے استفادہ کیا اور وہ قومیں پستی کا شکار ہوئیں جنہوں نے علم سے دوری اختیار کی۔ دہرے نظام تعلیم کی ذمے دار ریاست اور حکمران ہیں‘ اس ملک میں اگر دہرا نظامِ تعلیم ہوتا تو بھی صورتحال اتنی ِدگر گُوں نہ ہوتی‘ حیرانگی تو یہ ہے کہ اس ملک میں نہ جانے کتنے نظامِ تعلیم ہیں‘ انگریزی اور اردو نظامِ تعلیم سے بھی بات بہت آگے نکل چکی ہے‘ آج کا طالبِ علم اس طرح کے دہرے، تہرے نظامِ تعلیم کو لے کر سخت پریشان اور اُلجھن کا شکار ہے۔ پری پرائمری سے ماسٹر ز تک نہ جانے کتنے نصاب ، نہ جانے کتنے بورڈز۔ کہیں میڑک تو کہیں او لیول ، اے لیول ، کہیں سرکاری بورڈ تو کہیں فیڈرل بورڈ، کہیں آغا خان بورڈ تو کہیں ضیا الدین بورڈ‘ اسکولز،کالجز اوریونیورسیٹز ہر جگہ دہرا معیار چل رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ 16 سالہ بی ایس سی انجینئر نگ کہلانے والی سند کو تو پاکستان انجینئرنگ کونسل تسلیم کرتی ہے مگر17 سالہ بی ٹٰیک کرنے والی سند کو پاکستان انجینئرنگ کونسل تسلیم نہیں کرتا‘ اس لیے بات گھوم پھر کر ریاست پر ہی آئے گی کہ وہ طبقاتی درجہ بندی اور دہرے نظامِ تعلیم کے خاتمے کے لیے نصابِ تعلیم میں یکسانیت، لباس میں برابری، ذریعہ تعلیم میں ہم آہنگی اور سہولیات میں مساوات قائم کرے۔ ریاستی اداروں کو چاہیے کہ نظام تعلیم اس نہج پر ترتیب دے کہ تعلیم اور تربیت کے تمام تقاضے پورے ہوں،وسعت نظر اور ادراکِ حقیقت کے لیے تقابلی مطالعہ پیش کرے‘دنیوی اور دینی تعلیم کے درمیان پیدا کردہ تفاوت دور کرنے کا ذریعہ ہو۔ سید معاذ شاہ کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک میں موجود دہرے تعلیمی نظام کا اثر سب سے زیادہ اس ملک کے طلبہ و طالبات پر پڑتا ہے کیونکہ ملکی ترقی کا دارو مدار اور روشن مستقبل اس کے نوجوان نسل پر ہی منحصر ہوتا ہے‘ اگر تعلیمی نظام بہتر ہے تو بیشک ملک کا مستقبل محفوظ ہے اور اگر تعلیمی نظام میں ہی خرابی ہے تو ملکی مستقبل بھی یقیناً غیر محفوظ ہوگا‘ موجودہ تعلیمی نظام بہتر تعلیم کی فراہمی اور معاشرتی اعتبار سے فلاحی کاموں میں مدد کرنے سے قاصر نظر آتا ہے‘ پرائیویٹ تعلیمی نظام بہتر درس و تدریس فراہم کرنے سے زیادہ پیسہ کمانے میں مصروف ہے‘ اساتذہ جان بوجھ کے طلبہ و طالبات کے لیے پڑھائی کو مشکل بنا دیتے ہیں اور کورس ادھورا چھوڑ دیتے ہیں تاکہ ٹیوشن سینٹر کے بہانے مزید پیسے کما سکیں ۔