مریم کی مسکراہٹ

487

 مریم افیفی۔۔ اس کے چہرے پر خوف تو کجاخوف کی پرچھائیں بھی نہیں۔ یہودی درندوں کے ہاتھوں گرفتاری پر، رخساروں پر آنسوئوں کی لکیریں ہیں اور نہ گردن پر رکھا ہوا فوجی کا گھٹنا اس کے درد کو سسکی بنا رہا ہے۔ پشت پر ہتھکڑی سے ہاتھ بندھے ہونے کے باوجود وہ یوں مطمئن ہے یوں مسکرا رہی ہے جیسے ستاروں میں اپنے آشیانے میں بیٹھی ہو۔ چہرہ زرد ہے اور نہ دل درد، پھولوں کے رنگ اس کے سراپا پر کھلے ہوئے ہیں۔ ارض فلسطین جو انسانی بستی کم اور یہودی مظالم کا جزیرہ زیادہ ہے اس کے آسمان پرچاند اُداس ہے لیکن زمین پر آتشی گولوں، آنسو گیس کے دھویں اور تڑتڑاتی گولیوں میں مریم کے چہرے پر چاندنی ہی چاندنی ہے، مسکراتی ہوئی۔ اس مسکراہٹ نے جمعہ سے مسجد اقصیٰ کے احاطے میں نہتے فلسطینیوں پر یہودی فوج کی فائرنگ، آنسو گیس شیلنگ اور واٹر کینن کے استعمال کو بہت حقیر اور بے معنی بنادیا ہے۔ آگ اور گولیوں کی بارش میں بھی مریم اہل ستم کو پیغام دے رہی ہے کہ ہمیں معلوم ہے ہم نشانے پر ہیں، چلتی بندوقوں کے دہانے ہماری سمت اُٹھے ہوئے ہیں، پوری ریاستی قوت، اسلحے سے لیس ہمارے مقابل ہے لیکن بے خوف ہوکر موت سے کھیلنا ہماری تاریخ اور ہماری عادت ہے۔ مریم کا کہنا ہے ہمارے چہرے پر اب خوف نہیں ہوگا۔
یہ ماہ وسال عالم اسلام کی آزمائش کے ہیں۔ قدرت نے ایک لکیر کھینچ دی ہے۔ جو یہودی وجود کے ساتھ ہیں وہ ایک طرف اور جو ہاتھوں میں پتھر لیے، جان کے زیاں سے بے نیاز ان کے مقابل کھڑے ہیں وہ دوسری طرف۔ وہ جو اسرائیل کے ساتھ ہیں عالم اسلام کے ان حکمرانوں کے چہروں سے مورخ کو نقاب کھینچنے کی ضرورت نہیں۔ ان کی منافقت ازخود نمایاں سے نمایاں تر ہوتی جارہی ہے۔ وقت کے فیصلے کا انتظار! اس کی بھی ضرورت نہیں۔ پاکستانی فوجی قیادت ہو، سعودی بادشاہ ہوں، ترکی کے شہنشاہ اعظم ہوں یا کسی اور اسلامی ملک کے عالی جاہ، وہ کس کے ساتھ کھڑے ہیں؟ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ اسرائیل کے لیے ان کے منہ سے ادا ہونے والا ہر لفظ منافقانہ اور ظالمانہ ہے۔ عالم اسلام وہ شاہ بلوط کا درخت جسے ایک دن آسمان کو چھونا ہے، ان حکمرانوں نے اسے بون سائی بناکر یہود ونصاریٰ کے ہاتھوں میں دے دیا ہے اور خود اپنے منافقانہ بیانات سے نا امیدی بانٹتے اور مایوسی پھیلاتے نظر آرہے ہیں۔ لیکن کیا مسلمان ناامید، مایوس اور خوف زدہ ہیں۔ مریم کی مسکراہٹ کی طرف دیکھ لیجیے۔ جواب مل جائے گا۔
اس وقت دنیا کی کل آبادی میں مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں قطرے مل جائیں تو سیلاب بن جاتے ہیں، ہوائیں چلیں تو آندھیاں بن جاتی ہیں، ذرّے یکجا ہوں تو گردوغبار کے طوفان بن جاتے ہیں لیکن مسلمانوں کی اس عظیم تعداد کو چھوٹے چھوٹے ممالک کے ڈربوں میں بند کرکے، مغرب کے ایجنٹ ان پر مسلط کردیے گئے ہیں جو حج، عمروں اور نمازوں کے فوٹو سیشن سے، بیت اللہ کے اندر نوافل کی ادائیگی کی تصاویر سے امت کو یقین دلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ ہم تم میں سے ہیں، لیکن یہ ہم میں سے نہیں ہیں۔ یہ احرام میں لپٹے ہوئے ابلیس ہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی صلیبیوں کے مقابلے میں اتنے مصروف رہے کہ تاعمر کعبہ نہ دیکھ سکے مدینے میں ننگے پائوں نہ چل سکے، تمام تر خواہش کے باوجود حج نہ کرسکے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات، مسلمانوں کی زمین کا دفاع اور اللہ کے دین کے غلبے کی کوشش انفرادی عبادات سے پہلے آتی ہے۔
یہ غدار حکمران وجہ ہیں کہ مسلمانوں کی 80لاکھ سے زیادہ افواج، ہزاروں لڑاکا طیارے اور میزائل ہونے کے باوجود قبلہ اوّل کی حفاظت غلیل کے نشانوں اور پتھروں سے کرنی پڑ رہی ہے۔ عرب ملکوں کے سارے باشندے مل کر اسرائیل پر تھوک دیں تو وہ اس میں بہہ جائے لیکن یہ عرب سلاطین مزاحم ہیں جنہوں نے یہودی وجود کو تسلیم کرلیا ہے۔ جو اللہ کی آخری کتاب کی تنبیہ کے باوجود یہود ونصاریٰ کے دوست بنے ہوئے ہیں۔ ان حکمرانوں کا موضوع، ان کی سوچ یہودی وجود کو فنا کرنا نہیں اسے تسلیم کرنا اور کس وقت تسلیم کرنا ہے۔ جب کہ امت کا موضوع!! مسجد اقصیٰ کے احاطے میں فلسطینیوں نے یہودی فورسز کی جانب سے فائر کیے جانے والے آنسو گیس کے شیل اور اسٹن گرینیڈ کے خولوں سے مسجد اقصیٰ کی شبیہہ بنائی اور عربی میں نعرہ لکھا ’’تم یہاں سے نہیں گزر سکتے‘‘۔ یہ شبیہہ اور نعرہ اُمت مسلمہ کی فکر، سوچ اور مستقبل کے عزائم کا ترجمان ہے۔
