کششِ ثقل کی لہروں کا وجود، کس طرح جدید سائنس نے آئن سٹائن کا شک غلط ثابت کیا

366

1916 میں البرٹ آئن سٹائن نے کہا تھا کہ جب کافی وزن کی حامل اشیاء جب حرکت کرتی ہیں تو وہ کبھی کبھی ایسی لہریں تشکیل دیتی ہیں جو تالاب کی سطح پر لہروں کی طرح زمان و مکان کے تانے بانے سے حرکت کرتی ہیں۔

اگرچہ آئن سٹائن نے بعد میں ان کے وجود پر شبہ ظہر کیا لیکن حقیقت میں اُس کا اندازہ سہی تھا اور یہ آنے والے دور کی دریافت کی پیشگوئی ثابت ہوئی۔ 1970 کی دہائی میں پہلی بار زمین کی کشش ثقل کی لہروں کے زبردست اشارے سامنے آئے لیکن 2015 تک ان کا واضح سراغ نہیں لگایا جاسکا۔

جب امریکہ میں قائم رصدگاہ ایل آئی جی او نے فلکیات میں دور 2 بلیک ہولوں کے مابین تصادم کے نتیجے کا جائزہ لیا، اُس وقت کشش ثقل کی لہروں کی دریافت کا ایک نیا راستہ کھول دیا۔

2017 میں ایل آئی جی او نے ایک بار پھر فلکیاتی اجسام کے ٹکراؤ کے جھٹکے محسوس کیے۔ یہ اس وقت ہوا جب نیوٹران اسٹار نامی دو انتہائی کثافت کے حامل اجسام آپس میں ٹکرا گئے۔ پوری دنیا کے دوربینوں نے اس دھماکے کو دیکھا۔ اس واقعے سے روشنی اور کشش ثقل کی لہروں کا پہلا مشاہدہ کیا گیا۔ اس تاریخی حادثے نے سائنس دانوں کو ایک بے مثال بصیرت عطا کہ کشش ثقل کس طرح کام کرتی ہے اور سونے چاندی جیسے عناصر کی تشکیل کیسے ہوتی ہے۔