ایران میں آج انتخابی معرکہ ، 4 امیدوار میدان میں

309
تہران: صدارتی انتخابات کے امیدوار ( دائیں سے بائیں) ابراہیم رئیسی، امیر حسین قاضی زادہ، محسن رضائی اور عبدالناصر ہمتی کی فائل فوٹو

تہران (انٹرنیشنل ڈیسک) ایران میں صدارتی انتخابات کی تیاریاں مکمل ہوگئیں،جس کے بعد آج ملک بھر میں انتخابی معرکہ ہوگا۔ خبررساں اداروں کے مطابق حال ہی میں 3امیدواروںکی دستبرداری کے بعد اب میدان میں صرف 4امیدوار باقی رہ گئے ہیں اوران کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ آج ہونے والے انتخابی معرکے کے دوران ابراہیم رئیسی ، امیر حسین قاضی زادہ، محسن رضائی اور عبدالناصر ہمتی میدان میں اتریں گے۔ اعتدال پسند سمجھے جانے والے عبدالناصر ہمتی کا 3قدامت پسندوں سے مقابلہ ہے۔ قدامت پسند امیدوار ابراہیم رئیسی صف اول کے امیدوار سمجھے جا رہے ہیں، ان کو گزشتہ انتخابات میں 38 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے ،تاہم انہیں صدر حسن روحانی نے شکست دی تھی۔ واضح رہے کہ ایرانی آئین کے مطابق کوئی بھی امیدوار مسلسل تیسری بار صدارتی انتخاب نہیں لڑ سکتا اس لیے صدر روحانی اس بار اس الیکشن نہیں لڑ سکے۔ دوسری جانب رہبر اعلیٰ خامنہ ای نے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ ہر صورت اپنی رائے کا اظہار کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدارتی انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ اورایران پر بیرونی دباؤ کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اگر لوگ پولنگ کے عمل میں بھرپور طریقے سے شریک نہیں ہوتے ہیں تو دشمن کی جانب سے دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے امریکی اور برطانوی میڈیا پرالزام عائد کیا کہ وہ ایرانیوں کی ووٹنگ میں حصہ لینے کی حوصلہ شکنی کررہا ہے اور صدارتی انتخابات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ابراہیم رئیسی خامنہ ای کے قریبی سمجھے جاتے ہیں اور انہیں اب تک سب سے مضبوط صدارتی امیدوار خیال کیا جارہا ہے۔ 60 سالہ ابراہیم رئیسی اگر شکست سے دوچار ہوئے تو پھر ان کا خامنہ ای کی جگہ رہبراعلیٰ بننے کا امکان معدوم ہوجائے گا۔ انہیں خامنہ ای نے 2019ء میں ایرانی عدلیہ کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خامنہ ای کی اپیل کے باوجود ایران میں ان صدارتی انتخابات میں ریکارڈ کم ٹرن آؤٹ متوقع ہے ،کیوں کہ لوگ انتخابی عمل میں زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ ایران کی شورائے نگہبان نے سیکڑوں امیداواروں میں سے صرف 7کو صدارتی انتخاب لڑنے کا اہل قراردیا تھا ،جب کہ سابق صدر احمد نژاد کو مسترد کردیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ سابق نائب صدر محسن مہرعلی زادہ، قدامت پسند رکن پارلیمان علی رضا زاکانی اور ایران کے سابق اعلیٰ جوہری مذاکرات کار سعیدجلیلی نے دستبردار ہونے اعلان کردیا تھا۔