مسجد اقصیٰ لہو لہو – مسعود ابدالی

340

ایک طرف اسلامی دنیا رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اللہ کی رحمتیں سمیٹنے میں مصروف ہے، تو دوسری طرف قبلہ اوّل کے اردگرد آنسو گیس کا دھواں اور ربڑ کی گولیوں کی تڑٹراہٹ گونج رہی ہے۔ لگتا ہے کہ اس بار غسلِِ عید بھی فلسطینی اپنے پاک لہو سے کریں گے۔ اب تک ایک 16 سالہ بچے سمیت تین فلسطینی حرمتِ قدس پر قربان ہوچکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد تین سو سے زیادہ ہے۔ درجنوں افراد اسرائیلی فوج کے گھڑ سوار دستوں سے کچل کر گھائل ہوئے۔ رمضان کی ستائیسویں شب فلسطینیوں کے لیے شامِ غریباں بن گئی جب حرم شریف کے ساتھ مسجد اقصیٰ کے اندر بھی اسرائیلی فوج نے ربڑ کی گولیاں برسائیں۔ اسی کے ساتھ مسجد کی بجلی بند کرکے خوفناک چمک اور بھیانک آواز پیدا کرنے والے Sound Grenades پھینکے گئے۔گھپ اندھیری،کھچاکھچ بھری مسجد میں قیامت خیز دھماکوں سے کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہوئے۔ اسرائیلی فوج کے سربراہ جنرل عفیف کہفی (Aviv Kohafi) نے مظاہرے کچلنے کے لیے اضافی فوجی دستے تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے۔

قیامِ اسرائیل کے وقت سے کوشش ہے کہ فلسطینی اپنا وطن چھوڑ کر مصر، شام اور اردن چلے جائیں، لیکن ان سخت جانوں کو اصرار ہے کہ

ہم اسی گلی کی ہیں خاک سے
یہیں خاک اپنی ملائیں گے

فلسطینیوں کے اجڑنے کی داستان 74 سال پرانی ہے جب 1947ء میں اقوام متحدہ نے فلسطین پر تاجِ برطانیہ کے قبضے کو ملکیتی حقوق عطاکردیے، اور برطانیہ نے ترنت ہی فلسطین کو عرب اور یہودی علاقوں میں تقسیم کردیا۔ اس بندربانٹ کا ذکر ہم اپنے ایک مضمون میں اس سے پہلے کرچکے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے 32 فیصد اسرائیلیوں کو فلسطین کا 56 فیصد علاقہ بخش دیا گیا، جس پر اسرائیلی ریاست قائم ہوئی۔ فلسطینیوں کو اپنی ہی ریاست کی 42 فیصد زمین عطا ہوئی۔ اس پورے قصے بلکہ المیے کا احاطہ ایک کالم بلکہ ایک کتاب میں بھی ممکن نہیں، چنانچہ آج ہم اپنی گفتگو بیت المقدس تک محدود رکھیں گے جہاں آج کل قیامت بپا ہے۔

تقسیم کے وقت بیت المقدس مشترکہ اثاثہ یا Corpus Separatum قرارپایا۔ گنبدِ صخریٰ، مسجد اقصیٰ، دیوارِ گریہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقام پیدائش بیت اللحم سمیت اہم متبرکات اور مقدسات مشرقی جانب دیوار سے گھرے ایک مربع کلومیٹر کے قریب رقبے میں ہیں جنھیں بلدیہ القدیم یا Old City کہا جاتا ہے۔ اولڈ سٹی اور مضافات پر مشتمل پورا علاقہ مشرقی یروشلم یا القدس الشرقیہ کہلاتاہے۔ اُس وقت القدس شریف یا بیت المقدس کی آبادی ایک لاکھ تھی جہاں مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی تعداد تقریباً برابر تھی۔ مشرقی بیت المقدس میں مسلمانوں اور مسیحیوں کی اکثریت تھی، جبکہ مغربی بیت المقدس میں یہودی آباد تھے۔

