جرمنی اور فرانس نے جاسوسی پر ڈنمارک سے وضاحت مانگ لی

537
برلن: جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور فرانسیسی صدر عمانویل ماکروں مشترکہ پریس کانفرنس کررہے ہیں

برلن/ پیرس (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈنمارک کی خفیہ ایجنسی کی جانب سے امریکا کے لیے یورپی رہنماؤں کی جاسوسی کرنے پر جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور فرانسیسی صدر عمانویل ماکروں نے ڈنمارک سے وضاحت طلب کرلی ہے۔ ڈنمارک کی خفیہ ایجنسی کے امریکی خفیہ ادارے نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے ساتھ رابطوں اور تعاون کا انکشاف یورپی نیوز اور نشریاتی اداروں کے ایک گروپ نے اپنی ایک تفتیشی رپورٹ میں کیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ڈینش خفیہ ایجنسی کی مدد سے جن نمایاں یورپی رہنماؤں کی جاسوسی کی گئی، ان میں جرمن چانسلر، فرانسیسی صدر اور چند دیگر ممالک کے رہنما شامل ہیں۔ فرانسیسی صدر عمانویل ماکروں نے اس رپورٹ کے عام ہونے کے بعد ڈنمارک کی خفیہ ایجنسی کے ان اقدامات کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے یہ مذمتی بیان جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد دیا۔ ماکروں نے اس اقدام کو اتحادیوں اور یورپی شراکت داروں کے حوالے سے ناقابلِ قبول قرار دیا۔ انہوں نے یورپ اور امریکا کے تعلقات کو خوشگوار بنیادوں پر استوار ہونے کی ضرورت پر زور دیا۔ ماکروں نے واضح کیا کہ ان تعلقات میں شبہات کی گنجایش نہیں ہونی چاہیے۔ فرانسیسی صدر کے بیان کے ساتھ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے اتفاق کیا۔ انہوں نے کہا کہ معاملات کو بہتر انداز میں حل کرنے کی ضرورت ہے اور اس میں باعتماد تعلق کا ہونا اہم ہے۔ اس تناظر میں جرمن چانسلر کا لہجہ قدرے نرم خیال سمجھا جا رہا ہے۔ جرمن اور فرانسیسی رہنماؤں کی ملاقات میں اس پر بھی اتفاق کیا گیا کہ واشنگٹن اور کوپن ہیگن کی حکومتوں سے اس معاملے پر مناسب جواب لیا جانا ضروری ہے۔ جس عرصے میں ڈنمارک کی خفیہ ایجنسی نے امریکی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے لیے جاسوسی کی تھی، اس وقت موجودہ خاتون وزیر دفاع ٹرینے برامسن اس منصب پر فائز نہیں تھیں۔ انہوں نے اس میڈیا رپورٹ کے حوالے سے کوئی تصدیقی بیان نہیں دیا، البتہ انہوں نے اس جاسوسی کے عمل کی مذمت کرتے ہوئے اسے ناقابلِ قبول ضرور قرار دیا ہے۔ ڈنمارک کے حکومتی نگرانی میں چلنے والے نشریاتی ادارے ڈی ا?ر کے مطابق ٹرینے برامسن کو 2020ء￿ کے ا?خری مہینوں میں ملکی خفیہ ادارے کی کارروائی سے ا?گہی ہوئی تھی۔ ان معلومات کے ملنے کے بعد وزیر دفاع نے ڈینش خفیہ ایجنسی کے اعلیٰ عہدے داروں کو فارغ کر دیا تھا۔ یہ بھی درست ہے کہ اس وقت ان اہل کاروں کو ملازمتوں سے نکالے جانے کی کوئی وضاحت نہیں دی گئی تھی۔ ڈنمارک جس علاقے میں واقع ہے، اسے اسکینڈے نیویا کہتے ہیں۔ اسکنڈے نیویا خطے کے دیگر ممالک سوئیڈن اور ناروے نے بھی اپنے ہمسایہ ملک ڈنمارک سے اس جاسوسی کا جواب طلب کیا ہے، جب کہ ناروے کی خاتون وزیر اعظم ایرنا سولبرگ نے اسے نامناسب اور ناقابل قبول قرار دیا۔ سوئیڈن کے وزیر دفاع پیٹر ہلٹکوسٹ کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کے حوالے سے اپنی ڈینش ہم منصب کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ان سے پوچھا ہے۔