شکایت کی پٹی ڈاکٹرپیرزادہ شرَفِ عالم

340

(گزشتہ سے پیوستہ)
میں: تم نے گزشتہ نشست میں کہا تھا کہ یہ کیسی عقیدت کیسی محبت ہے جو مجھے ایک وقتی جوش اورجذبۂ ایمانی کی بنیاد پر سڑکوں پر لے آتی ہے، مگر رحمت اللعالمینؐ کے بتائے ہوئے نظام حیات کو اپنی زندگی میں عملی طور پر اختیار کرنے پر آمادہ نہیں کرتی۔
وہ: میری دانست میں یہ ایک نفسیاتی اور فطری امر ہے کہ محبت جب عقیدہ بن جائے تو انسان اس پر کوئی سودے بازی قبول نہیں کرتا اور خاتم النبیین محمد ؐ سے عقیدت تو ہر مسلمان کے ایمان کا لازمی جزو ہے۔ صحابہ کرام کی آپؐ سے محبت وعقیدت کا تو یہ عالم تھا کہ جس پانی سے آپؐ وضو فرماتے تھے صحابہ اس پانی کو زمین پر گرنے نہیں دیتے تھے۔ اب تم خود ہی سوچو کہ دنیا کی سب سے عظیم ہستی کی بدولت ہمیں قرآن پاک کی نعمت اور اسلام کی دولت ملی، جن پر ہر مسلمان اپنی جان نچھاور کرنے کو ہر وقت تیار رہتا ہے۔ ایسے میں آپؐ کی شان میں گستاخی کسی بھی مسلمان کو کیسے برداشت ہوسکتی ہے۔
میں: لیکن جو تمہارا استفسار تھا وہ اب میرا سوال بن گیا ہے کہ یہ عقیدت اور جوش ایمانی اتنا سطحی اور وقتی کیوں ہے؟
وہ: یہی تو مشکل ہے اسلام کے ساتھ بحیثیت قوم مسلمانوں کا رویہ سطحی ہے، آپؐ کے اصل پیغام سے کوسوں دور، جذبات کے پر جوش اور پر طیش اظہار میں سب سے آگے۔
میں: تم کیا سمجھتے ہو کہ آپؐ کی شان میں گستاخی پر مسلمان نعوذ باللہ خاموشی سے دبکے رہیں، کوئی احتجاج نہ کریں، اپنے ماتھے پر شکایت کی کوئی پٹی نہ باندھیں، اپنی معیشت کی تنزلی اور مغربی آقائوں کی ناراضی کے خوف سے سونٹھ کی ناس لیے بیٹھے رہیں؟
وہ: میرے بھائی یہی تو کہنا چاہ رہا ہوں کہ گستاخی تیریؐ شان میں، یہ دم ہے کس شیطان میں، ایسی صورت حال میں نبی مہربانؐ کی عزت وناموس کے لیے کسی لیت ولعل سے کام لیے بغیر پوری قوت کے ساتھ دنیا کے ہر مسلمان کو صرف زبانی احتجاج ہی نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس ملعون کو کسی عدالتی کارروائی کا انتظار کیے بغیر ایسی عبرت ناک سزا دینی چاہیے کہ آئندہ کسی شیطان کو یہ جرأت کرنے کی ہمت نہ ہو۔ اور تمام مسلم اقوام کو ایک آواز ہوکر ایسے ہر ملک کا مکمل معاشی بائیکاٹ کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا چاہیے۔ میرے دوست یہ کام تو صرف چند عرب ممالک تیل کی تجارت روک کر بآسانی کرسکتے ہیں۔ مگر جب انسان کا پیٹ بھرا ہوا ہوتا ہے ناں تو اس کے منہ سے صرف ڈکاریں ہی نکلتی ہیں اور ایک کھانے کے بعد اسے اگلے کھانے کی فکر ستانے لگتی ہے۔
میں: مگر وہ بات ابھی تک ادھوری ہے کہ اللہ کے رسولؐ کے لیے ہماری عقیدت اور طرز عمل میں دو رنگی کیوں ہے؟ بقول پروفیسر عنایت علی خاں مرحوم
ترے ثور و بدر کے باب کے میں ورق الٹ کے گزر گیا
مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزہ دیا
وہ: یہی تو وہ نفسیات ہے کہ انسان اپنی سب سے ہر دلعزیز ہستی کی شان کے خلاف ایک لفظ بھی برداشت نہیں کرتا بھلے اس کی زندگی میں اس ہستی کے بتائے ہوئے رہنما اصول عملی حیثیت میں بس رسمی طور پر ہی ظاہر ہوتے ہوں۔ اس امر کو ایسے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ اولاد اپنے ماں باپ کی نصیحتوں پر ذرا برابر بھی کان نہ دھرے مگر اسے اپنے والدین کے خلاف ایک بھی توہین آمیز جملہ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہوتا، تو پھر سرورکائناتؐ کی شان میں کسی شیطان کی جانب سے کی گئی رتی برابر گستاخی بھی کسی مسلمان کو کیسے برداشت ہوسکتی ہے، بھلے اس کی زندگی نبی کریمؐ کے سیرت و کردار پر عمل سے یکسر خالی ہو، اور نہ ہی اس کے دل میں کبھی یہ خواہش جاگی ہوکہ آپؐ کے لائے ہوئے دین اسلام کو عملی حیثیت میں نافذ ہونا چاہیے اور اس کے نفاذ کی جدوجہد میں ذاتی حیثیت میں بھی اپنا حصہ ملایا جائے۔
میں: لیکن بے شمار مسلمان ہیں جو کردارو عمل میں تقویٰ کے بلند مقام پر فائز ہیں، سیکڑوں لوگ ان کی باتوں کو اہمیت دیتے ہیں اور وہ جہاں جاتے ہیں ہزاروں لاکھوں کا مجمع اس شخصیت کو اپنے جلو میں لے لیتا ہے۔
وہ: پر افسوس کہ اس پزیرائی اور دل گرفتگی کے باوجود ہمارے دل قرآن کے پیغام اور چہرے ایمان کی رمق سے خالی ہیں۔ اسلام پر صدیوں سے طاری اس جمود کا نتیجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مولانا طارق جمیل تو بہت آئے مگر غازی علم دین شہید پیدا نہ ہوسکے۔ یہ ہے قرآن کے ماتھے پر بندھی شکایت کی وہ پٹی جو مجھ سے، تم سے اور دنیا کے ہر مسلمان سے شکوہ کررہی ہے۔
دل لرزتا ہے حریفانہ کشا کش سے ترا
زندگی موت ہے کھودیتی ہے جب ذوقِ خراش