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے مشترکہ اثاثے کا مطلب ہی یہ تھا کہ ہتھیار وسیاست سے پاک اس غیر عسکری علاقے کا انتظام مقامی آبادی کے ہاتھ میں ہوگا، جہاں لوگ صرف زیارت و عبادت کی غرض سے جاسکیں گے اور علاقہ ساری دنیا کے غیر مسلح و پُرامن زائرین کے لیے ہر وقت کھلا رہے گا۔ تقسیم کا اعلان ہوتے ہی اسرائیلیوں نے جشنِ آزادی کے جلوس نکالے اور ان مسلح مظاہرین نے عرب علاقوں پر حملے کیے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد میں تقسیم پر عمل درآمد اور اس کے بعد اسرائیل و فلسطین کے درمیان امن قائم رکھنے کی ذمہ داری برطانیہ پر عائد کی گئی تھی۔ یہ ذمہ داری برطانیہ نے کچھ اس طرح ادا کی کہ فلسطینی آبادیوں کے گرد فوجی چوکیاں قائم کرکے انھیں محصور کردیا اور اسرائیلی دہشت گرد برطانوی چوکیوں کی آڑ لے کر بہت اطمینان سے فلسطینی بستیوں کو نشانہ بناتے رہے۔ اس دوران ہزاروں فلسطینی مارے گئے۔ برطانوی فوج کی واپسی سے ایک ماہ پہلے 5 اپریل 1948ء کو اسرائیلی فوج یروشلم میں داخل ہوگئی، حالانکہ معاہدے کے تحت بیت المقدس میں فوج تو دور کی بات کسی شخص کو پھل تراش سے بڑی چھری اور پٹاخہ تک لے کر جانے کی اجازت نہ تھی۔ فلسطینی سینہ تان کر سامنے آئے لیکن جدید اسلحے سے لیس اسرائیلیوں نے نہتے جوانوں کی مزاحمت کو کچل دیا۔ ’’فتح مبیں‘‘ کے بعد اسرائیلی رہنما ڈیوڈ بن گوریان نے Eretz Yisrael (ارضِ اسرائیل یا ریاست اسرائیل) کے نام سے ایک ملک کے قیام کا اعلان کردیا، جسے امریکہ اور روس نے فوری طور پر تسلیم کرلیا۔ اُس وقت ہیری ٹرومن امریکہ کے صدر، اور مشہور کمیونسٹ رہنما جوزف اسٹالن روس کے سربراہ تھے۔ ستم ظریفی کہ اقوام متحدہ کی اس قرارداد پر جس میں صراحت کے ساتھ لکھا تھا کہ تقسیمِ فلسطین عارضی ہے اور اسے ریاست کی بنیاد نہیں بنایا جائے گا، امریکہ اور روس دونوں کے دستخط تھے۔

امریکہ اور روس سے توثیق کے بعد اسرائیلی فوج نے علاقے میں نسلی تطہیر کا کام شروع کیا اور یہاں آبادلاکھوں فلسطینیوں کو غزہ کی طرف دھکیل دیا گیا، اور وہ بھی اس طرح کہ بحرِروم کی ساحلی پٹی پر اسرائیلی فوج نے قبضہ کرکے سمندر تک رسائی کو ناممکن بنادیا۔ گویا کھلی چھت (Open Air) کے اس عظیم الشان جیل خانے میں 12 لاکھ فلسطینی ٹھونس دیے گئے۔ بہت سے فلسطینیوں نے جان بچانے کے لیے اردن کا رخ کرلیا۔ جبری اخراج کے پہلے مرحلے میں فلسطینیوں سے مجموعی طور پر 2000 ہیکٹرز (Hectares) یا 2 کروڑ مربع میٹر اراضی چھین لی گئی۔ تاہم چند ہزار سخت جان مشرقی بیت المقدس رہ جانے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی دوران 15 مئی 1948ء کو اسرائیل نے اپنے عرب پڑوسیوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ اُن دنوں عرب لیگ ایک مؤثر ادارہ تھا، چنانچہ سعودی عرب، عراق اور شمالی یمن سمیت تمام عرب ممالک نے القدس کی آزادی کے لیے فوجی دستے بھیجے۔ جنگ میں عربوں کی کارکردگی خراب رہی لیکن اردنی افواج نے مشرقی بیت المقدس کو اسرائیلی قبضے سے آزاد کرالیا۔ مغربی بیت المقدس بدستور اسرائیل کے پاس رہا۔ اسرائیلی دہشت گردی سے تنگ آکر تل ابیب، حیفا اور یہودی اکثریت کے دوسرے علاقے سے خاصے فلسطینی مشرقی یروشلم آگئے جو اب اردن کی ہاشمی سلطنت کا حصہ تھا۔

