تمام تر ترقی کے باوجود امریکی ،یورپی اقوام کے سروں سے نسلی برتری کا بھوت نہیں اترا

281

کراچی ( رپورٹ \محمد علی فاروق ) مغرب کی تمام تر ترقی کے باوجود کئی یورپی النسل شہریوں کے سروں سے نسلی برتری کا بھوت نہیں اتر سکا‘یورپین کی یہ سوچ پروان چڑھ گئی کہ سفید فام زیادہ ذہین،تعلیم یافتہ، مہذب اور بہادر ہیں اس لیے انہیں ہی غیر سفید فام اقوام پر حکومت کرنا چاہیے‘ اسی سوچ کے نتیجے میں انسانیت پر اس کے ہاتھوں 2 عالمی جنگیں مسلط کی جاچکی ہیں‘سفید فام مغربی دنیا نے انسانیت کو قوموں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے لڑایا ہے اور انسان کو انسان کے لیے درندہ بنا دیا ہے‘ یہ نسل پرست انسانیت کی تباہی کے درپے ہیں ان واقعات پر نسل پرستوں کو کسی قسم کی کوئی ندامت یا شر مندگی بھی نہیں ہے‘مغربی نسل پرستوں کا رہین سہن تو تبدیل ہوسکتا ہے‘ ان کی فطرت کا بدلنا بہت مشکل ہے‘ وہ صرف دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے ہی بدلی جا سکتی ہے۔ ان خیالا ت کا اظہار سابق سفیر اور سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد، جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی رہنما پروفیسر ابراہیم اور بین الاقوامی امور کی ماہر پروفیسر طلعت اے وزارت نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں دیا کہ ’’کیا سفید فام مغربی دنیا کبھی نسل پرستی سے بلند ہو سکے گی؟‘‘ شمشاد احمد نے کہا کہ جب امریکا میں انقلاب آرہا تھا تو سب سے بڑا سوال ہی یہ تھا کہ نسل پر ستی کو ختم کر دیا جائے‘ امریکا کی آدھی عوام چاہتی تھی کہ نسل پر ستی ختم ہونی چاہیے جبکہ آدھی عوام یہ چاہتی تھی کہ نسل پرستی رہنی چاہیے‘ لیکن عالمی دباؤ کے نتیجے میں امریکا میں تبدیلی آگئی‘ مغرب اپنی ساری کمزویوں کے باوجود اس وقت انسانیت کو فروغ دینے میں مصروف ہے‘ ہم بھارت اور پاکستان کا جائزہ لیں تو ہمیں مغربی دنیا کی نسبت یہاں زیادہ عوام کی تقسیم نظر آئے گی‘ انسان ذات پات میں بٹا ہوا ہے اور ہم مسلمان ہونے کے باوجود ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں‘ مغر ب کی برائیاں اپنی جگہ ہیں‘ ہمیں تو اسلام بھائی چارہ اور رواداری کا درس دیتا ہے‘ ہمیں دوسروں پر تنقید سے زیادہ مسلمانوں میں سرائیت ہونے والی برائیوں کی روک تھام کی ضرورت ہے۔ پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ سفید فام مغربی دنیا نہ صرف نسل پرستی کا شکار ہے بلکہ ایک ہی سفید نسل مزید نسلی تقسیم سے بھی دوچار ہے جس کے نتیجے میں انسانیت پر اس کے ہاتھوں 2 عالمی جنگیں مسلط کی جاچکی ہیں‘ مسلمانوں کی غفلت کے نتیجے میں انسانیت کی قیادت مغرب کے ہاتھوں میں جا چکی ہے‘ مسلمانوں کے پاس قرآن وسنت کی صورت میں عدل و انصاف پر مبنی انسانیت کی خوشحالی کا نظام موجود ہے لیکن یہ اس سے غافل بھی ہیں اور اس پر کالے سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں‘ نہ اس سے خود فائدہ اٹھا رہے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع دے رہے ہیں‘ سفید فام مغربی دنیا نے انسانیت کو قوموں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے لڑایا ہے‘ اقبال مرحوم نے اس پر کہا تھا کہ’ مکے نے دیا خاک جنیوا کو یہ پیغام، جمعیت اقوام کہ جمعیت آدم‘۔ پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ سفید فام نسل پرست مغربی دنیا نے انسان کو انسان کے لیے درندہ بنا دیا ہے اور انسانیت کی تباہی کے درپے ہے‘ اس کے دانشور کبھی تہذیبوں کے تصادم کے نظریے کا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں اور کبھی تاریخ کے خاتمے کا مژدہ سنانے لگتے ہیں‘ اس کا علاج مسلمانوں کے پاس ہے کہ وہ قرآن و سنت کی بنیاد پر عدل و انصاف اور امن و خوشحالی کا نظام تشکیل دے کر انسانیت کے لیے مثال بنیں اور انسانیت کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے کر سفید فام مغربی نسل پرستی کی غلامی سے انسانیت کو نجات دلادیں۔ پروفیسر طلعت اے وزارت نے کہا کہ سفید فام مغربی عوام کا نسل پرستی سے باہر نکلنا بہت مشکل ہے بلکہ مغرب میں نسل برستی مزید بڑھ رہی ہے‘ گزشتہ دنوں امریکا اور یو رپ کی مختلف ریاستوں میں ہونے والے پے در پے واقعات اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ ان واقعات پر نسل پرستوں کو کسی قسم کی کوئی ندامت یا شر مندگی نہیں ہے بلکہ وہاںکچھ نسل پرست سفید فام ان واقعات کو پرموٹ کر رہے ہیں ‘ مغر ب میں نسل پرستی کی بڑھنے کی وجہ سفید فام برتری ا وراسلامو فوبیا (اسلام اور مسلمانوں سے خوف)جیسے نفرت انگیز اور منفی نظریات ہیں‘ امریکا اور اس کی ریاستوں میں باہر سے آنے والے افراد کی تعداد کا زیادہ ہونا اسی نسل پرستی یا چھوٹی سوچ کے حامل افراد کے لیے ناگوار ہے‘ نسل پرستوں کو تو بس ایک معمولی سی وجہ بھی ان کے اندر کی نفرت کو باہر نکالنے کے لیے کافی ہے ۔ پروفیسر طلعت اے وزارت نے کہا کہ ٹرمپ کے دور میں یہ بات سامنے آئی کہ امریکا اور یورپ کی مختلف ریاستوں کے سر براہان بھی نسل پرست ہیں کیونکہ جب خارجی لوگوں کے خلاف تحریک چلا ئی گئی تو اس تحریک کو تمام سیاسی رہنماؤں نے پرموٹ کیا ‘ مغرب میں نسل پرستی کے حوالے سے بہت سی خرابیاں ہیں،ان کے نظریات کی رو سے سفید فام اقوام سیاہ و گندمی قوموں سے اعلیٰ وبرتر ہیں‘ اسی لیے وہ ان پر حکمرانی کرنے کا حق رکھتے ہیں‘ مرحوم مشہو ر ومعروف باکسر محمد علی نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھاکہ انہیںبچپن سے جوانی تک ہر سطح پر نسل پرستی کا سامنا رہا ہے بلکہ امریکا کے لیے میڈل جیتنے کے بعد بھی ایک ریسٹورینٹ سے یہ کہہ کر نکا ل دیا گیا کہ ہم کالے لوگوںکو سروس سرف نہیں کرتے‘ محمد علی کا کہنا تھا کہ انہیں سکون تب ملا جب وہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ پروفیسر طلعت اے وزارت نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ مسلمان مادہ پرستی کی جانب راغب ہو رہے ہیں اس کے باوجود مغر بی عوام اسلام میں داخل ہوکر پناہ لے رہی ہے‘ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں کم نسل یا چھوٹی ذات سمجھے جانے والے افراد اسلام میں داخل ہو رہے ہیں ،ایک امریکن کا کہنا ہے کہ وہ نسل پرستی کا سامنا کر تے کر تے بہت پریشان تھے‘ انہوں نے اسلام کا مطالعہ کیا اور اسلام میںداخل ہو گے وہ کہتے ہیں کہ جب میں حج پر گیا تو وہاںمجھ سے ہر نسل اور قوم کے لوگ ایسے مل رہے تھے جیسے میرے سگے بھائی ہوں‘ مغرب کے لوگ اسلام تو شاید قبول نہ کریں مگر اسلامی قوانین ضرور بنا رہے ہیں‘ صرف قانون سازی سے بھی کچھ نہیںہوگا اس پر عملدرآمد بہت ضروری ہے ‘ مغربی نسل پرست عوام کا رہن سہن تو تبدیل ہوسکتا ہے ان کی فطرت کا بدلنا بہت مشکل ہے وہ صرف دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے ہی بدلی جا سکتی ہے‘مغرب نے نسل پرستی کی بڑھتی ہوئی عفریت پر قابو پانے کے لیے اقدامات نہیں کیے تو رہی سہی کثر بھی پوری ہوجائے گی اور مغربی معاشرہ مزید بگاڑ کی طرف چلا جائے گا ۔تاریخ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہے کہ امریکا میں شہری حقوق کے لیے کام کرنے والے معروف ادارے سدرن پاورٹی لا کے مطابق 1600 شدت پسند گروہ موجود ہیں جو غیر سفید فام عوام پر حکمرانی کو ا پنا حق سمجھتے ہیں ۔ اسی میں (دی آلٹرنٹیو رائٹ یا آلٹ رائٹ) یہ متعصب سفید فام قوم پرست ہیں‘ آزادی اور آزادیِ اظہار کے لبادے میں دوسروں کی دل آزاری کرنا اپنا حق سمجھتے ہیںاور یہی ان کا نصب العین ہے۔ اسی طرح (کو کلکس کلین) کے نام سے تشدد پسند تنظیم سفید فام محب وطن عیسائیوں کے لیے متحرک ہے‘کو کلکس کلین سے منسلک درجنوں گروہ ایسے ہیں جن میں کانفیڈرٹ وائٹ نائٹس اور ٹریڈنیشنل امریکن نائٹس بھی شامل ہیں۔ سفید فام کی ایک اور فاشسٹ تنظیم نیو نازی بھی ہے اس کی اصطلاح ایسے گروہوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو یہودیت مخالف خیالات رکھتے ہیں اور انہیں ایڈولف ہٹلر اور نازی جرمنی سے محبت ہے۔نیو نازی گروپ میں امریکن نازی پارٹی اور نیشنل سوشلسٹ موومنٹ بھی شامل ہیں بظاہر یہ ترقی یافتہ مغرب ،خوشحال اور روشن خیال ہیں ان کا منفی اور افسوس ناک دوسرا روپ انتہائی بھیانک ہے ۔ دنیائے مغرب کی نامی گرامی شخصیات اس نظریے کی قائل ہیں،مثلاً جرمن فلسفی آرتھر شوپنہار،برطانوی سیاست داں،چرچل، جرمن آمر ہٹلر، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وغیرہ ۔