کئی برسوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ مسلمان رمضان کے آخری عشرے میں مسجد اقصیٰ میں اعتکاف کرتے ہیں اور یہودی افواج ان پر آتش وآہن کی بارش کردیتی ہیں۔ دنیا حیران! جان بوجھ کر خطرے میں کودنا اور ایسے خطرے میں جس میں زیاں ہی زیاں مقدر ہو، کہاں کی عقل مندی ہے۔ ہر چیز کو نفع ونقصان کی میزان میں تولنے والوں کے لیے مجاہدین کے جذبات کو سمجھنا ممکن نہیں۔ ایک طرف عراق، شام، برما، بھارت، کشمیر اور بہت سے دیگر علاقوں میں مسلمانوں کی جان ومال کی حرمت کو پامال کیا جارہا ہے۔ مساجد پر حملے کیے جارہے ہیں، نمازیوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کی جارہی ہے، عورتوں کی عزتیں پامال کی جارہی ہیں، مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ دوسری طرف مسلمان حکمران ہیں جو اپنی غیرتوں کے سودے کرچکے ہیں، ایمانی جذبہ نام کی کوئی شے ان کے ناپاک وجودوں میں نہیں پائی جاتی، وہ یہود ونصاریٰ کے در کے بھکاری بن چکے ہیں، وہ مفاہمت کی پٹیوں ہی کو زندگی سمجھتے ہوں، اپنے اقتدار کی بقا اور لقمہ تر کے لیے وہ امت کا سودا کرچکے ہیں۔ یہ حکمران مسلم افواج کو اور مجاہدین کو فلسطین میں داخل ہونے سے روکتے ہیں تاکہ وہاں یہودی وجود کا قبضہ برقرار رہے۔ کشمیر میں داخل ہونے سے روکتے ہیں تاکہ مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے اور ان کا خون بہانے میں مودی کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ ایسے میں اگر یہ زیاں کار نہ ہوں، خطروں میں کودنے والے مجاہدین نہ ہوں، ہاتھوں میں غلیلیں اور پتھر لیے ظالموں کے مقابل آنے والے نہ ہوں تو مسلمانوں کی سرزمین پر کفار کے قبضے کب کے جائز اور مستند ہوچکے ہوتے۔ کسی کو یاد بھی نہ ہوتا کہ ان علاقوں میں کبھی مسلمان بستے تھے اور یہ علاقے مسلم سر زمین تھے، اسپین کی طرح۔ جب جنگ مسلط کردی جائے، جان ومال کا زیاں کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔ ان نہتے لوگوں کی یہی کامیابی کیا کم ہے کہ فلسطین سے کشمیر تک انہوں نے مسئلہ فلسطین اور کشمیر کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ ان قبضوں کو داخل دفتر نہیں ہونے دیا ہے۔
جہاد لازم ہوجائے تو بندوقوں کا انتظار نہیں کیا جاتا جو کچھ بھی دستیاب ہو خواہ وہ پتھر ہی کیوں نہ ہوں انہیں لے کر میدان میں اُترنا پڑتا ہے۔ افغانستان پرانی بات نہیں۔ ایک طرف اسٹنگر میزائل کاندھے پر رکھے افغان مجاہدین جن کے پاس ٹینک نہیں طیارے نہیں، لڑاکا ہیلی کاپٹر نہیں باقاعدہ فوج نہیں۔ دوسری طرف امریکا دنیا کی سب سے بڑی طاقت، سب سے بڑی جنگی مشین۔ فتح کس کی ہوئی؟ اگر غیرت ہو تو پتھر بھی ایٹم بم بن جاتے ہیں اور اگر غیرت نہ ہوتو ایٹم بم بھی مومی مجسمے کی نمائش بن کر رہ جاتا ہے۔ آج مسجد اقصیٰ کی ویران اور اُجڑی حالت زار دیکھ لیجیے اور اپنے دل سے پوچھیے کیا اب بھی زندہ رہنے کا جواز ہے۔ یہودی فوجیوں کے ہاتھوں گرفتار نہتے اور بے بس فلسطینی جوانوں، عورتوں اور بچوں کی مسکراتی ہوئی تصاویر ثابت کرتی ہیں کہ خدا کی قسم یہ مسلمان کامیاب ہوگئے اور بیرکوں میں بند مسلم افواج ناکام۔ ان افواج کو متحرک نہ کرنے والی قیادت سوچ رکھے اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کو کیا جواب دے گی؟ مسلمانوں کے لیے ان کا دین کا نفاذ، اسلام کا نظام، خلافت راشدہ کا نظام اب زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ تب ہی فلسطین سے یہودی قبضہ ختم ہوگا، کشمیر آزاد ہوگا اور دنیا بھر کے مسلمان سر بلند ہوسکیں گے۔