جنگ ختم ہونے کے باوجود مشرقی بیت المقدس میں دہشت گردانہ کارروائی جاری رہی، حتیٰ کہ 5 جون 1967ء کو خوفناک عرب اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا، جو صرف 6 دن جاری رہی، لیکن اس مختصر دورانیے میں اسرائیل نے شام سے گولان کی پہاڑیاں، اردن سے مشرقی بیت المقدس سمیت غربِ اردن اور مصر سے صحرائے سینائی کا بڑا علاقہ چھین لیا۔ جنوبی لبنان کے کچھ علاقے پر بھی اسرائیل نے قبضہ جما لیا۔ مشرقی بیت المقدس پر قبضہ کرتے ہی اسرائیل نے اس کے مشرقی ومغربی حصے باہم ضم کرکے یروشلم کو اپنا دارالحکومت قرار دے دیا۔ اسرائیل کے اس فیصلے کے خلاف سلامتی کونسل میں بات اٹھی، لیکن امریکہ اور برطانیہ نے ویٹو کرکے قرارداد کو غیر مؤثر کردیا۔ عربوں کی اشک شوئی کے لیے کہا گیا کہ عالمی برادری مشرقی بیت المقدس کو فلسطین کا حصہ تصور کرتی ہے۔

پانچ سال بعد اکتوبر 1973ء میں ایک اور جنگ ہوئی جس کا آغاز یہودیوں کے تہوار ’کپر‘ کے روز ہوا۔ اس لیے اسرائیلی اسے ’یومِ کپر‘ جنگ کہتے ہیں۔ جبکہ عربوں کے لیے یہ ’جنگِ اکتوبر‘ ہے۔ جنگ چونکہ رمضان میں ہوئی اس لیے اسے ’معرکۂ رمضان‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اٹھارہ دن جاری رہنے والی اس جنگ میں مصر اور شام کو شکست ہوئی اور اسرائیلی فوجیں نہر سوئز عبور کرکے قاہرہ سے صرف 60 کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچ گئیں۔

پے درپے عسکری شکست سے عربوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی اور اسرائیل کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل کے بجائے شام، مصر اور اردن نے اپنے ملکی مفادات کو آگے بڑھانا شروع کردیا۔ سب سے پہلے صدر انوارالسادات نے 1978ء میں اسرائیل سے جنگ بندی کا معاہدہ کیا جو ’کیمپ ڈیود عہدِ امن‘ کے نام سے مشہور ہوا، جس کے بعد 1994ء میں اردن کے شاہ حسین نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔

امریکہ کے دبائو پر اسرائیل سے تعلقات کے ہونکے میں جہاں عربوں نے فلسطینیوں کو نظرانداز کردیا وہیں اسرائیل نے مقبوضہ عرب علاقوں پر اسرائیلی بستیاں قائم کرنی شروع کردیں۔ پہلے تو ہائوسنگ سوسائٹیاں بناکر فلسطینیوں کے خالی و غیر آباد علاقوں پر قبضہ کیا گیا۔ اس کے بعد فلسطینیوں کی ہنستی بستی آبادیوں پر بلڈوزر پھیرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بے گھر ہونے والے عرب غربِِ اردن کے مہاجر کیمپوں کی زینت بن گئے۔

اس سلسلے میں بڑی کارروائی 2014ء میں ہوئی جب یہودا اور السامریہ کے ہنستے بستے شہر خالی کرائے گئے۔ وزیراعظم نیتن یاہو کا مؤقف تھاکہ یہودا اور سامریہ میں 1967ء سے نافذ مارشل لا کی وجہ سے علاقے کی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائداد پہلے ہی فوج کی ملکیت ہے۔ اب اس ہٹ دھرمی کا کیا علاج کہ کوئی اور نہیں بلکہ خود اسرائیلی عدالت اپنے ایک فیصلے میں یہودا اور سامریہ سمیت پوری وادیِ اردن کو مقبوضہ علاقہ قرار دے چکی ہے۔ دوسری مدت کا انتخاب جیتنے کے بعد صدر اوباما نے کہا تھا کہ وہ اسرائیل و فلسطین دو آزاد و خودمختار ریاستوں کے حامی ہیں اور ان کے خیال میں مشرقی بیت المقدس فلسطین کا دارالحکومت ہوگا۔ امریکی صدر کی خواہش کو پیروں تلے روندتے ہوئے یہودا اور سامریہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے وہاں اسرائیلی بستیاں تعمیر کردی گئیں۔ صدراوباما نے بھی یہ توہین بے شرمی سے برداشت کرلی۔

