روبل کے بجائے ڈالر – امان اللہ شادیزئی

425

28 مئی 1998ء کو پاکستان کے جوابی ایٹمی دھماکے کے خلاف کوئٹہ میںایک احتجاجی جلوس نکالا گیا تھا۔ اس حوالےسے ایک کالم لکھا گیا تھا جسے قندمکرر کے طور پر شائع کیا جارہا ہے۔

پاکستان میں سوشلسٹوں کے حوالے سے بعض دفعہ عجیب سی صورتِ حال پیدا ہوتی رہتی ہے۔ جب سے ان کا مربی اور آقا سوویت یونین آنجہانی ہوا ہے یہ یتیم ہوگئے اور اپنی شکلیں بھی یتیموں جیسی بنالی ہیں۔ اب تو ان بے سہارا سوشلسٹوں کو دیکھ کر ترس سا آنے لگا ہے۔ جب یہ کسی مظاہرے میں جمع ہوتے ہیں یا مظاہرہ کرتے ہیں تو ان کے ہجوم میں عجیب سی صورتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان کے جلسوں سے ایسا لگتا ہے جیسے ان میں کوئی پکوڑے بیچنے والا ہے، کوئی چھولے والا ہے اور کوئی کباڑیہ ہے… کسی کی ٹوپی پر سالوں کا میل جمع ہوا ہے، تو کوئی پرانی کباڑی کی چھڑی ہاتھ میں لیے چل رہا ہے۔ کسی کے بال اُڑے ہوئے ہیں، تو کسی کی مونچھیں ریل کے سگنل کی طرح ڈائون ہیں، کسی نے کالے چہرے پر سرخی مَلی ہوئی ہے، کسی کی چال بے ڈھنگی ہے، تو کسی کی پتلون ڈھیلی ہے۔ کسی نے لینن کی شکل بنائی ہوئی ہے تو کوئی اسٹالن کی پتلون پہنے پھر رہا ہے، اور کوئی ہٹلر کا جوتا پہنے اترا رہا ہے۔ یتیموں کا ایک ٹولہ ہے جو سال میں کبھی کبھی سڑکوں پر یا پریس کلب کے باہر نظر آتا ہے۔ یہ سب سوویت یونین کی باقیات میں سے ہیں۔ یہ سوویت یونین مرحوم کے یتیموں کا ایک ٹولہ ہے جو آج کل امریکی چھتری کے نیچے کھڑے ہونے کی کوشش کررہا ہے۔ یہ اب عالمی انسانیت کے نام سے جمع ہورہے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے عجیب سا نام رکھا ہوا ہے۔ یہ اکٹھے نظر آجائیں تو انہیں چندہ دینے کو دل چاہتا ہے، مگر اب یہ ظالم لوگ روبل کے بجائے ڈالر کے شوقین ہوگئے ہیں، اب ان کے پیمانے میں ڈالر خوبصورت لگتا ہے۔ اس کو دیکھ کر ان کے چہروں پر خوشی دوڑتی ہے، اور اپنے آنجہانی آقا کے جھنڈے کی طرح ان کے چہرے سرخ ہوجاتے ہیں۔ اب ان کے چہروں پر ڈالروں کی سرخی زیادہ خوبصورت لگتی ہے۔ یہ پاکستان میں گروہوں کی شکل میں نظر آتے ہیں۔

بس کچھ اسی سے ملتا جلتا ایک گروہ 23 اگست کو بلدیہ پلازہ سے مارچ کرتا ہوا پریس کلب پہنچا۔ ہم پہنچے تو یہ جلوس منتشر ہوچکا تھا، کچھ باقیات پھرتی ہوئی نظر آئیں۔ اس گروہ میں اکثر وہ لوگ دکھائی دیے جو کل تک سرخ رنگ پسند کرتے تھے، مگر اب ان کے چہروں پر سیاہ بادل کا عکس نظر آتا ہے۔ مایوس چہروں کے ساتھ حسرت بھری نگاہوں سے یہ کسی اور طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ افغانستان اور سوڈان پر امریکی حملے کے حوالے سے جمع تھے، مگر حقیقت میں یہ اس لیے مارچ نہیں کررہے تھے، بلکہ ان کا اصل مقصد پاکستان اور بھارت پر سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے کے لیے دبائو ڈالنا تھا۔ قارئین محترم ہم نے جان بوجھ کر یہ لفظ استعمال کیا، یعنی ملاحظہ فرمائیں کہ 40یا 50 افراد بھارت اور پاکستان کے کروڑوں عوام کو مجبور کریں گے کہ امریکہ کی خواہش کو پورا کریں اور آنکھیں بند کرکے دستخط کردیں! انہوں نے ایک قرارداد پاس کی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان ہتھیاروں کی دوڑ میں خود کو ملوث کرنے کے بجائے اپنے مفلوک الحال عوام کی فلاح وبہبود پر اپنی توجہ مرکوز رکھے، اور جنوبی ایشیا کی آئندہ نسلوں کو نیوکلیائی جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے پاکستان اور بھارت سی ٹی بی ٹی پر دستخط کردیں۔

