بِگ بینگ اور قرآن، جدید سائنسی دور کو چونکادینے والی آیت

676

کئی سو سال پہلے تک دنیا کے بہترین سائنسی ذہنوں کا خیال تھا کہ کائنات ہمیشہ سے موجود ہے۔ اس لئے اس کے بنانے میں کسی خالق کی ضرورت نہیں۔ آئن اسٹائن نے یہ نظریہ تبدیل کردیا۔

آئنسٹائن کی سائنسی equations نے واضح کیا کہ کائنات ایک غبارہ کی طرح پھیل رہی ہے لہٰذا کائنات ہمیشہ سے موجود نہیں تھی۔ ریاضی دان اور بیلجیئم کے رہائشی جارج لیماتری نے بھی اس کی تائد کی کہ یہ توسیع کہیں سے شروع ہوئی ہے اور رفتا رفتا اس نظریے کے قوی ہونے میں شواہد ملتے رہے اور بالآخر یہ حقیقیت بگ بینگ کے نام سے مشہور ہوئی۔

لیکن قرآن پاک نے 1400 سال پہلے ہی بگ بینگ کو بالکل ٹھیک انداز میں بیان کردیا تھا۔

اَوَ لَمۡ یَرَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ کَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰہُمَا ؕ وَ جَعَلۡنَا مِنٍٍٍََََّۡ

کیا کافر یہ نہیں دیکھتے کہ آسمان اور زمین ایک (رتقاً) تھے پھر ہم نے ان کو کھول دیا؟ اور ہم نے پانی سے ہر جاندار کو بنایا۔ پھر کیا وہ یقین نہیں کریں گے؟ 

قرآن پاک ، 21:31

عربی لفظ رتقاً کے معنی ہیں مجموعہ کا حامل ایک وسیع و عریض مادہ۔ اس کا مطلب تاریکی بھی ہے۔ ایک تاریک اور وسیع و عریض مادہ۔ سائنسدان جان گئے ہیں کہ کائنات ابتدائی لمحوں میں کس طرح دکھائی دیتی تھی۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات کو پیدا کرنے کے لئے آسمانوں اور زمین واقعتاً ایک وسیع مادے کو کھول کر نکالے گئے ہیں۔

آیت میں مزید کہا گیا ہے کہ پانی زندگی کی اساس ہے۔ اب یہ ایک قبول شدہ سائنسی حقیقت ہے۔ جب ناسا زندگی گزارنے والے سیاروں کی تلاش کرتا ہے تو وہ سب سے پہلے پانی کی تلاش کرتے ہیں۔

اس آیت کی چونکانے والی طاقت ہمارے کفر انگیز دور کیلئے ایک عظیم نشانی ہے۔