ادھر کچھ عرصے سے مشرقی بیت المقدس کی حیثیت تبدیل کرنے کی مہم شروع کردی گئی ہے۔گزشتہ دنوں جب فلسطین کے پارلیمانی انتخابات کا اعلان ہوا تو نیتن یاہو نے صاف صاف کہا کہ مشرقی بیت المقدس دارالحکومت کا حصہ اور اسرائیل کا اٹوٹ انگ ہے۔ فلسطینیوں کو القدس شریف اور مسجد اقصیٰ تک رسائی تو ہے لیکن یہ علاقہ ان کی سیاسی عمل داری میں شامل نہیں لہٰذا یہاں انتخابات نہیں ہوں گے۔

اسی کے ساتھ مشرقی بیت المقدس میں آباد فلسطینیوں کو مشکلات میں مبتلا کرنے کی مہم کا آغاز ہوا، جس میں گھروں پر چھاپے، اوباش نوجوانوں کے حملے، جعلی پولیس مقابلوں میں فلسطینیوں کا قتل، بلدیہ کی طرف سے تجاوزات ہٹانے کے نوٹس، کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزیوں پر دکانوں کی بندش وغیرہ شامل ہیں۔ ابھی چند دن پہلے آرائشِ گیسو کی ایک ماہر 60 سالہ فلسطینی خاتون کو فوج نے گولی مار کر قتل کردیا۔ بیت اللحم کی رہائشی فہیمہ الحروب کا چلتا ہوا سیلون فوج نے بند کرا دیا تھا، نتیجے کے طور پر وہ بیچاری کوڑی کوڑی کی محتاج ہوگئی۔ اس صدمے سے فہیمہ دماغی توازن کھو بیٹھی اور سڑکوں پر بے مقصد مٹر گشتی اس کی عادت بن گئی۔ پیر 10 مئی کو یہ خاتون نابلوس کے قریب سڑک پر چلتے چلتے فوجی چوکی کے پاس پہنچ گئی۔ سپاہیوں نے رکنے کا اشارہ کیا لیکن دماغ سے مائوف خاتون کو تنبیہ کا پتا ہی نہ چلا اور وہ خراماں خراماں چلتی رہی۔ اسرائیلی فوجیوں نے چند گز کے فاصلے سے اس کے سرکو نشانہ بنایا اور یہ خاتون موقع پر ہی دم توڑ گئی۔ ایسے ہی ایک واقعے میں تین دن بعد 16 سالہ سعید عودہ اسرائیلی فوج کا نشانہ بنا۔

موجودہ کشیدگی کا سبب مشرقی یروشلم کے قدیم محلے شیخ جرّاح کے مکینوں کو ملنے والے نوٹس ہیں۔ یہ چٹھیاں کہیں اور سے نہیں بلکہ عدالت سے آئی ہیں۔ سیکڑوں اسرائیلی شہریوں نے اجتماعی درخواست میں عدالت سے استدعا کی ہے کہ شیخ جراح کے مکینوں سے جائداد اور دکانیں خالی کرائی جائیں۔ وزارتِ دفاع کے مطابق یہاں آباد لوگوں کو بے دخل کرکے غربِ اردن کے مہاجر کیمپ منتقل کردیا جائے گا، اور اس مقام پر اسرائیلیوں کے لیے 530 مکانات اور شاپنگ سینٹر تعمیر ہوں گے۔

شیخ جراح، سلطان صلاح الدین ایوبی کے ذاتی طبیب تھے جن کے نام پر 1865ء میں یہ محلہ آباد ہوا، یعنی اسرائیل کے قیام سے 83 سال پہلے۔ اب کہا جارہا ہے کہ یہاں آباد لوگوں کے پاس قبضے (لیز) کی قانونی دستاویزات نہیں تھیں، لہٰذا جائداد بحقِّ سرکار ضبط کرکے ’’شفاف نیلامی‘‘ کے ذریعے اسرائیلیوں کو فروخت کردی گئی۔ ’’خریداروں‘‘ نے پراپرٹی پر قبضے کے لیے عدالت سے رجوع کرلیا ہے۔ سائلین کا دعویٰ بڑا مضبوط ہے کہ ادائیگی براہِ راست سرکار کو کی گئی ہے اور تعمیر کے لیے بینکوں سے قرض منظور ہونے کے بعد تعمیراتی اداروں سے معاہدے بھی ہوچکے ہیں۔ فیصلہ 17 مئی کو سنایا جانا ہے۔