یہ حضرات کل تک سوشلزم کے علَم بردار تھے، اور ان یتیموں کے جلوس کی قیادت دو معذور افراد کررہے تھے جو کل تک امریکہ مُردہ باد اور سوشلزم زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگاتے تھے۔ اب جب ان کا مربی آنجہانی ہوگیا ہے تو یہ اپنی نوجوانی کا کفارہ ادا کرنے نکلے ہیں۔ وہیل چیئر پر آج یہ سامراج کے دشمن سامراج کی ڈفلی بجا رہے ہیں۔ کل جب ان کے پائوں میں دم خم تھا تو امریکہ مُردہ باد، سامراج مُردہ باد کے نعروں میں جوانی گم کردی، اب جب کہ پائوں جواب دے چکے ہیں، ہاتھ لرز رہے ہیں، نگاہیں دھندلاگئی ہیں تو اپنی آخرت خراب کرنے امریکہ کا ترانہ کورس میں گا رہے ہیں۔ یہ یتیم سوشلسٹ اب امریکی ہوگئے ہیں، اب ان کو انسانیت یاد آرہی ہے، اب ان کو جنوبی ایشیا یاد آرہا ہے، آئندہ کی نسلیں یاد آرہی ہیں۔ اب یہ امریکی ترانہ بے سُری آوازوں میں گا رہے ہیں کہ پاکستان امریکہ کی خواہشات کے مطابق چلے۔ سی ٹی بی ٹی پر دستخط کردے۔ کل کے یہ سوشلسٹ آج امریکی سوشلسٹ کا روپ دھار چکے ہیں، آج یہ امریکہ کے ہمنوا امریکی مطالبے کو لے کر اپنے ماضی کے داغ کو دھو رہے ہیں، امریکی استعمار کے ڈالروں کا عکس ان پر پڑ گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے یہ کبھی سوشلسٹ نہ تھے صرف چھلکے پر ہلکی سی سرخی تھی۔ بقول نواب اکبر بگٹی: پاکستان کے اکثر سوشلسٹ منافق تھے۔ معلوم نہیں یہ بات کل درست تھی یا نہیں، مگر آج صد فی صد درست لگتی ہے۔ یہ آج امریکی استعمار کی پالیسیوں کو لے کر چل رہے ہیں۔ آج یہ انسانیت کے علَم بردار بن کر اُٹھے ہیں مگر کل جب افغانستان آگ اور خون میں گھرا ہوا تھا تو سوشلسٹ ترانے گا رہے تھے، تالیاں بجارہے تھے، اور اس سرخ سامراج کے انتظار میں گھروں میں سرخ جھنڈیاں سلوا کر رکھی ہوئی تھیں۔ لاکھوں انسان آگ اور خون سے گزر رہے تھے تو انسانیت کے یہ نام نہاد علَم بردار سوویت یونین کے طرف دار تھے۔ اُس وقت اس افغانستان میں انسان یاد نہیں آئے! لاکھوں افغان معذور ہوگئے، ہزاروں عصمت مآب افغان خواتین سوویت یونین کی درندگی کا شکار ہوگئیں، مگر یہ انسانیت کے علَم بردار اس وقت سرخ ترانے گارہے تھے۔ یہ سرخ سامراج کے آلۂ کار تھے، اس کے طرف دار تھے۔ لیکن جب سرخ سامراج افغان ملت کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کے بعد نکلا تو بازی ہار چکا تھا۔ اس کے بعد روس رہ گیا جو امریکہ کی آغوش میں چلا گیا۔ آج وہ بین الاقوامی بھکاری ہے اور امریکہ کا دستِ نگر ہے۔ اس نے امریکہ سے سیاسی نکاح کرلیا ہے۔ اب امریکہ روس کا آقا ہے اور دنیا بھر کے یتیم سوشلسٹ امریکی پرچم تلے کھڑے اس کی نوکری کررہے ہیں۔ آج انسانیت کے یہ نام نہاد علَم بردار امریکہ کے ساتھ مل کر سی ٹی بی ٹی کا ترانہ گارہے ہیں۔ کاش یہ لوگ ذرا اپنے ماضی کو دیکھتے، گریبان میں جھانکتے۔ اب تو وہاں بھی ڈالروں کے نشان زدہ حصے ہوں گے۔ کاش یہ بوڑھے سوشلسٹ اپنے بڑھاپے کو بے آبرو نہ کرتے، اپنے کپڑوں کو پریس کلب کے سامنے نہ دھوتے۔ اے امریکہ خدا تجھے سمجھے، تُو نے پاکستان کے سوشلسٹوں کو رسوا کردیا۔ ان کو بے آبرو کردیا۔ ان کو وہیل چیئر پر بٹھا کر سرِبازار رسوا کیا۔ کچھ تو ان بوڑھے سوشلسٹوں پر رحم کیا ہوتا۔ ان کے چہروں کی کتاب کچھ دیر تک بند رہنے دیتا۔ ظالم! تھوڑی دیر تک ان کی منافقت اور چلنے دیتا۔ ان کو قبر میں جانے سے پہلے تُو نے رسوا نہ کیا ہوتا۔ تُو نے ڈالر ایجاد کرکے سوشلسٹوں کو بھی اس کا دلدادہ بنادیا۔ اب یہ روبل روبل کے بجائے ڈالر ڈالر کی صدا لگا رہے ہیں۔ تُو بڑا ظالم ہے، خدا تجھے سمجھے، تُو نے سوشلسٹ یتیموں پر بھی رحم نہ کیا۔

(This article was first published in Friday Special)