بے دخلی کے خلاف یہاں آباد فلسطینی مظاہرے کررہے ہیں، جنھیں منتشر کرنے کے لیے طاقت کے بے رحمانہ استعمال نے بہت سے فلسطینیوں کی جان لے لی۔ پولیس مظاہرین کا تعاقب کرتے ہوئے مسجدِ اقصیٰ تک آگئی۔ آخری عشرے کے آغاز سے اسرائیلی فوج و پولیس نے گنبدِ صخرا کے دالان اور نابلوس کی طرف کھلنے والے دروازے باب العامور المعروف دمشق گیٹ پر قبضہ کرلیا، جہاں فلسطینی رمضان میں افطار کرتے ہیں۔ اس دروازے کے باہر فلسطینی ٹھیلوں پر افطار کا سامان اور قہوہ فروخت کرتے ہیں۔

جمعرات کی رات پولیس اُس وقت مسجد اقصیٰ کی طرف آئی جب لوگ تراویح پڑھ رہے تھے۔ رمضان کی پچیسویں شب ہونے کے سبب مسجد گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی تھی اور لوگوں نے باہر بھی صفیں بنالی تھیں۔ پولیس نے آتے ہی باہر نماز پڑھنے والوں کو منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس پھینکنی شروع کردی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ عبادت مسجد تک محدود ہونی چاہیے اور فلسطینی اوقاف کی ذمہ داری ہے کہ جب مسجد بھرجائے تو وہ بعد میں آنے والوں کو واپس گھر بھیجیں۔ اسی کے ساتھ فوج کے سپاہیوں نے لائوڈ اسپیکر کے تار کاٹ دیے۔ مسجد خالی کرانے کے لیے اشک آور گیس پھینکی گئی جس سے سیکڑوں نمازی زخمی ہوئے اور 53 افراد ڈنڈوں اور ربر کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ تصادم میں 17 پولیس والے بھی زخمی ہوئے۔

مقتدرہ فلسطین کے صدر محمود عباس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم مسلم امت اور اسرائیل کے ’’ابراہیمی دوستوں‘‘ کو اس پر کوئی تشویش نہیں۔ صرف ترکی اور پاکستان کی جانب سے مذمتی بیان جاری ہوئے۔ صدر ایردوان نے اپنے ایک ٹویٹ میں قبلۂ اوّل پر اسرائیلی فوج کی چڑھائی کو ایک قابلِ نفرت قدم قرار دیا ہے۔ ترکی، عبرانی اور عربی زبانوں میں جاری ہونے والے پیغام میں ترک صدر نے فلسطینیوں سے مکمل یکجہتی کا اعلان کیا۔ یورپی یونین نے بھی اسرائیلی اقدامات کو امن کے لیے خطرہ قراردیا ہے، لیکن عالمی ذرائع ابلاغ عملاً خاموش ہیں۔ امریکہ کے تینوں مسلمان ارکانِِ کانگریس سمیت ترقی پسند جسٹس ڈیموکریٹس کے 10 ارکان نے فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے مذمتی ٹوئٹس بھیجے ہیں۔

شیخ جرّاح محلے میں اسرائیلی بستیوں کے قیام سے ہزاروں فلسطینیوں کے بے گھر ہونے کا صدمہ اپنی جگہ، لیکن اس سے بڑا ڈر یہ ہے کہ اگر نسل پرست، مشرقی بیت المقدس سے مسلمان بستیاں ختم کرکے یہاں اسرائیلیوں کو آباد کرنے میں کامیاب ہوگئے تو القدس اور مسجد اقصیٰ کا تشخص بری طرح متاثر ہوگا۔ معمولی سی بدامنی پر باہر سے آنے والے فلسطینیوں کا قدیم شہر میں داخلہ بند کردیا جاتا ہے۔ اس صورت میں مشرقی یروشلم کے مسلمانوں کے دم سے ہی مسجد اقصیٰ آباد رہتی ہے۔ اگر یہ آبادی اجڑ گئی تو خاکم بدہن اللہ کا یہ قدیم گھر بھی ویران ہوسکتا ہے۔ ماضی میں تلاشِ آثارِ قدیمہ کے نام پر مسجد اقصیٰ کے انہدام کی کئی کوششیں کی گئیں جسے یہاں آباد مسلمانوں نے ناکام بنایا۔ پاسبانوں کی بے دخلی کہیں بنتِ کعبہ کی بے حرمتی کی پیش بندی تو نہیں؟

(This article was first published in Friday Special)